مشتاق احمد یوسفی چار اگست 1933 کو ٹونک راجستھان میں پیدا ہوئے یوسفی نے ٹونک راجستھان میں تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کی تکمیل کے بعد ایل ایل بی کرنے کے لیے علی گڑھ چلے گئے گئے اور اول دشمن جان پاس کیا یا انیس سو پینتالیس میں علی گڑھ سے ہی فلسفہ میں میں پہلی پوزیشن سے پاس کیا یا مشتاق احمد یوسفی کا تعلیمی سفر ہمیشہ بہت ہی شاندار رہا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد مختلف بینکوں میں ملازمت کی اور اس پر ایک مکمل مضمون "زر گذست” کے نام سے لکھا
اسلوبِ نگارش
یوسفی نے اپنی تحریروں میں کئی جگہ لکھا ہے کہ وہ پیدائشی مصنف نہیں ہے اردو ان کی مادری زبان بھی نہیں تھی انہوں نے بڑی محنت سے اردو سیکھیں ان کا پہلا مضمون "صنف لاغر” کے عنوان سے "سویرا” میں شائع ہوا تھا تھا ابتدا میں یوسفی کے مضامین مشتاق احمد کے نام سے شائع ہوا کرتے تھے "چراغ تلے” شائع ہوا تو نام کے ساتھ یوسفی کا اضافہ ہوگیا۔
مشتاق احمد یوسفیاردو کے ایک مایہ ناز مزاح نگار ہیں۔ ان کے مزاح سے بھر پور لطف اندوز ہونے کے لئے اعلی ادبی ذوق اور شعر و سخن کا رچا ہوا ذوق ہونا ضروری ہے۔ وہ لفط اور خیال دونوں کی مدد سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔ مزاح کے تین بڑے شعبے طنز، خالص مزاح اوع ظرافت یوسفی کے یہاں تینوں کا حسین متزاج پایا جاتا ہے۔
یوسفی کے طنز کی طنز کی نمایا خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دل آزاری کا کوئی پہلو موجود نہیں ہے۔ تضحیک، تذلیل، تمسخر یا ہزل ان کے یہاں سے مفقود ہے۔ یوسفی کے طنز کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ براہِ راست نہیں بالواسطہ ہوتا ہے۔ ان کے جملے تہہ دار ہوتے ہیں۔ ناگفتنی بات بھی اس انداز سے کہہ جاتے ہین کہ ابتذال یا عریانیت کا شائبہ نہیں ہوتا۔ طنز کی ایک اعلی قسم وہ ہوتی ہے جب مزاح نگار اپنی ذات کو نشانہ بناتے ہیں، یوسفی نے کبھی اپنی طرفداری نہیں کی۔ جہاں موقع ملا خود کو بھی نشانہ بنا دیا۔ "چراغ تلے” کے دیباچے میں پہلا پتھر کے عنوان میں اس کی مثالیں ملتی ہیں ۔۔ مثلأ:
عمر کی اس منزل پر آ پہونچا ہوں کہ اگر کوئی سنہ ولادت پوچھے تو اسے فون نمبر بتاکر باتوں میں لگا لیتا ہوں
یوسفی "چراغ تلے” کے آئینے میں
"چراغ تلے” یوسفی کا پہلا مجموعہ مضامین ہے جس میں یوسفی کے تیرہ کھٹ میٹھے مضامین ہیں۔ یہ مجموعہ 1961ء میں کراچی سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعہ میں ان کا دلچسپ اور منفرد انداز کا مقدمہ "پہلا پتھر” بھی شامل ہے۔ "پہلا پتھر” میں مقدمہ نگاری کے غرض و غایت پر انگریزی اردو کے بعض مقدموں کا ذکر کیا ہے۔ جس کی اصل کتاب سے بڑھ کر اہمیت ہو گئی ہے پیشاور مقدمہ نگاروں کے کتاب کی جھوٹی تعریف کرنے کا خوب مزاق اڑایا ہے۔ لکھتے ہیں:
مقدمہ خود لکھنا کار ثواب ہے اس طرح دوسرے لوگ جھوٹ بولنے سے بچ جاتے ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کی کتاب کو پڑھ کر قلم اٹھاتا ہے ورنہ ہمارے نقاد عام طور سے کسی کتاب کو اس وقت تک نہیں پڑھتے جب تک انہیں اس پر "سرکے” کا شبہ نہ ہو۔
اس مقدمہ میں میں اپنی زندگی کے بارے میں میں مختلف ذیلی عنوانات شامل کئے ہیں جیسے تاریخ پیدائش، نام، خاندان، پہچان، جسامت، پسند، مشاغل، تصانیف،کیا لکھتے ہیں؟ اور کیوں لکھتے ہیں؟ ان تمام جزئیات کا جواب دیتے ہیں ہر جواب لاجواب ہے جس میں مزاح کا عنصر غالب ہے، بہترین مزاح نگار وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ پر ہنس سکے۔ اس اعتبار سے یوسفی ایک بہترین مزاح نگار ہیں۔ چلتے چلتے اِدھر اُدھر طنز کے پتھر بھی پھینک دیتے ہیں جیسے "پہچان” کے عنوان میں اپنا وزن لکھتے ہیں کہتے ہیں
اور کوٹ پہن کر بھی دبلا دکھائی دیتا ہوں اور مثالی صحت رکھتا ہوں، اس لحاظ سے کہ جب لوگوں کو کراچی کی آب و ہوا کو برا ثابت کرنا مقصود ہو تو اتمام حجت کے لیے میری مثال دیتے ہیں۔
چراغ تلے کے مضمون "پڑیے گر بیمار” کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ذہن فورا سجاد حیدر یلدرم ہم کے مضمون "مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ” کی طرف منتقل ہو جاتا ہے وہاں دوستوں کی خوش گپیاں ہیں تو یہاں دوستوں کی مزاج پرسی کے وہ خطرناک اور حیرت انگیز طریقے ہیں جو بیمار کو لبِ موت موت پہنچا دیتے ہیں. دونوں کے اسلوب میں طنز و مزاح کا اشتراک ہے مگر یوسفی کا چلبلاپن اس مضمون کو یلدرم کے مضمون سے کہیں آگے بڑھا دیتا ہے ہے۔ مضمون میں یوسفی نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کر پیش کیا ہے۔ محض معمولی سی بیماری لیکن دوستوں کی شفقت نے اسے مصیبت بنا دیا ہے۔ دعا کرنے والوں کے مفت مشورے، اندیشے اور اندازِ پر شش پولیس کی تفتیش سے کم نہیں ہوتے. مزاج پرسی کرنے والوں کا اس طرح تعارف کرواتے ہیں کہ قاری کی ہنسی رکتی نہیں ہے۔ مرنے کی ایسی مصیبت کے بارے میں لکھتے ہیں:
ان کا آنا فرشتہ موت کا آنا ہے، مگر مجھے یقین ہے کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام بھی روح قبض کرتے وقت اتنی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے ہوں گے۔
"یادش بخیر” ایک ایسا مضمون ہے جس میں ان نوجوانوں پر طنز ہے جو ہمیشہ اپنے ماضی سے چمٹے رہتے ہیں جن کا کام مستقبل اور حال کی روشنیوں سے استفادے کے بجائے ماضی کے اندھیروں میں بھٹکنا ہے۔ اس مضمون کا ہیرو یوسفی کے پرانے دوست جو ہر پرانی چیز کو عزیز رکھتے ہیں خواہ وہ کام کی ہو یا نہ ہو۔
دیگر مضامین کی طرح اس مضمون میں بھی بعض فقرے معرکے کے ہیں جن میں طنز بھی ہے اور دعوت فکر بھی۔ تعلیمی اداروں کے گرتے معیار پر ضرب لگاتے ہوئے کہتے ہیں :
سامنے دیوار پر آغا کی ربع صدی پرانی تصویر آویزاں تھی۔ جس میں وہ سیاہ گاؤن پہنے ڈگری ہاتھ میں لئے یورنیورٹی پر مسکرا رہے تھے۔
"وہ آنا گھر میں مرغیوں کا” یوسفی کے نزدیک میزبان کے اخلاص کا اندازہ مرغی اور مہمانوں کی تعداد اور تناسب سے ہوتا ہے گھر میں مرغیاں پالنے کے روادار نہیں ہے ان کا کہنا ہے کہ "ان کا صحیح مقام پیٹ ہے یا پلیٹ” صبح سویر مزغ کی بانگ کو وہ اذان سے تشبیہ دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ:
اگر یہ جانور واقعی اتنا عبادت گزار ہے تو مولوی اسے اتنے شوق سے کیوں کھاتے ہیں۔
یوسفی کی طنز کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان کے دل آزاری کا کوئی پہلو موجود نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں ظرافت اکتسابی نہیں فطری ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں سے اس قدر جدت اور ندرت پیدا کرتے ہیں کہ قاری مسکرانے بلکہ قہقہ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مثلاً : "میں آپ کا دادا نہیں دلدادہ ہوں”، یا پھر "ہر چیز کے دو پہلو ہورے ہیں ایک تاریک دوسرا اور زیادہ تایک”۔
بنیادی طور پر مشتاق احمد یوسفی اپنے مزاج اور اپنی ظرافت میں رشید احمد صدیقی سے قریب ہیں، دونوں کے مزاج اور ظرافت کا مؤثر پہلو ان کے اپنے اپنے کردار ہیں، دونوں انسانوں پر گزرنے والے واقعات لو اپنا موضوع بناتے ہیں، دونوں مشرقی تہذیب کے رسیا اور ترجمان ہی نہیں بلکہ طرفدار معلوم ہوتے ہیں۔
یوسفی الفاظ سے کم اپنے انداز سے زیادہ کام نکالتے ہیں، یہ نہج پطرس نے بھی آزمایا ہے لیکن یوسفی اس معاملے میں طبع زاد واقع ہوئے ہیں۔ "یادش بخیر” کا ایک حوالہ دیکیے:
"بی کے نتیجہ سے اس قدر بد دل ہوئے کہ خود کشی کی تھان لی۔ بوڑھے والدین نے سمجھایا کہ بیٹا خود کشی نہ کروطشادی کرلو، چنانچہ شادی ہو گئی”۔
دوسری مثال دیکھیے:
"خمیرہ گاؤ زباں اس لئے کھاتے ہیں کہ بغیر راشن کارڈ کے شکر حاصل کرنے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے۔ جوشاندہ اس لئے گوارہ ہے کہ اس سے نہ صرف ایک ملکی صنعت کو فروغ ہوتا ہے بلکہ نفسِ ارہ کو مارنے میں مدد ملتی ہے”۔
مضامین کے کردار
یوسفی کے مضامین میں چند کرداروں کی کا رفرمائی نظر آتی ہے "مرزا عبد الودود بیگ” ان میں سے ایک ہیں۔ یوسفی کے بعص کرداروں کے نام مضحکہ خیز ہیں جیسے فاغا اسلا صدیقی عرف فرغوصی، تلمیذ الرحمن چاکوی، یہ کردار ہنسانے والی باتیں بناتے ہیں۔ لفظوں کے الٹ پھیر سے مزاح کا ماحول بنا لیتے ہیں، یہ کردار محض احمق نہیں ہیں کئی دفعہ تو بڑی وقلمندی با ثبوت دیتے ہیں۔
یوسفی کی زان سادہ سلیس اور انشاء پردازی کا بہترین نمونہ ہیں۔ اکثر تشبیہات اوو محاورات اور ضرب الامثال کی صورت بڑی مہارت سے بگاڑتے ہیں مثال دیکھئے:
"میاں بیوی ٦٢ کے ہندسے کی طرح ایک دوسرے سے منہ پھیرے رہے”
"نظر خراشی کی معافی مانگتا ہوں”۔
"اس میں نگاہ کم ہے زاویہ زیادہ ہے”۔
یوسفی کا حسنِ تعلیل دیکھیں:
"ان کی نظر اتنی موٹی ہوگئی تھی کہ عورتوں نے ان سے پردو کرنا چھوڑ دیا تھا”۔
"شرم و حیاء عورت کا زیور ہے اسی لئے برقع خاص خاص موقعوں پر پہنا جاتا ہے”۔
الغرض اردو ادب کے فنِ ظرافت میں یوسفی اہم مقام رکھتے ہیں، اردو ادب میں ان کی مقبولیت شہرت اور انفرادیت ایسی ہے جو بہت کم مزاح نگاروں کے حصے میں آئی ہے۔