دنیا کا ہر فرد بشر عزّت وشرف توقیر وترقی کا خواہاں اور متمنّی ہے ہرایک کے دل میں خوب سے خوب تر مقام کے حصول کی خواہشیں انگڑاٸیاں لیتی رہتی ہیں کوٸ نہیں چاہتا کہ لوگ اسکی عزت وتوقیر میں کوٸ کور کسر باقی رکھیں
کرّہ ارضی پر بسنے والی تمام مخلوقات میں عقل وخرد ،علم وعمل اور شعور کی پختگی کے اعتبار سے حضرت انسان کا مقام بلند وبرتر ہے چونکہ چوپایوں ،جانوروں اور دیگر خلاٸق کے برعکس انسانوں کو اللہ رب العزت نے متنوع خصوصیات اور خوبیوں سے بہرہ ور کرکے فکر ونظر میں پختگی ودیعت کی ہے
شکل و شباہت، ڈیل و ڈول اور بناوٹ کے اعتبار سے تمام مخلوقات پر اسکو فوقیت وبرتری عطا فرماٸ ہے جیسا کہ باری تعالی نے کہا
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم (سورة التين)
ایک دوسری جگہ رب العزت نے انسانوں کی شکل و صورت کو دیگر مخلوقات سے ممیّز وممتاز قرار دیتے ہوے گویا ہوا
فتبارک اللہ احسن الخالقین
الغرض یہ کہ رب العزت نے انسانوں کی شکل وصورت اور ڈھانچے کے اعتبار سے مکمل اور بہترین پیکر کشی کرکے فقدرنا فنعم القادرون کے ذریعہ انسانوں کی بہترین تصویر کشی پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوۓ فروتر مخلوقات پر اسکی فضیلت قاٸم کردی
بحر وبر، خشک وتر میں پاکیزہ و حلال اشیا ٕ، مرغوب ماکولات ومشروبات کی فراوانی اور سہولیات عطا کرکے انسان کی عزت وتکریم میں چار چاند لگا کر
ولقد کرمنا بنی آدم وحملنٰھم فی البر والبحر ورزقنٰھم من الطیبٰت وفضلناھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا
کی سند بھی بخش دی ہے
اب اگر انسان اپنی اصل حقیقت کو طاق نسیاں میں رکھ کے دیگر مخلوقات کے موافق ومطابق زندگی بسر کرنے لگے تو سمجھٸے اس سے بڑھ کر نادان اور ناسمجھ کوٸ نہیں کیونکہ فکر ونظر اور شعور کی بالیدگی کے باوجود حیوانوں کوبھی اخلاق رذیلہ میں مسبوق کردینا دراصل حیوانوں سے بدتر ہونا ہے اور اسی کو قران نے ثم رددنٰہ اسفل سافلین سے تعبیر کیا ہے
اتنا سب کچھ جانتے ہوئے بھی آدمی اس بات کا خواہاں ہوتا ہے کہ وہ شہرت وترقی کی بلندیوں کو چھوۓ، عزت وتوقیر اور شرف وتعلّی کے افلاک پر کمندیں ڈال کے اپنے اقران و معاصرین میں فاٸق و برتر تصور کیا جاۓ دراصل انسان کے اندر دل نامی گوشت وپوست کا ایسا ٹکڑاہے جس میں مختلف النوع ترقی کی خواہشیں جنم لیتی رہتی ہیں اب کچھ انسان نیکیوں کے راستے بلندی کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہیں تو وہیں کچھ شرو فساد ارتکابِ بےحیای اور ظلم وطغیان کے ذریعہ شہرت کے بام عروج پر پونچنے میں فخر کرتے ہیں بقول شاعر
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا
گویا کچھ لوگوں کو شہرت طلبی اتنی عزیز ہوتی ہے کہ اسکے لٸے سب کچھ داٶں پہ لگا دیتے ہیں گرچہ اس حصول شہرت میں عزت و ناموس کا جنازہ نکل جاۓ اسکی کوٸ فکر نہیں ایسے لوگ واقعتا ضمیر فروشی اور ملت فروشی کے سودے سے بھی نہیں کتراتے
اسی طرح کچھ لوگ دوسروں پر الزام تراشی اور اتہام وبہتان کے راستے سرخیاں بٹورنے کے رسیا ہوتے ہیں
مثبت طریقہ کار چھوڑ کے منفی رجحانات اور غلط روش اپنا کر وقتی و عارضی فاٸدہ اور شہرت حاصل کرنے والے لوگوں کی شریعت میں بڑی مذمت آٸ ہے خود اہل خرد اور بابصیرت لوگوں کی نظروں میں ایسوں کی کوٸ وقعت اور حیثیت نہیں ہوتی
شہرت کا حصول کوٸ معیوب نہیں جب تک کہ اسکے لٸے منفی و مفسدانہ طریقہ اختیار نا کیا جائے
ایسا کونسا انسان ہے جس کے دل میں یہ آرزو نہیں کہ دنیا میں اسکو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھیں، اسکے جَلو میں لوگ چلیں، اصحاب حل وعقد اور اصحاب الراۓ میں اس کا شمار ہو، اپنے مساٸل کے تصفیہ او حل کے لٸے عوام النا س اسکی جانب رجوع کریں ،اسکی فکر ونظر کی دہلیز مرجع خلاٸق ہو الغرض یہ کہ ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ وہ لوگوں میں محبوب و پسندیدہ ہو لیکن یہ کامیابیاں سب کے حصہ میں آنے سے رہیں مصاٸب ومشکلات، شداٸد ومحن ، صبر و شکیباٸ اور محنت ولگن کی پرخار وادیاں قطع کرنے والے ہی مذکورہ خوبیوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں
جیسا کہ عربی کا شاعر کہتا ہے
ومن طلب العلی من غیر کد
اضاع العمر فی طلب المحالی
یغوص البحر فی طلب اللآلی
ویحظی بالسیادة والنوالی
نامی کوٸ بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا
محترم قارئين
دلوں کے میل وکچیل اور گردو غبار کو دور کرکے ہر ایک سے گلے ملنا، بغض وحسد جیسی دین کو ختم کردینے والی بیماریوں کا موثر نسخہ تلاش کرکے دوست ودشمن، اپنے پراۓ سب کو ایک ساتھ لیکر چلنا، معاصرانہ چشمک اور حاسدانہ فکر و نظر سے دوری اختیار کرنا ہی ترقی کی معراج ہے
جو انسان کسی کی مثبت تعمیر و ترقی اور کامیابی کو دیکھ کر دل میں روگ پال لے یا کسی کی تحر یر و تقریر علم وہنر اور دیگر خصاٸل حمیدہ کو دیکھ کر شیطانی جال بُننا شروع کردے اور محنت ولگن کے بجاۓ منفی طریقے سے خود کو اعلٰی و ارفع باور کرانے کی تمنا و آرزو لٸے ہو ایسا شخص نہ تو دنیا میں حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہوگا اور نہ ہی آخرت میں فوز و فلاح پاۓ گا بلکہ عند اللہ مبغوض اور ناپسندیدہ ہوکر بدبختوں کی صف اولٰی میں جگہ پاۓ گا جیسا کہ سورة الشعرإمیں اسی حقیقت کا بیان ہے
یوم لا ینفع مال ولا بنون الا من أتی اللہ بقلب سلیم
دنیا میں بسنے والے ہر انسان کی یہی کوشش ہونی چاہیٸے کہ وہ مثبت طریقہ اپناۓ بالخصوص مسلمانان عالم اور اسمیں سر فہرست علماۓ کرام جنکے دوش پر اصلاح معاشرہ کی بڑی ذمہ داریاں ہیں وہ ذہن کو غلاظتوں تخیّل کو کثافتوں اور فکر ونظر کو آلاٸشوں سے پاک و صاف کرنے کا ہنر عوام الناس کو سکھاٸیں ساتھ ہی اسلاف کی مقدس سیرتوں کو اپنا
کے دنیا والوں کے سامنے ان کا ترجمان بنیں تبھی عزت و سربلندی اور حقیقی کامیابی نصیب ہوگی
بقول شاعر
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے پیدا تو کرے ویسا کوٸ قلب سلیم
کوٸ قابل ہو تو ہم شان کٸی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نٸ دیتے ہیں
بقلم عبد المبین محمد جمیل (ایم اے)