جہاں تذکرہ ہو بیسویں صدی کے علماء، ادباء اور ناقدین کا اگر وہاں اس عہد کے ادیب و مؤرخ اور زبردست ناقد عبد السلام ندوی کام نام نہ آئے تو یہ ایک بڑی علمی خیانت ہوگی کیونکہ آپ اس عہد کے علمی اور ادبی تاریخ کا ایک اٹوٹ حصہ ہیں، عہد مذکور کا علم، ادب اور تنقید سے متعلق کوئی بھی تذکرہ ان کے بغیر نامکمل اور ادھورا رہے گا۔ آپ نے اردو کی غیر افسانوی اصناف ادب میں جو ورثہ چھوڑا ہے وہ نسلِ نو کے لئے ایک مشعلِ راہ ہے۔ جس کے آئینے میں اپنی تہذیب وثقافت کے سرمایے کو بہ سہولت دیکھا اور حرز جاں بنایا جاسکتا ہے۔
مقام و تاریخ ولادت
مولانا عبدالسلام ندوی کی 1883ء میں اعظم گڑھ کے گاؤں علاء الدین بٹی میں دلادت ہوئی۔ عربی و اسلامیات کی تعلیم کے لیے کانپور، آگرہ اور چشمہ رحمت غازیپوری کی تعلیم گاہوں کا رخ کیا کیا اور 1910ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے درسیات کی تکمیل کی اور وہیں ادب کے استاد مقرر ہو گئے اس وقت علامہ شبلی ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم تھے۔ آپ کے اندر کے جو ہر قابل کو پرکھ کر علامہ شبلی نعمانی نے تصنیف و تالیف کے لئے مولانا عبد السلام ندوی کی خاص تربیت کی چنانچہ دورِ طالب علمی سے ہی انہوں نے مضمون نگاری کا آغاز کیا
ادبی و اصلاحی کارنامے
علامہ شبلی نعمانی نامورانِ علم و فن کا جو کارواں اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے مولانا ندوی اس کے بہت اہم رکن تھے وہ خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے اردو کا پہلا مضمون 1904ء میں شائع ہوا اور جب 4 اکتوبر 1956 کو ان کا انتقال ہوا تو اس روز بھی ان کا قلم ہاتھ سے نہیں چھوٹا تھا
ان پچاس برسوں میں تفسیر قرآن، سیرت، کلام، فلسفہ، منطق، نفسیات، اجتماعیات، تاریخ اور شعر و ادب شاید ہی کوئی ایسا فن ہو گا جس کے کسی نہ کسی گوشے پر ان کا قلم نہ چلا ہو، علم و فن کا اتنا طویل المدت خدمت گزار اردو زبان میں شاید ہی کوئی گزرا ہوگا۔ آپ مولانا ابوالکلام آزاد کے رفیقِ کار مولانا سید سلیمان ندوی کے دستِ راست اور دارالمصنفین کے معماروں نے تهے۔
دورِ تعلیمی سے ہی ان کا قلم بہت سیال تھا انہوں نے مسئلہ تناسخ پر اپنا پہلا مضمون اس وقت لکھا جب علامہ شبلی نعمانی ندوة العلماء معتمد تعلیم تھے مولانا شبلی نے آپ کے مضمون کو اس قدر پسند کیا کہ نہ صرف یہ کہ اسے ماہنامہ الندوہ میں بغیر کسی اصلاح کے اپنے خصوصی تعریفی نوٹ کے ساتھ شائع کیا بلکہ مولانا ندوی کو انعام و اکرام سے بھی نوازا۔
آپ کی خدا داد صلاحیتوں کا اعتراف شبلی پہلے بھی کر چکے تھے اور فرمایا تھا کہ آپ مستقبل کے بڑے اور کامیاب مصنف بنیں گے۔ چنانچہ شبلی کی وفات کے بعد ان کے ادھورے کاموں کی تکمیل میں عبد السلام ندوی کام بھی بہت بڑا رول رہا ہے۔
مولانا سید سلیمان ندوی نے بھی آپ کی کاوشوں کو بہت سراہا تھا آپ کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ عبد السلام ندوی کو اعلی درجے کا مصنف قرار دیتے تھے اور ان سے تازہ علمی کارناموں کی توقع رکھتے تھے اور یہ توقع بہت حد تک پوری بھی ہوئی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مولانا عبد السلام ندوی کی بعض اہم کتابیں کسی نہ کسی بنا پر مسودوں ہی کی شکل میں بستوں میں بند رہ گئیں۔ خود "شعر الہند” ایک ایسی کتاب ہے جو طبع زاد فکر کا غیر معمولی نمونہ کہی جا سکتی ہے۔ اور اس فکر کا ثبوت صرف دہلویت اور لکھنویت کی نشاندہی میں نہیں بلکہ عمومی طور پر اردو غزل اور مثنوی کے بارے میں ان خیالات میں موجود ہے جن کا اظہار انہوں نے کتاب کے دونوں جلدوں میں جگہ جگہ کیا ہے۔
مولانا ندوی کی ایک دوسری بہت اہم کتاب ہے "تصوف پر ایک نظر”۔ آپ کا نقطۂ نظر عمومی طور پر تصوف کے خلاف ہے لیکن یہ اختلاف انہوں نے تعصب کے ساتھ نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اور پوری کتاب میں کہیں بھی تنگ نظری یا انصاف پسندی میں کمی کا شائبہ نہیں دکھائی دیتا۔ تصوف کے بارے میں مولانا نے اس کتاب میں بعض نئی باتیں بھی لکھی ہیں اور کچھ نئی معلومات بھی فراہم کرائی ہیں
اسلوب نگارش
مولانا سید سلیمان ندوی کے بعد علامہ شبلی کے نثری آہنگ کی سلاست، دل نشینی اور شگفتگی کو اگر کسی نے پوری طرح حاصل کیا تو وہ مولانا عبد السلام ندوی تھے۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ شبلی کی نثر میں جو بے مثال شعریت تھی موضوع چاہے جتنا بھی علمی اور فکری ہو شبلی کا قاری جس کے سبب اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا، مولانا عبد السلام ندوی کی نثر میں وہ شعریت نہیں ملتی۔ لیکن آپ کے یہاں بھی دلنشینی ویسی ہی ہے جیسی شبلی کے یہاں ہے۔ شبلی کے یہاں ایک ہلکی سی شوخی ہے گویا کوئی شخص مسکرا مسکرا کر اپنے بے تکلف دوستوں سے بات کر رہا ہو۔ انداز یہاں بھی شبلی ہی کی طرح علمی ہے لیکن باقاعدہ محفل کا نہیں بلکہ آپس کی بات چیت کا۔ اس نمایاں فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے مولانا عبد السلام اور پھر علامہ شبلی کو پڑھا جائے تو دو طبیعتوں کا فرق نظر آتا ہے لیکن دونوں کی افتاد ذہنی ایک سی ہے ۔
مولانا عبدالسلام ندوی ایک ایسے دانشور تھے جنہوں نے صحیح معنوں میں اپنی گراں قدر تصانیف کے ذریعے علامہ شبلی کے پسندیدہ موضوعات میں وسعت پیدا کی اور انہوں نے یہ کار نمایاں عصری حالات کے تقاضوں کے تناظر میں کیا اور یہی ان کی انفرادیت تھی۔ مولانا کی تصانیف کی زبان و بیان اور طرز ادا میں انفرادی تفاوت کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں۔ یعنی انہوں نے استاد کی تقلید کے بجائے منفرد اسلوب اختیار کرنے کی بھی سعی کی ہے ویسے بھی زندہ زبان، تغیر و تبدل اور نتیجہ ترقی کے عملِ مسلسل کا نام ہے اور مولانا سے زیادہ آشنا کون ہو سکتا تھا.
تصنیفات و تراجم
عبد السلام ندوی نے مختلف موضوعات پر سیکڑوں مضامین اور ہزاروں صفحات لکھا ہے، ان کی مستقل تصنیفات ایک درجن سے زائد ہیں، اہم تصانیف حسب ذیل ہیں:
- اسوۂ صحابہ (دو جلدیں) 1922ء
- اسوۂ صحابیات 1922ء
- سیرت عمر بن عبد العزیزحکمائے اسلام (دو جلدیں) 1956ء
- شعر الہند (دو جلدیں)
- اقبال کامل۔ 1929ء
- امام رازی۔ 1953ء
- تاریخ فقہ اسلامی (عربی کتاب "التشریع الاسلامی لمحمد خضری” کا ترجمہ)
- ابن خلدون (عربی سے ترجمہ)
- انقلاب الامم (عربی سے ترجمہ)
- القضاء فی الاسلام۔ 1950ء
- اسلامی قانون فوجداری۔ 1950ء
- فقرائے اسلام
- ابن یمین
- التربیۃ الاسقلالیہ۔ 1926ء
- تاریخ الحرمین الشریفین
- شعر العرب
- تاریخ التنقید
ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری تصنیفات اور ترجمے ہیں جن استیعاب یہاں ممکن نہیں۔ علاوہ ازیں معارف اور دوسرے رسائل میں ان کے متنوع مضامین کی تعداد اس قدر ہے کہ صرف ان کے عنوانات کی فہرست کے لیے کئی صفحات درکار ہونگے۔