ڈاکٹر آفتاب اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت پر ایک تعزیتی نظم
تیری جدائی کےصدمے سے بےقرارہیں ہم
کہاں گئے میرے ہمدم کہ سوگوار ہیں ہم
تو ہم سے دور سہی پر دلوں کے پاس ہے تو
ہمارے من میں مہکتا ہوا گلاب ہے تو
ترے وجود کو ہرگز نہ بھول پائیں گے
تو میرے دل میں ہے روشن کہ "آفتاب” ہے تو
وفورِ غم سے ہیں معمور بے قرار ہیں ہم
کہاں گئے میرے ہمدم کہ سوگوار ہیں ہم
☆☆☆☆☆
کبھی نشیب، کبھی تھا فراز، چلتے رہے
تمہاری زیست میں ہر مرحلے گزرتے رہے
نہ آسکی کبھی پائے ثبات میں جنبش
تمام عمر لڑے، مشکلوں سے لڑتے رہے
گیا’ وہ مردِ مجاہد، کہ بے قرار ہیں ہم
کہاں گئے میرے ہمدم کہ سوگوار ہیں ہم
☆☆☆☆☆
بساطِ درس ہے تیرے بغیر سُونی سی
تیرے بغیر تو محفل ہے اب یہ سُونی سی
جو تو نہیں ہے تو کاٹے ہیں یہ در و دیوار
تیرے بغیر تو شاخِ چمن ہے سُونی سی
توچشمِ تر میں ہےپنہا کہ بیقرارہیں ہم
کہاں گئےمیرےہمدم کہ سوگوار ہیں ہم
☆☆☆☆☆
الہی! میری دعا یہ قبول کرلے تو
خطائیں معاف ہوں نیکی قبول کرلے تو
تیری عطا ہو، تیرا فضل ہو سدا ان پر
مَآل ان کا ہو جنت، قبول کر لے تو
دعا بلب ہیں، دل و جاں سے بے قرار ہیں ہم
کہاں گئے میرے ہمدم کہ سوگوار ہیں ہم
☆☆☆☆☆