متفرق موضوعات و اوزان پر اشعار و قطعات

قطع بممناسبتِ تکمیلِ حفظِ قرآن

حفظِ قرآں کی بہارِ جاوِداں قائم رہے

روشنی قرآن کی، دل میں رواں، دائم رہے

زندگی، قرآں صِفَت ہو، تو یہ سَر کا تاج ہے

زندگی میں یہ "نويدِ کامران” دائم رہے

یہ قطع درج ذیل وزن و بحر میں لکھا گیا ہے:

فاعلاتن فاعلاتن، فاعلاتن فاعلن

قطع بممناسبتِ تکمیلِ حفظِ قرآن

روشن دل میں نور ہے خواب کی اِک تعبیر

صادق اشرف مرتبے، قسمت کی تحریر

ابنِ انور مرحبا فیضِ نَو ذيشان!

رب کے اس فیضان کی بن سچی تصویر

یہ اشعار ان اوزان پر ہیں”فعلن فعلن فاعلن، فعلن فعلن فاع” یا "فاع” فعولن فاعلن، فاع فعولن فاع” یہ دوہے کے اوزان ہیں، جس کے ایک مصرع میں تیرہ ،گیارہ ماترائیں ہوتی ہیں اور درمیان میں وقفہ ہوتا ہے، کسی نے یوں نظم کیا ہے:

تیرہ گیارہ ماترا، بیچ بیچ وشرام

دو مصرعوں کی شاعری، دوہا جس کا نام

اے کہ تُو

ِجو رب نے بخشی ہے صورت بصورت خورشید

بعینہٖ تیری، سیرت بلند، عالی ہو

نصیب سے مہ و اختر تیرا قدم چومیں

بفضلِ رب تیرا کردار بھی مثالی ہو

تہنیت بر مولود جدید

وجد میں آج جھومے ہے بادِ صبا

من کے آنگن میں کیسی ضیاء چھا گئی

ڈالی ڈالی ہے گلشن کی پر کیف سی

ذرے ذرے پہ یوں چاندنی چھا گئی

صد مبارک، مبارک تجھے ہم نشیں!

وہ جو نازک سی، نٹھی پری آ گئی

مبارکبادی کے لئے خوبصورت شعر

کامرانی تِرابڑھ کے چومے قدم

ایسے تیرا مقدر سنورتا رہے

بھردے اللہ دامن میں خوشیاں تِری

تجھ کو ثمرہ دعاؤں کا ملتا رہے

دو لفظ رفیقِ زندگی کے لئے

میں خوش نصیب ہوں ہمدم کہ میرے پاس ہے تو

تیرا لباس ہوں میں اور میرا لباس ہے تو

یہ روز و شب، مِرے، یہ زندگی کے ہر اک پل

ہیں مقتبس تیری سانسوں سے، میری آس ہے تو

لٹاؤں چاہتیں، تجھ پر میں جاں نثار کروں

ہزار خوبیاں تجھ میں ، وفا شناس ہے تو

ایک عزیز دوست کے نام

تمہارے "نقشِ رخِ شبنمى” کو کیا لکھوں؟

شریر، شوخ، شرارہ شباب لکھ دوں کیا؟؟

"گَگَن کا چاند” لکھوں، "جھیل میں کَنول” لکھ دوں

لکھوں تجھے؟ کسی "کمسِن کا خواب” لکھ دوں کیا؟؟

مسکان

کلیوں کے تبسم کی تقلید تو کر بیٹھے

انجامِ تبسم کا احساس بھی ہے تم کو

مسکان کی بجلی سے لرزے گا اگر گلشن

تڑپیں گے یہ پروانے، کچھ پاس بھی ہے تم کو

لاجواب

نہیں ہے وجہِ تکلٌْم؟ جناب، رہنے دو

نہ دو جواب، ہمیں لا جواب رہنے دو

"تِرا وجود” محبت کی ایک کُل تعبیر

یہ پیار دل میں مِرے، بے حساب، رہنے دو

افسوس

گِریاں ہو، حّیف! عمرِ گذشتہ کو سوچ کر؟

سب کچھ گنوا کے روئے تو رونے کا فائدہ؟

افسوس، پل سنہرے تو برباد ہو چلے

لیکن ہنوز ، ہوش نہ آئے تو فائدہ؟

اشتراک کریں