نظم کی مختلف ہیئتیں تعريفات و نمونے

اردو میں زیادہ تر ہیئتیں فارسی زبان سے مستعار ہیں کہیں کہیں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ وہ اب اردو کی ہی ہیئتیں تصور کی جاتی ہیں۔ ہندوستان کی دگر زبانوں اور بیرون ممالک کی زبانوں سے بھی اردو نے کئی ہیئتیں لی ہیں ان تمام ہیئتوں کی وضاحت کی جانب رہی ہے۔

پابند نظم

اس نظم کو پابند نظم کہتے ہیں جس میں ردیف قافیہ اور بحر کے مقررہ اوز ان کی پابندی کی جاتی ہے ۔ پابند نظم میں نہ موضوعات کی قید ہوتی ہے اور نہ اشعار کی تعداد کی ۔ شاعر کسی بھی موضوع پر اور کتنی ہی تعداد میں اشعار کہہ سکتا ہے ۔ بعض شاعروں نے چار چھ اشعار پرمشتمل پابند نظمیں بھی کہی ہیں۔ اردو شاعری کا بڑاحصہ پابند نظموں پر مشتمل ہے ۔ ابتدا سے لے کر تا حال تقریبا تمام شاعروں نے پابند ظلم نگاری کی ہے اور آج بھی آزاد اور معری نظموں کے باوجود پا بند نظم نگاری ہی زیادہ ہے

مثنوی

مثنوی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے لغوی طور پر مراد ہے دو جز والی چیز۔

شاعری میں مثنوی ایسی نظم کو کہتے ہیں جس کے اشعار ہم وزن ہوں لیکن قافیہ اور ردیف کے لحاظ سے ایک دوسرے سے جدا ہوں۔ مثنوی کے اشعار معنوی طور پر ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔

یہ ایک مقبول صنف ہے اس میں کوئی طویل قصہ، مناظر قدرت کا بیان رزم و بزم کی کیفیت موسموں کا بیان اور سیاسی و معاشرتی حالات نظم کیے جاتے ہیں۔ مثنوی میں اشعار کی تعداد متعین نہیں ہوتی۔ کئی ہزار اشعار پر بھی مثنویاں مشتمل ہو سکتی ہیں۔ اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے حالی نے مثنوی کو دیگر اصناف سخن پر ترجیح دی ہے۔ دیا شنکر نسیم میر حسن اور مرزا شوق ہمارے معروف ترین مثنوی نگار ہیں۔

رباعی

ربع عربی میں چار کو کہتے ہیں۔

شاعری کی اصطلاح میں رہاعی ایسی صنف کو کہتے ہیں جس میں چار مصرعے ہوں اور ان چار مصرعوں میں فکر و خیال کے لحاظ سے ایک مکمل مضمون ادا کیا جائے ۔ رباعی میں پہلا دوسرا اور چوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوتے ہیں اور تیسرا مصرعہ بے قافیہ ۔ رباعی کا چوتھا مصرعہ اہمیت کا حاصل ہوتا ہے ۔ اس کو پہلے تین مصرعوں کا نچوڑ کہہ سکتے ہیں۔ شاعر رباعی میں جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ دراصل اختصار کے ساتھ چوتھے مصرعے میں کہہ دیتا ہے ۔

اس میں ہر طرح کے لیکن زیادہ تر اخلاقی اور مذہبی مضامین نظم کیے جاتے ہیں ۔ رباعی کودو بیتی یا ترانہ بھی کہتے ہیں۔ انیس، دبیر، حالی، اکبر، امجد، جوش، یگانہ اور فراق کی رباعیاں زیادہ مشہور ہیں ۔

گلشن میں صبا کو جستجو تیری ہے
بلبل کی زبان پر گفتگو تیری ہے
ہر رنگ میں جلوہ ہے تری قدرت کا
جس پھول کو سونگھتا ہوں بو تیری ہے

قطعہ

دو شعروں کے مجموعے کو قطعہ کہتے ہیں؛ قطعہ کی جمع قطعات ہے۔ مطلع کی قید سے آزاد اور اشعار کی پابندی سے مبرا ہوتا ہے۔ ہر شعر کا دوسرا مصرع قافیہ و ردیف سے مزین ہوتا ہے۔ قطعہ کا ایک وصف خاص حقیقت نگاری ہے۔

ایسے کچھ اشعار کا مجموعہ جن میں کوئی خیال تسلسل کے ساتھ پیش کیا جاۓ قطعہ کہلاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ غزل اور قصیدے کی طرح قطعے کا پہلا شعر مطلع ہو۔ قطعے میں دو یا دو سے زیادہ اشعار ہو سکتے ہیں لیکن اس کے اشعار کی تعداد مقرر نہیں۔

قطعہ اور غزلِ مسلسل کو ایک ہی چیز سمجھنا غلط ہے۔ غزلِ مسلسل میں مطلع ہونا ضروری ہے۔ دوسرا یہ کہ غزلِ مسلسل کے اشعار میں تسلسل کے باوجود ہر شعر کا مضمون کسی نہ کسی درجے میں مکمل ہو جاتا ہے جب کہ قطعے میں مضمون ایک شعر سے دوسرے شعر میں پیوست ہوتا چلا جاتا ہے۔ جیسے غالبؔ کا قطعہ

اے تازہ وار دانِ بساط ہواۓ دل

ہماری شاعری میں قطعہ کافی مقبول رہا ہے اور بہت سے شعراء نے کامیاب قطعات کہے ہیں۔ ان میں حالیؔ ، اقبالؔ، اکبرؔ، شبلیؔ، ظفر علی خان اور عہد حاضر میں اخترؔ انصاری بہت اہم ہیں۔

اقبالؔ کا مشہور قطعہ ہے۔

دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر
حریمِ کبریا سے آشنا کر
جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوۓ حیدر بھی عطا کر

ثلاثی

ثلاثی کو مثلث اور تثلیث بھی کہا گیا ہے۔

یہ تین مصرعوں پرمشتمل ایک صنف سخن ہے جس کے تینوں مصرعے برابر ہوتے ہیں۔ البتہ کبھی پہلا اور دوسرا کبھی پہلا اور تیسرا اور کبھی تینوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور یہ تینوں مصرعے مل کر ایک اکائی بنتے اور مثلث کہلاتے ہیں۔ یہ اکائی ایک مکمل معنوی نظام کی حامل ہوتی ہے اور کئی تین مصرعوں کی اکائیاں مل کر بھی مثلث کہلاتی ہیں۔ اردو میں ثلاثی ایک با قاعدہ ایک فنی ہیئت کی حیثیت سے مقبول رہی ہے۔

هندوستانی زبانوں کی ہیئتیں

اردولسانی طور پر ہی نہیں، شعری اور ادبی طور پر بھی کافی لچکدار زبان ہے۔ اس میں اخذ و اکتساب اور رد و قبول کی صلاحیتیں زیادہ ہیں۔ چنانچہ اردو میں جہاں ملک کی دیگر زبانوں کے حروف اور الفاظ وغیرہ ملتے ہیں دیگر زبانوں کی ہیتوں کو بھی ہم نے فراخدلی کے ساتھ اپنالیا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ ان میں ہمارے شاعروں نے نمایاں مقام بھی حاصل کر لی ہے ۔ ہندی سے گیت اور دوہا اور پنجابی سے ماہیہ جیسی ہیٹوں نے اردو میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ ہم یہاں ان اصناف پر اظہار خیال کر یں گے۔

گیت

گیت ہندی الاصل صنف شاعری ہے۔ اردو پر ہندی کے جواثرات ترتیب پائے ہیں اس کا ایک نتیجہ گیت بھی ہے جس کو اردو میں بہت مقبولیت حاصل ہو چکی ہے ۔ اردو میں گیت ہندی بحروں ہی میں لکھے جاتے ہیں نظم کی طرح گیت میں کسی موضوع کی کوئی پابندی نہیں۔ اس میں ہر نوع کے موضوع پر طبع آزمائی کی جاسکتی ہے۔ گیت میں محبت اور نغمگی کے عناصر کی آمیزش ہوتی ہے اور اس کا مزاج ان عناصر سے تشکیل پاتا ہے جن میں نسائیت ہوتی ہے ۔ غنائیت گیت کے لیے لازمی ہے اور ترنم جھنکار اور تھاپ اس کی خصوصیات ہیں، گیت کا اپنا ایک تہذیبی مزاج ہے۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ پڑھنے کی نہیں سننے کی چیز ہے۔ یہی سبب ہے کہ نظموں کے مقابلہ میں گیت گائے زیادہ جاتے ہیں۔

دوہا

دوہا بھی ہندی شاعری کی ممتاز اور مقبول صنف ہے جو زمانہ قدیم سے تا حال اعتبار رکھتی ہے ۔ اس کا آغاز ساتویں اور آٹھویں صدی کا زمانہ بتایا جا تا ہے۔ دوہرا اور دوپد اس کے دوسرے نام ہیں۔ دو ہے کے دونوں مصرعے مقفی ہوتے ہیں۔ بھرنش میں قافیہ کا رواج دوہے سے شروع ہوا ور نہ اس سے پہلے سنسکرت اور پراکرت میں قافیہ نہیں تھا۔ دوہا دو مصرعوں کی اپنی مختصر ترین ہیت کی وجہ سے انفرادی حیثیت کا حامل ہے ۔ مختصر ہیئت کے باعث اس میں الفاظ اور ان کی نشست برمحل ہونی چاہیے ۔ اسی طرح مضمون میں بھی دلکشی اور ندرت ضروری ہے ورنہ دو ہے میں تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ دو ہے میں لَے کی بھی اہمیت ہے۔ معنوی تہہ داری اور برجستہ کلامی سے دو ہے میں بانمکین پیدا ہوتا ہے۔ جس طرح ایک عمر کی مشق ومزاولت کے بعد رباعی پر قدرت حاصل ہوتی ہے اچھے اور فنی طور پر کامیاب دو ہے مشاق اور زبان و بیان اورفن پر قدرت رکھنے والے شاعر ہی کہہ سکتے ہیں۔ اردو میں دوہا نگاری میں فی زمانہ جو نام ملتے ہیں ان میں سے چند ہیں جمیل الدین عالی، ندا فاضلی ، بھگوان داس اعجاز اور ساغر جیدی۔

دوہے کے اصول

بارہ تیرہ ماترا ، بیچ بیچ وشرام
دو مصرعوں کی شاعری دوہا جس کا نام

ندا فاضلی کے دو دو ہے درج ذیل ہیں :

سیدھا سادھا ڈاکیہ جادو کرے مہان
ایک ہی تھیلے میں بھرے آنسواور مسکان

ماہیا

ماہیا پنجابی شاعری کی صنف اور پنجابی تہذیب کا حصہ ہے ۔ ’’ ما ہیے ‘‘ بھی گائے جاتے ہیں ۔ اس کا صحیح عمل دو اوزان پرمشتمل ہے جو یہ ہیں :
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن

مفعول مفاعیلن
فعل مفاعیلن
مفعول مفاعیلن

دوسرے مصرعے میں ایک سبب کم ہوتا ہے ۔ اگر تینوں مصر کے برابر ہو جائیں تو پھر ثلاثی ہو جاۓ گا ۔ اردو میں ماہیوں کی روایت 1939ء سے ملتی ہے ۔ ہمت راۓ شرما ساحر لدھیانوی قمر جلال آبادی ابتدائی ماہیہ نگار ہیں۔

دل لے کے دغا دیں گے
یار ہیں مطلب کے
یہ دیں گے تو کیا دیں گے

بیرونی زبانوں کی ہیئتیں

اردو نے اپنے لچکدار رویے کے باعث ہندوستانی زبانوں ہی سے نہیں بیرونی ملک کی زبانوں سے بھی الفاظ اصناف اسالیب اور آداب کے تعلق سے لین دین کیا ہے جس سے اردو کے شعری سرمایہ میں یقینا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی درست کہ بیشتر بیرونی ہئیتوں نے اردو میں مقام نہیں پایا لیکن یہ کوشش رائیگاں بھی نہیں گئیں اردو کا شعری منظرنامہ بھر پور منور اور معطر ضرور ہوا۔ آیئے ہم اردو میں ایسی بیرونی ہئیتوں کا بھی جائزہ لیں۔

معری نظم

معری نظم ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں وزن بھی ہوتا ہے اور ارکان بحر کی پابندی بھی کی جاتی ہے ۔ البتہ اس میں قافیہ اور ردیف سے کام نہیں لیا جاتا۔ چونکہ یہ قافیے سے عاری ہوتی ہے اس لیے ابتدا اس کو غیر مقفیٰ کیا گیا لیکن بعد میں معری نظم کی اصطلاح کوسب نے تسلیم کر لیا ۔ اردو میں پہلی بار 1875 ء میں لاہور میں انجمن اسلام کے جلسے میں ایسا مشاعرہ منعقد ہوا جس میں طرح مصرعہ دینے کی بجائے موضوع دیا گیا اور قافیہ ردیف کی تحدید ختم کر دی گئی۔ اردو میں معربی شاعری کا پہلا نمونہ مولانا محمد حسین آزاد کے یہاں ملتا ہے۔ بعد میں ترقی پسند شاعروں نے بھی ردیف اور قافیوں کا استعمال ترک کیا اور معری نظمیں بھی کہنے لگے۔ اور پھر تو یہ ایک مزاج اور ایک رواج سا بن گیا۔ اردو میں معری نظم کا سرمایہ زیادہ نہ سہی لیکن خاطر خواہ ضرور ہے اور ہمارے ممتاز اور صف اول کے شاعروں نے بھی اس ہیئت کو اختیار کیا۔

آزادظم

آزانظم بھی مغرب سے لی گئی ہیئت ہے اور اردو میں یہ ہیئت بے حد قبولیت رکھتی ہے۔ اس میں قافیہ ردیف کی پابندی نہیں ہوتی ، بحر کی بھی تحدید نہیں لیکن ایسا نہیں کہ اس میں بحر نہیں ہوتی ۔ بحر کے ارکان اور اس کے اوزان یا صوتی بندشوں کی پابندی ہوتی ہے ۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ معری نظم میں بحر کے مقررہ اوزان استعمال ہوتے ہیں یعنی اگر پہلے مصرعہ میں بحر کے چار ارکان استعمال ہوۓ ہیں تو اس کی پابندی نظم کے ہر مصرعے میں ہوتی ہے جب کہ آزادظم میں ارکان بحر کی تعداد ہر مصرعے میں متعین نہیں ہوتی جس کی وجہ سے مصرعے چھوٹے بڑے ہو جاتے ہیں۔ فرض کیجیے کسی نظم کے پہلے مصرعے کی بحر میں چار بار فاعلن کی تکرار ہوئی ہے، نظم آزاد میں بعد کے مصرعوں میں کہیں ایک کہیں دو کہیں تین کہیں چار اور کہیں چھ بار فاعلن کا استعمال ہوسکتا ہے۔

سانیٹ

سانیٹ مغرب میں غنائی داخلی شاعری کی ایک قدیم صنف ہے۔ یہ چودہ ( 14 ) مصرعوں کی ایک ایسی نظم ہے جس میں ایک بنیادی جذبہ یا خیال کو دو بندوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ پہلے بند میں آٹھ اور دوسرے بند میں چھ مصرعے ہوتے ہیں۔ پہلے بند میں خیال کا پھیلاؤ ہوتا ہے اور دوسرے میں اس کی تکمیل کی جاتی ہے۔ کہیں کہیں پہلا بند 12 مصرعوں پر اور دوسرا بند 2 مصرعوں پرمشتمل ہوتا ہے مگر کل مصرعوں کی تعداد 14 سے زیادہ نہیں ہوتی۔ سانیٹ میں قافیہ کی پابندی ہے لیکن یہاں تفصیل میں گئے بغیر یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ قافیوں کی یہ تریب بدلتی رہتی ہے۔ سانیٹ میں بحر کی پابندی نہیں لیکن اطالوی اور انگریزی شعرا نے خصوصاً ایسی بحریں استعمال کی ہیں جو نہ طو یل ہیں اور نہ مختصر۔ کیونکہ چھوٹی بحروں میں خیال کا ارتقا دشوار ہو جا تا ہے تو طویل بحروں میں تعقید یا تکرار کے پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اردو میں عظمت اللہ خاں اختر شیرانی ، راشد اور میراجی وغیرہ نے اس طرف توجہ دی، عزیز تمنائی بھی اہم نام ہے جن کے سانیٹوں کا مجموعہ’’برگ نوخیز ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔

ترائیلے

ترائیلے فرانسیسی شاعری کی مقبول صنف ہے۔ یہ ایک طرح کا بند ہے اور اس ایک ہی بند میں نظم مکمل ہو جاتی ہے۔ ترائیلے صرف آٹھ مصروں پر مشتمل نظم ہوتی ہے اور اس میں صرف دو قافیے استعمال ہوتے ہیں اور وہ بھی ایک خاص ترتیب سے ۔ یہ تیب کچھ ایسی ہوتی ہے ۔ الف، ب، الف الف الف، ب، الف، ب ۔اس ترتیب سے ہم قافیہ مصرعوں کی بہ صورت سامنے آتی ہے۔ پہلا تیسرا چوتھا پانچواں ساتواں / دوسرا چھٹا آٹھواں۔ اردو میں ترائیلے کو خاص مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔

ہائیکو

ہائیکو ایک قدیم جاپانی صنف ہے لیکن یہ اردو میں انگریزی کے توسط ہی سے آئی۔ بہ صرف تین مصرعوں پرمشتمل ہوتی ہے اور شرط یہ ہے کہ تینوں مصرعوں کے جملہ 17 ارکان ( Syllable ) ہوں اور ان کی ترتیب 5 + 7 + 5 ہو ۔ بعض نے ارکان کی ترتیب بھی قرار دی ہے۔اختصار کے باوجود ہائیکو میں ایسا لفظی پیکر پیش کیا جا تا ہے کہ دیکھی ہوئی یا محسوس کی ہوئی کوئی شئے نظر کے سامنے آ جاتی ہے۔ جہاں تک مواد اور موضوع کا تعلق ہے ہائیکو ابتدا ہی سے فطرت، مظاہر فطرت اور مشاہدہ فطرت سے جڑی ہوئی ہے۔ اردو میں علیم صبا نویدی، اظہر ادیب، محمد امین، بشیر سیفی اور نصیراحمد ناصر کے ہائیکو پڑھنے کو ملتے ہیں۔

آنگن آنگن خلوص کے چہرے
گھر کی دہلیز تک وفا کی بات
اور بازار میں غلط چہرے

نثری شاعری

نثری شاعری انگریزی کی Prose Poetry کی تقلید ہے۔ نثری شاعری میں ردیف قافیہ وزن اور بحرکسی کی قید نہیں۔ ہاں ایک آہنگ ضروری ہے جس سے نثری شاعری پر رنگ آتا ہے ۔ بعض اوقات غیر ارادی طور پر مصرعے اوزان کے تحت آجاتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ۔ ہاں شعریت اور غنائیت ضروری ہے اور یہ شاعر کے شعری رویے پر منحصر ہوتی ہے۔ اردو میں نثری شاعری پر یوں تو کئی نے توجہ دی لیکن سجاد ظہیر، اور خورشید الاسلام کے نام نمایاں ہیں۔

اگر
انسان کی
آنکھ نہ ہوتی
تو کائنات اندھی ہوتی

اشتراک کریں