وہ اِک ننّھا سا پودا (میری ڈائری سے)

پہلا دن

مَیں نیلے آسمان کے نیچے کچھ قد آدم لمبے گھنے اور چند چھوٹے درختوں کے بیچ ایک نرم نازک، ننھا سا پودا زندگی کی ایک نئی کرن اور نئی امید اور امنگ کے ساتھ مسکراہٹیں بکھیرے آس پاس تجسس سے دیکھ رہا ہوں جھلسا دینے والی گرم ہواؤں کے بعد، بہار کی نرم گرم ہوا کا احساس بہت اچھا لگ رہا ہے۔ بارش کی ہلکی بودیں میری نرم نرم پتیوں سے کھیلنے لگیں میرے اندر مزید تازگی آگئی، سامنے قطار سے بنے ہوئے مختلف مکانات میں سے ایک مکان سے ایک چھوٹی سی بچی جو اپنے پاپا ڈیل کی انگلی تھامے کہیں جانے کے لئے نکلی تھی اچانک اس کی نظر میرے اوپر پڑی وہ کھل اٹھی اور اپنے پاپا کا ہاتھ تھامے میرے پاس،آئی اور میری نازک پتیوں سلانے لگی اور بولی: ” پاپا پاپا یہ دیکھیں کتنا پیارا سا پودا ہے!۔۔۔ ہم اسے اپنے پاس رکھیں گے”۔
بچی کے چہرے کی چمک مناظر فطرت کے تئیں اس کے لگاؤ اور دلچسپی کی نشاندہی کر رہی تھی۔

دوسرا دن

آج کا دن بہت خوبصورت ہے، شام کا وقت ہے، آج بارش کے آثار تو نہیں البتہ موسم کافی خوشگوار ہے، نرم ہوا کے جھونکے میرے پتوں کو چھو کر گزر رہے ہیں، آج بھی وہ لڑکی میرے پاس آئی اس کے ہاتھ میں پانی کا ایک لوٹا بھی تھا اس نے میرے ارد گرد پانی کے چھینٹے مارے، اتنے میں اس کے والد ڈیل بھی آگئے تھے شاید بچی کے دلچسپی نے انہیں بھی وہاں آنے پر مجبور کر دیا تھا انہوں نے آتے ہی میرے ارد گرد صفائی کی اور گھانس وغیرہ صاف کی۔ اور بچی کے گال سہلاتے ہوئے بولے; بیٹا آپ کا یہ نیا دوست تو بہت پیارا ہے، اس کی اچھے سے دیکھ بھال کرو”۔ پھر دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اپنے گھر کے اور چل پڑے۔ آج باپ بیٹی کے رویے نے میرے اندر مزید تازگی پیدا کر دی۔

تیسرا دن

آج ہوا کافی سہانی ہے ڈیل اپنی بچی کے ساتھ چہل قدمی کرتے پار میں آئے، میرے اوپر نظر پڑتے ہی اس کا چہرہ کھل اٹھا، دوڑ کر مجھ سے قریب ہو گئی ڈیل اس کے پاس آئے اور گویا ہوئے: "بیٹی تم بالکل مجھ پہ گئی ہو، مجھے بھی بچپن سے ہی پودے لگانے کا شوق تھا”،
بيٹی: اچھا پاپا۔۔!
ڈیل: ہاں بیٹا ۔۔ مجھے قدرت سے بہت محبت ہے۔ مجھے شوق ہے کہ میرے آس پاس سبزہ ہو، ہر چیز سبز ہو، یہ بڑا سا پارک میرے اسی شوق کی نشانی ہے”،
پیٹی: جی پاپا یہاں پر بیٹھیں نا، یہاں پر پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں کتنی پیاری ہیں۔ ‘
"ہاں بیٹی، چلو کچھ دیر بیٹھتے ہیں” ڈیل نے کہا اور کچھ دیر بیٹھ کر باتیں کرتے رہے پھر چلے گئے،

چوتھا دن

آج لڑکی صبح سویرے ہی میرے پاس آگئی تھی میرے ارد گرد پانی کا چھڑکاؤ کیا اور میرے ساتھ کھیلنے لگی عین اسی وقت ڈیل بھی آگئے اور بچی کو میرے پاس دیکھ بہت خوش ہوئے اور بولے: "بیٹا درخت اور پودے زمین پر رہنے والوں کی زندگی ہیں اور ہم سب ان پر منحصر ہیں”۔
بیٹی: "وہ کیسے پاپا؟”
ڈیل: "ہم صرف درختوں اور پودوں کی وجہ سے سانس لینے اور کھانا کھانے کے قابل ہیں۔ پودے ہمارے لیے 80 فیصد خوراک اور 98 فیصد آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ لیکن آج کے دور میں انسانی آباد کاری پودوں کی زندگی کو نقصان پہنچا رہی ہے جس کی وجہ سے ماحول میں بہت سی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور یہ تبدیلی انسانوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس تبدیلی کو روکنے اور پودوں کے تحفظ کے لیے ہر سال 12 مئی کو بین الاقوامی پلانٹ ہیلتھ ڈے منایا جاتا ہے”۔ بچی اس گفتگو کو بغور سن رہی تھی اس کے بعد دونوں گھر کی طرف چل دیئے۔

پانچواں دن

شام کا وقت ہے بارش کی بھینی بھینی بوندیں میرے وجود کو تازگی مہیا کرا رہی ہیں اور میرے نرم پتیاں ہلکی ہلکی مسلسل چلنے والی ہواؤں کے دوش پر جھوم رہی ہیں، کچھ دیر بعد بارش تھم سی گئی، کچھ دیر بعد بچی تنہا میرے پاس آئی، اور آتے ہی اس نے کہا:” دوست ! پتہ ہے آج میرے اسکول میں یوم ماحولیات منایا گیا،”
اس نے مزید بتایا "اور پتہ ہے ؟ ہم نے آج کے دن اپنے اسکول میں ایک ننھا سا پودا لگایا ۔۔۔ ہمیں بہت مزہ آیا۔۔”
پیڑ پودے سے اس انوکھے لگاؤ اور دلچسپی کی کہانی سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہم نے
محسوس تو کیا لیکن اس بچی کا شکریہ زبان سے تو ادا نہ کر سکے، بس فرحت و انبساط کے احساس سے اپنے نازک پتیوں کو حرکت دے کر رہ گئے۔ کاش ہمارے پاس بھی انسانوں کی طرح قوت گویائی ہوتی۔۔۔!

چھٹواں دن

آج صبح سے موسم کافی سہانا تھا بارش کے آثار نظر آرہے تھے آسمانی بادل اپنے اندر بارش کا پانی سموئے ہوا کے دوش پر اِدھر اٌدهر چکر لگاتے پھر رہے تھے مانو بارش کے لئے کوئی مناسب کی جگہ کی تلاش میں ہوں، آخر چند ہی لمحوں میں تیز گرج کے ساتھ موسلادھار بارش شروع ہو گئی، میرے تنے اب پہلے سے زیادہ مظبوط اور بڑے ہو چکے تھے، اور اندر سے کافی طاقت و قوت محسوس ہو رہی تھی، پانی کے تھپیڑوں اور اس کے تیز بہاؤ کو سہنا اب قدرے آسان ہو گیا تھا، بارش کے قطروں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرنا مجھے کافی بھلا لگ رہا تھا، گھنٹوں مسلسل بارش کے بعد آخر آسمان صاف ہو گیا، پانی زمین میں جذب ہوگیا، آخر ڈیل اپنی بیٹی کے ساتھ پارک میں آچکے تھے، بچی آکر مجھ سے کھیلنے لگی۔ اس نے کہا: "پاپا، پاپا میرا دوست تو اب بڑا ہونے لگا ہے۔”
"واقعی بیٹا”، ڈیل نے کہا، اس نے بچی کے قریب آتے ہوئے کہا: "بیٹا پہ پودا تمہارے بچپن کی نشانی ہے، اور مناظر فطرت کے ساتھ تمہارے لگاؤ کی علامت”۔
"جی پاپا”۔ بچی نے مسکرا کر کہا وہ پھر دونوں اپنے کمرے کی طرف رواں ہو گئے۔

ساتواں اور آخری دن

آج صبح صبح موسم ہی بہت سہانا تھا، ڈیل بچی کے ساتھ صبح صبح بغرض تفریح آئے تھے اور اپنے ساتھ کچھ ننھے منے رنگ برنگے پھول کے پودے بھی لائے تھے، میرے پہلو میں انہوں کچھ پھولوں کے پودے لگائے۔ بچی ان کے کام میں ان کی مدد کر رہی تھی،  ان پھولوں کے ساتھ میری خوبصورتی مزید نکھر گئی ۔ ہوا میں خوشبو بکھیرتے یہ پھول اور میرے سبز پتے، سب مل کر ایک خوبصورت منظر پیش کر رہے ہیں۔ ڈیل نے میرے ارد گرد کی مٹی کو بھی نرم کیا تاکہ میں اور زیادہ بہتر طریقے سے بڑھ سکوں، اس نے بچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "بیٹا یہ خوبصورت درخت ہمارے گھر کی رونق ہے”۔ ان کے یہ الفاظ میرے لئے بہت معنی رکھتے ہیں۔ میں دل سے ان کا شکر گزار ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ان کے آنگن میں ہمیشہ یونہی خوشیوں بھری بہار رہے، ان کا خاندان سدا شاد رہے آباد رہے۔

اشتراک کریں