خط عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی لکیر یا تحریر کے ہیں، زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ لفظ خط کے معنیٰ و مفہوم میں بھی تبدیلی آئی اور یہ لفظ مکتوب یا نامہ کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔
خط دراصل دو افراد کے مابین ترسیلِ خیال کا ایک وسیلہ ہے جس میں ایک شخص کسی دوسرے شخص کو اپنا پیغام پہونچاتا ہے۔ dictionary of world literature کےمطابق:
خط عام طور سے مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے درمیان تبادلہ خیال کا ذریعہ ہے۔
ایک اچھا خط غزل کے فن کی طرح اختصار و جامعیت، سادگی اور بے ساختہ پن، احساس کی لطافت، سچائی اور خلوص کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ خطوط عموما صیغہ واحد متکلم میں ہوتے ہیں ان میں روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن کا تعلق مکتوب نگار یا مکتوب الیہ سے ہوتا ہے۔
مکتوب نویشی اگر دو ادبی شخصیتوں کے درمیان ہو تو اس کی اہمیت اور افادیت دو چند ہو جاتی ہے۔ مکتوب ایک تحریر ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسے صاف اور شفاف آئینے کی بھی حیثیت رکھتا ہے جس میں صاحب تحریر کی شخصیت اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے۔
اردو میں خطوط نویسی کا آغاز
فارسی اصنافِ ادب کی تقلید میں اردو میں مکتوب نگاری کا آغاز ہوا اور دیگر اصناف ادب کی طرح اردو میں بھی مكتوب نگاری کے اولین نمونے دکن میں ملتے ہیں، لیکن یہ بتانا مشکل ہے کہ پہلا خط کب اور کس نے تحریر کیا تھا. پروفیسر عنوان چشتی کی تحقیق کے مطابق اردو کا پہلا خط 6 دسمبر 1922 میں تحریر کیا گیا تھا، چنانچہ پروفیسر عرفان چشتی لکھتے ہیں:
اردو کا پہلا دستیاب شدہ خط 6 دسمبر 1922 کا ہے جس کے لکھنے والے بہادر نواب کرناٹک کے بیٹے حسام الملک بہادر ہیں انہوں نے یہ خط اپنی بڑی بھابھی نواب بیگم صاحبہ کو لکھا تھا
خطوط نویش غالب سے پہلے
عام طور پر مرزا غالب کو اردو میں مکتوب نگاری کا موجد سمجھا جاتا ہے لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ غالب سے پہلے بھی اردو میں مکتوب نگاری کی روایت موجود تھی۔ یہ اور بات ہے کہ ان مکاتیب میں سادگی اور بے تکلفی نہیں تھی۔
غالب سے پہلے کے مکتوب نگاری کے سلسلے میں نے دو نام اہمیت کے حامل ہیں ایک "رجب علی بیگ سرور” اور دوسرا "غلام غوث بے خبر” کا ہے۔
رجب علی بیگ سرور
رجب علی بیگ سرور کے مجموعۂ مکاتیب "انشائے سرور” کو مرزا احمد علی نے مرتب کرکے 1886 میں نول کشور پریس لکھنؤ سے شائع کیا تھا۔
سرور ایک باکمال مکتوب نگار تھے وہ خطوط نویسی کے فن پر مہارت رکھتے تھے اور موقع کی مناسبت سے مختلف اسالیب استعمال کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے خطوط میں کہیں سادگی و پرکاری نظر آتی ہے تو کہیں مسجع منفی عبارت کی فراوانی۔
غلام غوث بے خبر
غلام غوث بے خبر کے دو مجموعہ مکاتیب کا پتہ چلا ہے ایک "فغانِ بے خبر” ہے اور دوسرا "انشائے بے خبر”. پہلا ناپید ہے اور آخر الذکر کو مرتضی حسین بلگرامی نے 1960 میں علی گڑھ سے شائع کیا تھا۔
ان کے خطوط کے مطالعے سے پتہ چلتا بے کہ خبر کےیہاں دو اسالیب کی کار فرمائی ہے، ایک وہ جو اس وقت کا مروجہ اسلوب ہے۔ جس پر فارسی کی گہری چھاپ ہے۔ دوسرا وہ جس میں سادگی اور روانی کی جھلک نظر آتی ہے۔ مگر بے خبر کے خطوط میں فارسی کے اثرات اس قدر نمایاں ہیں کہ ان کے اسلوب کا دوسرا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے۔
اردو میں مکتوب نویسی کا ارتقاء اسد اللہ خان غالب
مرزا غالب اردو کے اہم شاعر تھے اتنے ہی اہم نثر نگار بھی تھے، اگر انہوں نے شاعری نہ کی ہوتی اور صرف اردو خطوط لکھے ہوتے تاریخ بھی تاریخ ادب اردو میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہتا ۔ غالب کے خطوط کے مجموعوں میں "مہرِ غالب”، "خطوط غالب”، "عود ہندی”، "اردوئے معلیٰ”، "مکاتیب غالب”، "نادرات غالب” کے علاوہ وہ ان کے اور بھی بہت سے خطوط مختلف رسالوں اور کتابوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان مجموعوں میں سب سے زیادہ شہرت "عود ہندی”، اور اردوئے معلیٰ کو حاصل ہوئی۔ ان کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔
غالب کا شمار جدید اردو نثر کے معماروں میں ہوتا ہے۔ ابتدائی زمانے میں غالب اپنے دوست احباب کو فارسی میں خط لکھتے تھے، لیکن بعد میں جب بہادر شاہ ظفر کے حکم پر "مہر نیم روز” فارسی میں لکھنے کا کام ان کے حوالے ہوا تو ضعیفی اور عدیم الفرصتی کی وجہ سے انہوں نے اپنے احباب کو فارسی کے بجائے اردو میں خط لکھنے شروع کر دیئے تھے۔ (یادگارغالب صفحہ ۱۹۷)
اس دور کے مکتوب نگاری پر فارسیت کی گہری چھاپ تھی، اردو خود میں عربی و فارسی کے مشکل اور غیر مانوس الفاظ و تراکیب، مسجع مقفی عبارت، مخاطبت کے لیے طویل فقرے و القاب کا استعمال عام تھاکا استعمال عام تھا۔ غالب کی جدت پسندی نے اس رجحان کے برعکس نہ صرف بول چال کے انداز میں سیدھی سادی اور عام فہم زبان استعمال کی بلکہ القاب و آداب کے الفاظ بھی مختصر کر دیے۔
غالب کے خطوط کا مطالعہ کریں تو ایسی سادگی پسند نثر نگار کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں جسے پر تصنع اور پر تکلف عبارت پسند نہیں ہے۔ خطوط مین غالب اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ بات چیت کے انداز میں سیدھے سادے مختصر الفاظ میں اپنا ما فی الضمیر بیان کر دیں۔ انہوں نے اپنی تحریر کو گویا تقریر کا آئینہ بنا دیا ہے اور مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
چاہتا ہوں کی کم سے کم الفاظ میں اپن بات کہہ دوں اور تحریر کو تقریر کا آئینہ بنا دوں۔ (مکتوب بنام مرزا علی بخش خان)
اپنے دوسرے خط میں لکھتے ہیں:
میاں صاحب میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے ہزاروں کوس سے بہ زبان باتیں کیا کرو ہجر میں وصال کے مسئلہ کرو کرو مزہ لیا کرو کرو (مکتوب بنام حاتم على مہر)
اردو مکتوب نگاری میں غالب نے جو مخصوص اسلوب اختیار کیا تھا اور مراسلے میں مکالمہ یا تحریر میں تقریر کاجو لطف پیدا کر دیا تھا اس کی مکمل پیروی نہ تو غالب کے معاصرین کر سکے اور نہ ان کی بعد کسی نے کی۔
الطاف حسین حالی
حالی کے خطوط کے دو مجموعے جو ان کے آخری زمانے کے خطوط پر مشتمل ہیں، ان کے فرزند خواجہ سجاد حسین نے 1925ء میں شائع کیے تھے یہ مجموعی کئی لحاظ سے ناقص ہیں، ایک تو اس لئے کہ اس کی کتابت گزرتے وقت کے ساتھ ناقابل فہم ہو چکی ہے دوسر یہ کہ مرتب کے خطوط کے ان مجموعوں میں جگہ جگہ خواتین اور ان شخصیات کے ناموں کی جگہ نقطہ لگا دیے ہیں جو اس وقت حیات تھے۔
حالی کے خطوط کا ایک اور مجموعہ مولوی اسماعیل پانی پتی نے "مکاتیب حالی” کے نام سے شائع کیا جس میں انہوں نے حالی کے وہ خطوط جمع کی ہیں جو پہلے مجموعے میں شامل نہیں تھے، اس کتاب میں حالی کے ۱۱۱ اردو اور ۳۸ عربی و فارسی کے خطوط شامل ہیں۔
ان خطوط میں زیادہ تعداد ان خطوط کی ہے جو حالی کی قرابت داروں عزیزوں کے نام ہیں ان میں اکثر و بیشتر روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور اپنے اور دوسروں کے آلام و مصائب کا تذکرہ آیا ہے۔ اس کے علاوہ چند خطوط دوستوں اور ہم عصروں کے نام بھی ملتے ہیں جس کے مطالعے سے ان کے دلی جذبات اور محسوسات کا پتہ چلتا ہے بعض خطوط میں ادبی نکات اور تنقید بھی ہے لیکن ایسے خطوط کی تعداد بہت کم ہے۔
حالی کے خطوط میں غالب اور شبلی کے خطوط کی طرف رنگینی اور شوخی نہیں ملتی بلکہ سرسید کی تحریروں کی طرح سادگی نظر آتی ہے۔ حالی کے کسی خط سے یہ معلوم نہیں ہوتا یہ بہت غور و خوص کے بعد لکھا گیا ہے۔ انہوں نے کبھی غالب یا شبلی کی پیروی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خطوط صحیح معنوں میں سادگی اور روانی اور بے ساختگی کا نمونہ ہیں۔ حالی کی سیرت و شخصیت کا عکس ان کے مکاتیب میں دکھائی دیتا ہے۔
شبلی نعمانی
سرسید احمد خان کے دور میں متعدد شاعروں اور ادیبوں کے خطوط کے مجموعے منظر عام پر آئے، ان مجموعوں میں مکاتیب شبلی کو اپنے ایجاز اور اختصار، تازگی اور شگفتگی اور عالمانہ وقار کے بنا پر غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔
شبلی کے خطوط کے دو مجموعہ "مکاتیب شبلی” اور "خطوط شبلی” کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا مجموعہ شبلی کی ادیبانہ و عالمانہ شخصیت کی عکاسی کرتا ہے اور دوسرا اردو میں رومانی نثر کا اولین نمونوں میں شمار ہوتا ہے
بایں طور شبلی دو خانوں میں منقسم ہو گئے جیساکہ میں نظیر حسنین زیدی لکھتے ہیں:
نہیں معلوم نہیں کیوں شبلی کی زندگی دو خانوں میں بٹ گئی یا ان کی زندگی کو دو خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ان دونوں خانوں کی نقاشی دو مختلف مکاتب فکر نے کی ہے، ایک طرف ندوۃ العلماء کا گروہ ہے اور دوسری طرف علی گڑھ کے نقاد۔ ایک کے سربراہ سید سلیمان ندوی ہیں تو دوسرے کے شیخ محمد اکرام۔ ایک کے خیال میں شبلی سید العلماء ہیں تو دوسرے کے خیال میں عشقیہ خطوط کے بانی۔ (غالب تاریخ کے آئینے میں ۹۳)
حقیقی بات یہ ہے کہ شبلی کثیرالجہات ادبی شخصیت کے مالک تھے، وہ ایک زبردست عالم دین نقاد اور مورخ تھے۔ اور اس کے پہلو بہ پہلو ایک باکمال شاعر بھی تھے، اس لئے ان کے مکاتیب میں بھی ان کی شخصیت کے مختلف رنگوں کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔
شبلی کی مکتوب نگاری کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
-
شبلی خط نہایت مختصر لکھتے تھے کبھی کبھی "ہاں”، "ناں” پر اکتفا کرتے تھے۔
-
مختصر نویسی کی اصل خوبی یہ ہے کہ اختصار لفظ کے ساتھ معنی میں پوری وسعت ہو، یہی خصوصیت مولانا کی انشاءپردازی اور بلاغت کی جان ہے۔ وہ انہیں ایک دو فقروں سے بہت کچھ کہ جاتے ہیں جو ہم کئی صفوں میں نہیں کہہ سکتے۔
-
شبلی القاب و آداب کی پرواہ نہیں کرتے اکثر بلا تمہید کا مطلب شروع کر دیتے ہیں۔
-
تمام مکاتب کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا ہر شخص سے اس کے مذاق اور تعلقات کے مطابق گفتگو کرتے ہیں۔
شبلی کے خطوط کے نمونے
"ندوہ فرضی مذہبی ہے اور شاعری فرض طبعی۔ کس کو چھوڑوں۔ پھر اسی پر موقوف نہیں یک دل و صد ہزار سودا، خیر بہر حال گزر جاتی ہے”
"حیات جاوید میں مولانا حالی نے سید صاحب کی یکبرخی تصویر بھیج دکھائی ہے، میں اسے مدلل مداحی سمجھتا ہوں”
"قاضی صاحب ہمارے کام کے آدمی نکلے۔ نیچا سنتے تو خوش صحبت بھی تھے۔ جوان ہوتا تو ان سے باتیں کر لیتا بڑھاپے میں اذان دینا ہے ذرا مشکل ہے”
مہدی افادی
مہدی افادی حالی اور شبلی کی کثیر تصانیف نہیں تھے۔ اردو دنیا میں ان کی شہرت کا دار و مدار ان کی دو تصانیف ہیں۔ایک ہے "افادات مہدی” اور دوسری مکاتیب مہدی۔ پہلا ان کے مضامین کا مجموعہ ہے اور دوسرا ان کے خطوط کا۔
خطوط نگاری میں مہدی افادی شبلی کے رنگ رنگ کے مداح ان کے پیرو تھے وہ اپنے خطوط میں مکتوب الیہ کی ذات کو زیادہ مرکزِ توجہ بناتے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ توجہ حسن بیاناور ادیبانہ شان پر دیتے ہیں۔ ان کے کم و بیش ہر خط میں ادبیت کی چاشنی موجود ہوتی ہے۔ وہ اپنے مخصوص اسلوب بیان کی وجہ سے ہمیشہ قاری کی دلچسپی کا مرکز بنے رہیں گے۔
حسن پسند تھے بالکل شبلی کی طرح۔ ان کا ادبی ذوق رچا ہوا تھا۔ ان کی مراسلت اس دور کے تقریبا سبھی معروف ادیبوں اور شاعروں سے تھی۔ جن میں حالی اور شبلی کے علاوہ بہت سارے لوگ شامل تھے
مہدی افادی پیشے کے اعتبار سے تحصیلدار تھے بھی انہیں اپنے فرائض منصبی سے جب بھی فرصت ملتی تو اپنا زیادہ تر وقت خطوط نویسی میں صرف کرتے تھے۔
مہدی افادی اپنی خطوط میں مختلف انداز سے شوخی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہیں کبھی رمزو اور اشاروں سے کام نکالتے ہیں تو کبھی انتہائی سنجیدہ اور خشک موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی شوخی تحریر سے باز نہیں رہتے تے
ڈاکٹر محمد اقبال
علامہ اقبال بیگ عظیم المرتبت شاعر تھے بلکہ ایک بلند قامت نثر نگار تھے۔ ان کے مجموعہ مکاتیب کی تعداد ایک درجن سے زیا دہ ہے، جن میں کل خطوط کی تعداد تقریبا 1300 ہے سے زیادہ ہے ان کے مکاتیب کے مجموعوں میں "اقبال نامہ”، "اشادۂ اقبال”، "انوار اقبال”، "خطوط اقبال” وغیرہ قابلِ ذکر ہیں. ان کے علاوہ اقبال کے بہت سارے خطوط منتشر حالت میں مختلف اخبارات اور رسائل میں بھی بکھڑے ہوئے ہیں۔
اقبال نے اپنی زندگی میں ہزاروں خطوط لکھے، ان کے مداحوں اور دوستوں خا حلقہ خالی وسیع تھا۔ انہوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں خطوط لکھے۔ ان کی مراسلت نہ صرف ہند و پاک کے معاصرین سے تھی بلکہ سمندر کے پار ملکوں کے اہل قلم حضرات سے بھی ان کے رابطے میں تھے۔ معاشرے میں ہر طبقے کے لوگ انہیں خط لکھا کرتے تھے اور اقبال ان کے خط کا جواب باقاعدگی سے دیتے تھے۔ آج تک کسی کو یہ شکایت نہیں ہوئی کہ اقبال کی طرف سے وہ خطوط سے محروم ہیں۔
اقبال کی صاف گوئی قطری اوربے باکی ان کے خطوط سے ظاہر ہے۔ اقبال کے خطوط سے ایک طرف مکتوب نگار کی انسانی، سادہ دلی اور خلوص کا پتہ چلتا ہے۔ تھیں اور دوسری طرف ہر ایک کی حوصلہ افزائی اور کے لئے عزت و احترام کے جذبے کا علم ہوتا ہے۔
ابو الکلام آزاد
مولانا آزاد کی خطوط نگاری اس نقطۂ عروج پر پہنچتی ہے جہاں ادب کی بین الاقوامی سر زمیں نمودار ہوتی ہے۔ یوں تو آزاد کے خطوط کے کئی مجموعے منظر عام پر آئے لیکن اپنی منفرد خصوصیت کی بنا پر جو شہرت اور مقبولیت "غبار خاطر” کے حصے میں آئی ایسی مقبولیت کسی اور مجموعے کو نہ مل سکی۔
"غبار خاطر” کے علاوہ مولانا کے خطوط کے دیگر بھی ہیں مثلا "کاروان خیال”، "مکاتیب عبدالکلام آزاد”، "تبرکات آزاد” اور "میرا عقیدہ” کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ "کاروان خیال” مولانا ابوالکلام آزاد اور نواب حبیب الرحمٰن خان شروانی کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ "مکاتیب ابو الکلام” میں مولانا کے حالی اور شبلی اور سید سلیمان ندوی وغیرہ کے نام تحریر کیے گئے مکاتیب کا جمع ہیں۔
غبار خاطر مولانا آزاد کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو قلعہ احمد نگر کے زمانۂ اسیری میں 13 اگست 1942ء سے 3 ستمبر 1945 کے درمیانی عرصے میں حبیب الرحمن شیروانی کے نام تحریر کیے تھے۔ یہ اور بات ہے یہ خطوط مکتوب الیہ کو حکومت کی طرف سے پابندی کے سب مطبوعہ شکل میں اس وقت ملے جب "غبار خاطر” کی شکل منظر عام پر آ چکے تھے۔ مولانا کا قلعہ احمد نگر کی اسیری کا یہ وہ زمانہ تھا جب کہ انہیں کسی سے ملنے کی اجازت نہ تھی اور نہ خط و کتابت کی۔ غلبأ اسی لیے مولانا نے مکتوب نگاری کو اپنے دل کا غبار دور کرنے کا طریقہ بنایا۔
مولانا آزاد ایک کثیرالجہات شخصیت کے مالک تھے۔ بیک وقت وہ ادیب بھی تھے اور مقرر بھی، سیاسی رہنما بھی تھے مفکر بھی۔ مولانا کے خطوط کے مطالعے سے مولانا کے مشاہدات زندگی، محسوسات، خیالات عزائم، اندازِ فکر اور ان کی پسند و ناپسند کا پتہ چلتا ہے۔ خطوط غالب کے بعد تاریخ ادب اردو میں اگر کسی کے خطوط کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے تو وہ مولانا آزاد کے مکاتیب ہی جن میں "غبار خاطر” سر فہرست ہے۔ غبار خاطر کی اکثر خطوط کافی طویل ہیں، ان میں مکتوب الیہ کے پس پردہ چلا جاتا ہے۔ اور مکتوب نگار کی شخصیت اور اس کے افکار و خیالات نمایاں ہوجاتے ہیں ان خطوط میں ادب کے پہلو بہ پہلو مذہب، فلسفہ، تاریخ، اور فنون لطیفہ بھی کچھ ہے۔ وجہ ہے کہ بعض نقاد نے انہیں مضامین کہا ہے تو بعض نے انشائیہ۔
مولوی عبد الحق
مولوی عبدالحق کے خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ انہوں نے جس قدر خطوط لکھے غالبا اردو میں کسی اور مکتوب نگار نے نہیں لکھے۔ ان کے بے شمار خطوط ابھی بھی مختلف رسالوں اور کتابوں میں بکھرے ہوئے ملیں گے۔
مولوی عبدالحق ایک زود نویس مکتوب نگار ہیں وہ اپنے خطوط میں مطلب کی بات کرتے ہوئے غیرضروری امور سے اجتناب کرتے ہیں ان کی خطوط نویسی مدعا نگاری کی بہترین مثال ہے۔ انہوں نے حسب ضرورت طویل خطوط بھی لکھے ہیں اور مختصر بھی۔ ان کے خطوط میں حقیقت نگاری، صداقت پسندی اور خلوص کی جھلک ملتی ہے۔
مولوی صاحب کے خطوط میں نہ تو انشاء پردازی اور خطابت کا انداز نظر آتا ہے اور نہ خشک موضوعات اور فلسفیانہ مباحث کا۔ سادگی روانی، شگفتگی اور بلا کی برجستگی پائی جاتی ہے۔ خطوط میں وہ بات چیت کا سا انداز اختیار کرتے ہیں۔
رشید احمد صدیقی
خطوط نگاری کی دنیا میںبرشید احمد صدیقی کا نام بھی بہت اہم مقام رکھتا ہے۔ ان کے خطوط کے چھ مجموعہ شائع ہوچکے ہیں۔ رشید کے خطوط میں ہر جگہ ان کا مخصوص اور منفرد انداز نگارش نمایاں ہے۔ بعض خطوط میں انہوں نے اپنی معاصرین پرکھل کر اعتراضات کیے ہیں بعض جگہوں پر طنز بھی کیا ہے، اور بعض کی تعریف و توصیف بھی کی ہے۔ مکتوب نگاری ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بعد غالبا انہوں نے ہی سب سے زیادہ خطوط لکھے ہیں، اور ان مین اپنے جذبات و احساسات کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم انہیں اپنے خطوط کی نشر و اشاعت پسند نہ تھی۔ وہ اکثر ان کو تلف کر دینے کی ہدایت کرتے تھے چنانچہ لکھتے ہیں:
بے تکلف اور مخلص دوستوں کو خط لکھنے میں بہت لطف آتا ہے۔ ان خطوط میں مجھے سب کچھ لکھ دینے مطلق پاک نہ ہوتا، یہ میرے اچھے برے میرے اچھے برے خیالات و جذبات کی اچھی ترجمانی کرتے ہیں، میرے نزدیک اچھے خط وہ ہوتے ہیں جنہیں شائع نہ کیا جا سکے۔ (آل احمد سرور ۔۔۔ رشید احمد صدیقی کے خطوط – ص10)
خلاصہ کلام یہ کی خطوط کا شمار اردو نثر کے غیر افسانوی نثر میں ہوتا ہے اور فارسی نثر کی تقلید میں اس کا آغاز۔ اردو میں مکتوب نگاری کب اور کہاں ہوا یہ بتانا مشکل ہے۔ اردو میں خطوط نویسی کا آغاز کب ہوا؟ بعض محققین کا بیان ہے کہ یہ اردو کا پہلا خط 6 دسمبر 1822ء کا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے پہلے اردو میں اردو خطوط نویسی کی روایت موجود نہ تھی۔ یہ صحیح ہے کہ اب تک دریافت شدہ دودھ کے سرمائے میں اردو کا پہلا دستیاب شدہ خط 1822ء کا ہے لیکن مختلف تحقیق سے پتہ چلتا ہے اس سے قبل بھی اردو میں مکتوب نگاری کی روایت موجود تھی اردو کے قدیم خطوط دکن کے علاقے میں ملتے ہیں زیادہ تر نظم کی ہیئت میں ملتے ہیں۔