ترقی پسند تحریک : تعارف
ادب میں ترقی پسند تحریک ایک عالم گیر تحریک تھی جوفاشزم کی نفی اور اس کو رد کرنے کے لیے وجود میں آئی کیونکہ لوگوں کو ایک ایسے نظریے کی تلاش تھی جو فاشزم کے بالکل بریکس ہو۔ دنیا کو اشتراکیت یا کمیونزم کے نظریے میں فاشزم کوردکرنے کی طاقت نظر آئی ۔ کارل مارکس نے اشتراکیت یا کمیونزم کا نظریہ پیش کیا تھا ۔ اس وجہ سے اسے مارکسزم ( Marxism ) بھی کہا جا تا ہے۔
فاشزم میں ساری چیزیں چند افراد کی ملکیت ہوتی ہیں جبکہ اشتراکیت یا کمیونزممیں فاشزم کے برخلاف ہر چیز اجتماعی یا کمیونٹی کی ہوتی ہے ۔ سیاست سے لے کر معیشت تک ہر بات اور ہر چیز مشترک ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر کے دانشوروں نے اس نظریے کو ذہنی طور پر قبول کیا اور ایسے ہی دانشوروں نے ترقی پسند مصنفین کی تحریک شروع کی۔ سجاد ظہیر، ملک راج آنند اور بعض دوسرے ہندوستانی دانشور اس زمانے میں انگلستان ہی میں تھے۔ اسی وجہ سے انگلستان ہی میں 1935 ء میں ترقی پسند تحریک کی بنیاد پڑی اور وہیں ایک اعلان نامہ یا منشور بھی بنایا گیا۔
1936 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس منشی پریم چند کی صدارت میں لکھنؤ میں منعقد ہوئی اور ہندوستان میں باقاعدہ طور پر ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ ترقی پسند تحریک نے اردوشعروادب میں بڑی انقلابی تبدیلیاں پیدائیں۔ سرسید تحریک کے بعد یہی اردوادب کی اہم اور بڑی تحریک کی شکل میں ابھری۔ اس تحریک نے کئی نئی اصناف کو رواج دینے میں اور اردو شعر وادب کو نئے امکانات سے روشناس کرانے میں بہت بڑا حصہ ادا کیا ۔ ترقی پسند تحریک کی وجہ سے اردوشاعری میں اور خاص طور پر اردو نطم نگاری میں بڑی اہم اور دوررس تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ اردو نظم نگاری کو اس تحریک کی وجہ سے بڑا فروغ بھی حاصل ہوا اور بہت مقبولیت بھی حاصل ہوئی ۔
ترقی پسند تحریک نے جب ہندوستانی زندگی کے بنیادی مسائل کو موضوع سخن بنانے کو اپنے "اعلان نامے” میں شامل کر لیا تو انہیں اپنے بیان کے لیے کچھ وسعتوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اسی وجہ سے انہوں نے بے قافیہ و ردیف نظمیں، جنہیں معری نظمیں کہا جا تا ہے کہنی شروع کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آزاد نظم کو بھی فروغ دیا جس میں بحر تو ایک رہتی ہے لیکن بحر کے ارکان اپنی ضرورت کے مطابق گھٹائے اور بڑھائے جاتے ہیں۔ ابتدا میں ایسی نظموں کی بڑی مخالفت ہوئی لیکن متوازن انداز فکر رکھنے والوں نے کہا کہ شاعری میں اس طرز کی نظموں کی مخالفت نہیں ہونی چاہیے۔ ان مفکرین کا کہنا تھا کہ اگر ان نظموں میں دم خم ہوگا تو وہ مقبولیت حاصل کر لیں گی اور اگر ایسا نہ ہو تو خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان میں چونکہ جان تھی اسی وجہ سے ان نظموں نے اردو شاعری میں اپنی مستقل جگہ بنالی ہے۔
وقتی اور ہنگامی موضوعات
ترقی پسند تحریک کے منشور میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ہندوستانی زندگی کے بنیادی مسائل کو ادب اور شاعری میں لازمی طور پر جگہ دی جائے گی۔ اس لیے ترقی پسند تحریک سے متاثر بہت سے شاعروں نے وقتی اور ہنگامی موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ ان کے علاوہ بعض بہت بڑے اور اچھے شاعروں نے وقتی اور ہنگامی موضوعات پر نظمیں لکھیں۔ ان میں علی جواد زیدی، سردار جعفری اور مخدوم محی الدین کے نام شامل ہیں۔ ان شاعروں کا سرمایۂ خن صرف وقتی اور ہنگامی موضوعات تک محدود نہیں تھا اس وجہ سے ان کا نام اور کام آج بھی زندہ ہے
حب الوطنی
وقتی اور ہنگامی موضوعات کے ساتھ ایک اور رجھان ترقی پسند شعراء میں ملتا ہے جس میں وہ اپنے محبوب سے یہ کہتے ہیں کہ وہ جس راستے پر چل رہے ہیں اس میں عشق ومحبت کی گنجائش نہیں ہے ۔ وہ عشق ومحبت کے گیتوں کی جگہ حب الوطنی اور آزادی کے ترانے گانا چاہتے ہیں علی جواد زیدی کی نظم ”میری راہ” سردار جعفری کی نظم”انتظار نہ کرنا” اور اس سلسلے کی سب سے خوبصورت اور بے حد معروف نظم فیض کی ”مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ ہے”۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور رجحان یہ بھی ملتا ہے کہ وہ محبوب سے یہ خواہش کرتے ہیں کہ وہ اس آزادی کی جدوجہد میں شامل ہو جائے اور ان کے دوش بدوش چلے ۔ایسے خیالات کی سب سے بہترین اور بے حد کامیاب نظم مجاز کی ”نوجوان خاتون سے خطاب ” ہے جس کا ایک شعر تو ضرب المثل کی طرح مشہور ہوا ہے۔
تیرے ماتھے کا یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا
انقلاب اور آزادی وطن
بغاوت اور آزادی کی نظمیں لکھتے ہوئے اس زمانے کے کئی اہم شاعروں نے انقلاب کا ’’خونی تصور‘‘ پیش کیا تھا۔ مجاز کی نظم ”انقلاب” جاں نثار اختر کی نظم ”ساقی” سردار جعفری کی نظم ”جوانی” اور ”جنگ وانقلاب” معین احسن جذبی کی ”دعوت جنگ” مخدوم محی الدین کی ”موت کا گیت” اور ”مشرق” ان تمام نظموں میں ”خون آشامی” اور ”ادبی دہشت انگیزی” ملتی ہے۔ اسی وجہ سے سجاد ظہیر نے اس رجحان کو روکنے کے لیے ”اردو کی جد ید انقلابی شاعری” کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور اس انداز کی نظموں کی کوتاہیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ یہ انقلاب کا ”خونی تصور” ہے اور ایک طرح کی ”ادبی دہشت گردی” ہے۔ ایک انقلاب پرست نو جوان کے لیے جائز ہو تو ہو لیکن ”ایک اشترا کی شاعر” کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ انقلاب کے لیے جنگ میں حصہ لینے والے کے لیے ”ڈسپن” لازمی ہے اور اپنے پر قابو پانا ضروری ہے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ اس آگ میں ہمیں کودتا ہے لیکن "اسے گلزار بنانے کے لیے” سجا ظہیر کا مضمون بہت کارگر ثابت ہوا اور تمام اہم شاعروں نے یہی متوازن رویہ اختیار کیا۔
مجموعی طور پر ترقی پسند شاعری نے اس زمانے کی شعری فضا کو جس درجہ متاثر کیا اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وو شاعر جوترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں تھے انہوں نے بھی کسی قدر اسی رنگ میں شاعری کی ہے۔ ایسے شاعروں میں جگر مرادآبادی، آنند نرائن ملا، ساغر نظامی، روش صدیقی ، جمیل مظہری۔ جگن ناتھ آزاد اور حفیظ جالندھری کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ لیکن ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں ترقی پسند مصنفین نے جو بے لچک انداز اپنایا اور ساری ادبی قدروں سے صرف نظر کر کے سیاسی مطمح نظر ہی کو سامنے رکھا تو اس کی وجہ سے تحر یک کو زبردست نقصان پہنچا اور وہ رو بہ زوال ہوگئی۔ بھیمڑی میں 1949ء میں ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں انہوں نے نیا منشور بنایا جو ادبی سے زیادہ سیاسی تھا۔ کیونکہ اس میں ادیبوں کے لیے یہ اصول بنائے گئے کہ وہ صرف غم دوراں کو موضوع بنائیں۔ صرف آزادی اور انقلاب کے لیے شاعری کریں۔ فن کی جمالیاتی قدروں کو پیش نظر نہ رکھیں۔ یہ کہا گیا کہ ترقی پسند شاعروں کی پروپگنڈہ شاعری کی مخالفت کر نے والے سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہیں۔ شاعری میں رمزیت اشاریت تشبیہ اور استعارے کو جگہ نہ دیں۔ بہر صورت رجائیت کی بات کر میں۔ عوامی جد و جہد ہی کو شاعری کا موضوع بنا ئیں۔ جن شاعروں نے اس منشور پرمل کیا ان کی شاعری کو زبردست نقصان پہنچا کیونکہ وہ ادبی قدر و قیمت لذت اور چاشنی سے محروم ہوگئی۔ اس کے باوجود 1947 ء کے بعد بھی ایسے شاعر ابھرے جن کو ترقی پسند کہا جاسکتا ہے ان میں ابن انشاء، تیغ الہ آبادی، نریش کمار شاد، راہی معصوم، رضا اختر پیامی، منظر شہاب، بلراج کومل، حسن نعیم باقر مہدی، قاضی سلیم، وحید اختر، شاذ تمکنت، عمیق حفی، عزیز قیسی، کمال احمد صدیقی، منظر سلیم، رفعت سروش، شفیق فاطمہ شعری، حمایت علی شاعر، ز بیر نعیم، جاوید کمال اور انورمعظم کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ترقی پسندتحریک اپنے عروج پر پہنچ کر زوال پذیر ہوگئی ۔ گواب بھی ترقی پسند مصنفین کا ایک حلقہ موجود ہے لیکن یہ محدود اور مختصر ہو چکا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے بعد 1960ء کے بعد جدیدیت کا جحان اردو میں فروغ پانے لگا جس میں اشتراکیت اور جتماعیت کے برخلاف انفرادیت پر زور دیا جانے لگا۔ 1960ء کے بعد کی دہائی میں تجدید پسندی کی تحریک نے اردو نظم کو ایک نیا موڑ دیا، اس تحریک سے وابستہ شعراء نے نظم کو اپنے اندرونی احساسات اور کوائف کا ترجمان بنایا، انہوں نے علامت نگاری اور انوکھی تشبیہات و استعارات کے ذریعہ اردو نظم کو نیا رنگ و آہنگ دینا چاہا، یہ اور بات ہے کہ ان شعرا کی کوششوں سے اردو نظم کا رشتہ عام قاری سے کٹ گیا، اور اپنی تہدار معنویت کی وجہ سے وہ نقادوں اور دانشوروں کے دائرے تک سمٹ کر رہ گئی۔ ان جدید نظم نگاروں میں یوسف ظفرؔ، مجید امجدؔ، کمار پاشیؔ،بلراجؔ، عمیق حنفیؔ اور وزیر آغاؔ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ اردو نظم کا سفر ابھی جاری ہے۔ نظم گو شعراء، طرح طرح کے فنی تجربے کر رہے ہیں، یہ صحیح ہے کہ تجربے کے نام پر بہت سی ایسی نظمیں لکھی جا رہی ہیں جو نظم کے فنی معیار پر کسی طرح پوری نہیں اترتیں لیکن بہت سے شعراء نے اپنے تجربے میں اردو زبان کے مخصوص مزاج کو پیش نظر رکھ اور فن کے سرے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ان شعراء کی نظمیں یقیناً اردو شاعری کا قیمتی سرمایہ ثابت ہونگی۔
سرسید تحریک کے بعد ترقی پسند تحر یک اردو کی سب سے بڑی اور اہم تحریک ہے ۔ اس نے اردو شعر وادب میں انقلابی تبلیاں پیدا کیں اور اس کے دامن کو وسیع کیا۔