اردو میں نظم نگاری کا آغاز و ارتقاء : ایک تجزیاتی مطالعہ

اردواصناف شعر میں نظم کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے. یہ ہماری روایتی اصنافِ سخن میں سب سے قدیم صنف ہے، جو مختلف ہئیتوں میں ایک ہی موضوع اور کسی ایک خاص عنوان کے تحت لکھی گئیں اور اس کی بیت کی بنیاد پر کبھی اسے مثنوی کہا گیا کبھی قصیدہ اور کبھی مسدس۔

نظم کیا ہے؟

نظم میں کسی ایک موضوع پر تسلسل کے ساتھ اظہار خیال کیا جا تا ہے ۔ نظم میں موضوعات ایک سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں لیکن یہ سب ایک بنیادی موضوع کے تحت یا اس سے مربوط ونسلک ہوتے ہیں۔ نظم کا ایک مرکزی خیال ہوتا ہے جس کے گرد پوری نظم کا تانا بانا بنا جاتا ہے۔ ارتقا بھی نظم کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ طویل نظموں میں یہ ارتقاء واضح ہوتا ہے مختصر نظموں میں یہ ارتقاء واضح نہیں ہوتا اور اکثر و بیشتر ایک تاثر کی شکل میں ابھرتا ہے۔

نظم اور غزل کےمابین بنیادی فرق

غزل اور نظم میں بنیادی دو فرق ہیں:

  1. غزل کا ہر شعر ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے اور فی نفسہٖ مکمل ہوتا ہے جبکہ نظم کے جملہ اشعار ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں، نیز نظم کا ایک مرکزی خیال ہوتا ہے جس کے گرد پوری نظم کا تانا بانا بنا جاتا ہے۔
  2. غزل کا کوئی عنوان نہیں ہوتا جبکہ نظم اپنے موضوع کے موافق باقاعدہ عنوان رکھتی ہے ۔

پابند نظم اور معریٰ نظم کے مابین فرق

پابند نظم اس نظم کو کہتے ہیں جس میں ردیف، قافیہ اور بحر کے مقررہ اوزان کی پابندی کی جاتی ہے جبکہ قافیہ و ردیف سے آزاد لیکن پابند وزن و بحر پر مبنی شاعری کو معریٰ نظم کہا جاتا ہے۔

معریٰ نظم کی ابتدا انیسویں صدی میں فرانس سے ہوئی دی گرفک، والیری، بادلئیر اور ملارمے وغیرہ فرانسیسی شعراء نے آزاد نظمیں کہیں۔ امریکی شعراء فلفٹ، آلڈنگٹن، ٹی ایس ایلیٹ اور ایذراپاونڈ وغیرہ نے اسے ترقی دی۔ اُردو میں سب سے پہلی معریٰ نظم بیسویں صدی کے آغاز میں محمد اسماعیل میرٹھی نے کہی، تصدق حسین خالد، ن م راشد،  میراجی آزاد نظم گو اردو شعراء کے سرخیل مانے جاتے ہیں۔ شروع میں اسے "غیر مقفیٰ نظم” کہا جاتا تھا لیکن بعد میں عبد الحلیم شرر نے مولوی عبد الحق کے مشورے سے "نظم معرا” کی اصطلاح استعمال کی جو اب مقبول ہے۔

آزاد نظم کسے کہتے ہیں؟

آزانظم بھی مغرب سے لی گئی ہیئت ہے اور اردو میں یہ ہیئت بے حد مقبولیت رکھتی ہے۔ اس میں قافیہ ردیف کی پابندی نہیں ہوتی ، بحر کی بھی تحدید نہیں لیکن ایسا نہیں کہ اس میں بحر نہیں ہوتی ۔ بحر کے ارکان اور اس کے اوزان یا صوتی بندشوں کی پابندی ہوتی ہے ۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ معری نظم میں بحر کے مقررہ اوزان استعمال ہوتے ہیں یعنی اگر پہلے مصرعہ میں بحر کے چار ارکان استعمال ہوۓ ہیں تو اس کی پابندی نظم کے ہر مصرعے میں ہوتی ہے جب کہ آزادظم میں ارکان بحر کی تعداد ہر مصرعے میں متعین نہیں ہوتی جس کی وجہ سے مصرعے چھوٹے بڑے ہو جاتے ہیں۔ فرض کیجیے کسی نظم کے پہلے مصرعے کی بحر میں چار بار فاعلن کی تکرار ہوئی ہے، نظم آزاد میں بعد کے مصرعوں میں کہیں ایک کہیں دو کہیں تین کہیں چار اور کہیں چھ بار فاعلن کا استعمال ہوسکتا ہے۔

 نثری شاعری کسے کہتے ہیں

نثری شاعری انگریزی کی Prose Poetry کی تقلید ہے۔ نثری شاعری میں ردیف قافیہ وزن اور بحرکسی کی قید نہیں۔ ہاں ایک آہنگ ضروری ہے جس سے نثری شاعری پر رنگ آتا ہے ۔ بعض اوقات غیر ارادی طور پر مصرعے اوزان کے تحت آجاتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ۔ ہاں شعریت اور غنائیت ضروری ہے اور یہ شاعر کے شعری رویے پر منحصر ہوتی ہے۔ اردو میں نثری شاعری پر یوں تو کئی نے توجہ دی لیکن سجاد ظہیر، اور خورشید الاسلام کے نام نمایاں ہیں۔ مثال:

اگر
انسان کی
آنکھ نہ ہوتی
تو کائنات اندھی ہوتی

نظم گوئی کے ابتدائی نقوش

اردو شاعری میں موضوعاتی نظمیں محمد حسین آزاد سے قبل بھی موجود تھیں ۔اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ماضی میں نظم کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جو اس وقت کے مختلف اصناف میں جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔ اردو نظم کے سلسلے میں ہم اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ مغربی شاعری اور نظم نگاری سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا رشتہ اردو شاعری کی قدیم روایت سے بھی گہرا رہا ہے ۔ اس لیے اردو شاعری کی قدیم روایت کے وہ حصے خاصے اہمیت کے حامل ہیں جو نظم کو جد ید صورت میں تشکیل دینے میں مد ومعاون ثابت ہوئے ہیں ۔

اردو نظم کا دکنی دور

اردو نظم کا پہلا گہوارہ سر زمین دکن ہے۔ اس کی ابتدا نویں صدی ہجری میں ہوئی ہے۔ دکنی شاعری کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور جو چودھویں پندرہویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے۔ تاریخ میں ”بہمنی دور” کہلا تا ہے ۔ دوسرا دور سولہویں ستر ہویں صدی عیسوی پر محیط ہے ۔ یہ ”قطب شاہی دور” کے نام سے مشہور ہے۔ ادبی وشعری نقطۂ نظر سے یہ دور خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس دور کے مشہور شاعر محد قلی قطب شاہ، عبداللہ قطب شاہ، ملا وجہی، غواصی، ابن نشاطی اور نوری وغیرہ ہیں ۔ حضرت بندہ نواز گیسودراز دکن کے مشہور صوفی گزرے ہیں۔ انہوں نے کچھ رسالے تصوف کے لکھے تھے ۔ اس کے علاوہ کچھ نظمیں بھی کہی تھیں ۔ وہ ”شہباز” تخلص کرتے تھے۔ ان کی نظم "چکی نامہ” کا ذکر خوب ہوتا ہے۔ اس نظم میں انہوں نے چکی کے گیت کی صورت میں عورتوں کو مذہبی حقائق یا دلائے ہیں۔ "چکی نامہ”اردو کی پہلی نظم قراردی جاسکتی ہے۔ فنی لحاظ سے یہ ایک معمولی نظم ہے ۔ لیکن اس کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔

پہلا صاحب دیوان شاعر

سلطان محمد قلی قطب شاہ پہلا صاحب دیوان شاعر گذرا ہے ۔ اس کی نظمیں مختلف موضوعات پر ہیں ۔ ان میں موسموں، تہواروں، عمارتوں اور قلی قطب شاہ کی محبوباؤں کا تذکرہ ملتا ہے۔ ہندوستانی پھولوں پھلوں، چرند و پرند، رسم و رواج کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔ شوخ سانولیوں پریم پیاریوں سے پریم کی باتیں کرنا اس شاعر کا محبوب مشغلہ ہےتھا۔ یہ نظمیں صحیح معنوں میں ہندوستانی تہذیب کی مکمل تصویر پیش کرتی ہیں۔

قلی قطب شاہ کی نظموں میں موضوع کا ربط تو ملتا ہے لیکن منطقی ارتقا اور تعمیر کی کمی صاف جھلکتی ہے۔ ان کی نظموں میں گیرائی اور گہرائی نہیں ملی، تاہم نظم نگاری کا ابتدائی دور تھا اس لیے ان کی اہمیت اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ قدیم دکنی دور میں چند اور شعرا کا نام لیا جاسکتا ہے جنہوں نے دیگر اصناف سخن میں طبع آزمائی کرنے کے علاوہ کچھ نظمیں بھی لکھیں ان میں برہان الدین جانم اور علی عادل شاہ ثانی شاہی قابل ذکر ہیں ۔

نظم گوئی شمالی ہند میں

شمالی ہند میں افضل جھنجھانوی اور جعفر ذیلی کے یہاں اردو نظموں کے ابتدائی نقوش ملتے جاتے ہیں افضل جھنجھانوی کی نظم "بکٹ کہانی” ایک عشقیہ داستان یا یوں کہہ لیں کہ ایک منظوم افسانہ ہے جو تیری سو سے زیادہ اشعار پر مشتمل ہے۔ جس میں عورت کے جذبات و کیفیات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ نقاد اسے شمالی ہند کی نمائندہ اور اور قابل قدر تصنیف قرار دیا ہے۔

جعفر زٹلی نے ہجویہ نظموں پر خاص توجہ دی ان کی نظموں میں عریانی، فحاشی، تلذذ اور خیالات کی سطحیت ملتی ہے۔ ان کی زبان میں ناہمواری پائی جاتی ہے۔ جعفر زٹلی سپاہی پیشہ آدمی تھے ۔ اس لیے اپنی نظموں میں انہوں نے خارجی حقائق کو بڑی خوبصورتی سے نظم کیا ہے اور یہی وجہ تھی کہ ان کی نظم ’انقلاب زمانہ” کافی مشہور ومقبول ہوئی۔

دہلی میں ولی کے دیوان کی آمد کے بعد جن شعرا نے اردو شاعری کے فروغ میں نمایاں حصہ لیا ۔ ان میں فائز، حاتم آبرو و مظہر جان جاناں، اور خان آرزو وغیرہ اہم ہیں۔

آگے چل کر میر و سودا کا دور آتا ہے۔ اس دور میں بھی اردو شاعری اپنے ارتقائی منازل سے گزرتی رہی ۔ دہلی اور لکھنو میں اردو کے کئی اہم اور نامور شعرا پیدا ہوئے ۔ جنہوں نے اردو شاعری کو بام عروج پر پہنچا دیا ۔ چند ممتاز شعرا کے نام اس طرح ہیں۔ محمد رفیع سودا، میر، میر حسن، جرات، انشاء، مصحفی، نظیر، ذوق، مومن، غالب، ناسخ اور آتش وغیرہ ۔ اس کے علاوہ مرثیہ گو شعرا جن میں ضمیر، خلیق، انیس اور د بیر وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔ بحیثیت مجموعی یہ دور اپنی غزل گوئی کے لیے مشہور ہے اور نظیر اکبر آبادی کے علاوہ کسی نے نظم کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی، اس لیے نظیر اکبر آبادی کے علاوہ کسی شاعر کو نظم گوشاعر کا درجہ دینا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ یہی اس دور کا وہ اکلوتا شاعر ہے جس نے روایت سے الگ ہو کر شاعری کی اور نظم کو اپنے خیالات و تجربات وسیلہ بنایا۔ انہوں خواص کو چھوڑ کر عوام کے لئے شاعری کی۔ آج اردو نظم کافی آگے بڑھ چکی ہے نظیر کی حیثیت روشن مینار کی سی ہے۔ نظیر کے انتقال کے بعد کچھ دنوں تک نظم کی دنیا خاموش رہتی ہے پھر اردو نظم کی دنیا میں محمد حسین آزاد اور خواجہ الطاف حسین حالی اہم نظم گو شعراء کی حیثیت سے منظر عام پر آتے ہیں، نظیر سے لیں کر محمد حسین آزاد تک کا دور خاص طور سے غزلوں کا دور رہا۔ نظم پر توجہ نہیں دی گئی۔

حالی کے بعد کے ادوار میں اسماعیل میرٹھی، اکبر الہ آبادی اور شاد عظیم آبادی نے بھی نظم کی فروغ میں اہم کارنامے انجام دیے۔ اور اردو نظم کو ایک پہچان بخشی۔

اس کے بعد اردو نظم کی ارتقاء میں اقبال کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نظم کے سلسلے کو مزید آگے پہونچایا۔ اقبال اردو کے اہم مفکر شاعر کی حیثیت سے ابھرے۔ انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعے اپنے مخصوص نظام فکر کو محسوس کیا۔ ان کی نظموں میں ربط و تسلسل ہے، مدلل اور مربوط فلسفہ ہے۔

اسکے بعد کے ادوار میں جوش، فراق اختر شیرانی اور ساغر نظامی کا نام اردو نظم نگاروں میں سر فہرست نظر آتا ہے

ترقی پسند تحریک اور نظم نگاری

1935ءمیں ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کی شروعات ہوچکی تھی۔ کئی اچھے اور با صلاحیت نو جوان شعراء اس تحریک میں شامل ہو گئے۔ اور کچھ پرانے ادیب بھی اس کی حمایت کرنے لگے۔

شعراء میں فیض خالص ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔ رومانوی فکر سے حقیقت نگاری کی طرف نکل آنے کا عمل ان کے یہاں واضح دکھائی دیتا ہے۔ فیض کے علاوہ اسرار الحق مجاز بھی اول اول اس تحریک کے نمائندہ شاعر کی حیثیت سے آئے بعد اگرچہ کہ اس سے منحرف ہوکر اپنی ایک الگ راہ نکال لی، انہوں نے بہت خوبصورت نظمیں لکھی ہیں۔

ان کے علاوہ جاں نثار اختر، علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی، احمد ندیم قاسمی اردو نظم گوئی کے نمائندہ شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔

نظم آزادی کے بعد

آزادی کے بعد اردو نظم میں بہت سارے رجحانات در آئے ۔ کچھ رجحانات کا سلسلہ مغرب کی جدید نظموں سے ملتا ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے زمانے میں انسان مشینی زندگی کا ایک پرزہ بن کر رہ گیا ہے۔ صنعتی نظام حیات میں انسان کی تنہائی، بے بسی بےچارگی کے احساسات سے دوچار ہوتی ہے۔ لوگ شہروں کی طرف جارہے ہیں ۔ بڑے اور صنعتی شہروں کی بھاگ دوڑ سے خاندان کا شیراز منتشر ہورہا ہے۔ تنہائی نے خودغرضی کے جذبات کو فروغ دیا ہے۔ انسان کی تمنائیں آرزوئیں خواہشات صرف اپنی ذات تک ہی محدود ہورہی ہیں ۔ یہ دور شدید ذہنی خلفشار برہمی اور ملال کا دور ہے۔ صرف اردو ہی نہیں اس دور کی تمام زبانوں کی نظموں میں ان کیفیتوں کا اظہار ہو رہا ہے۔ عمیق حنفی وحید اختر ابن انشاء وزیر آغا وغیرہ کی نظموں میں اس دور کی عکاس ملتی ہے ۔سلیم احمد کی نظم "مشرق” کافی مقبول ہوئی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے مشرق و مغرب کے دو زادیوں اور دوتہذیبوں کے مجادلے کو پیش کرتے ہیں، آدھی صدی کے بعد وزیر آغا کی نظم ہے جو پانی کے دھارے کو ایک ایسے انسان کی تمثیل کے طور پر پیش کرتی ہے، فہمیدہ ریاض کی نظم "کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے؟” اردونظم کے سفر کا ایک اہم موڑ ہے ۔

خلاصۂ کلام

الغرض اردو نظم ہی ایک ایسی صنف ہے جس میں زندگی کے تغیر و تبدل، زمانے کی شکست وریخت اور انقلابات کو بڑی خوبی وضاحت اور علامتی تہہ داری کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ تمام اصناف سخن جو بھی آرائش محفل ہوا کرتی تھیں زمانے کی کروٹوں کے ساتھ ناپید ہوگئیں یا انہوں نے اپنی ہیئت ہی بدل دی لیکن اردو نظم میں آج بھی نئی توانائی محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سارے اسباب ہیں جن سے ہمیں مستقبل میں اردو ظم کے امکانات روشن اور تانباک نظر آتے ہیں۔ اردو نظم کی وسعتوں اور امکانات کو دیکھتے ہوئے ہیں امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ اردو ظلم نہ صرف زندہ رہے گی بلکہ اس کا ارتقائی عمل بھی جاری وساری رہے گا۔

اشتراک کریں