فورٹ ولیم کالج کا قیام
یہ انگریزوں کا قائم کیا گیا وہ تعلیمی ادارہ ہے جس کا وجود محض چند سال کا رہا مگر اثرات دو صدیاں بعد بھی باقی ہیں
۱۰جولائی سنہ ۱۸۸۰ء کا دن اس حیثیت سے ایک یادگار اور تاریخی دن ہے کہ اس دن ہندوستان کے ایک بڑے شہر کلکتہ کے اندرایک تاریخی درسگاہ کا قیام عمل میں آیا جسے ہم فورٹ ولیم کے نام سے جانتے ہیں۔
اس قیام اگرچہ کہ ۱۰ جولائی سنہ ۱۸۰۰ء ہےلیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ ویلزلی انگلینڈ میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کو ایک خط میں اصرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا قیام ۴مئی ۱۸۰۰ء مانا جائے۔ کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ انگریزوں کے ہاتھوں ‘شیر میسور’ ٹیپو سلطان کی شکست اور موت کی پہلی سالگرہ کے طور پر اس کالج کے قیام کو یادگار بنایا جائے۔
لارڈ ویلزلی اس کو ‘آکسفورڈ آف دی ایسٹ’ یعنی مشرق دنیا کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی حیثیت سے پروان چڑھانا چاہتے تھےلیکن یہ کالج جس نے برصغیر کی تقدیر لکھنے کا بیڑہ ااٹھایا تھا اس کا وجود چند سالہ ثابت ہوا تاہم اس کے اثرات دو صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی پائے جاتے ہیں۔
اس کالج کا قیام تو نوجوان انگریزوں کو ہندوستانی زبان و ادب اور مشرقی علوم و فنون سے روشناس کروانے کے لیے عمل میں آیا تھا لیکن اس نے ہندوستانی زبان و ادب کا رخ موڑ دیا۔
لندن میں موجودایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر اس کے قیام کے حق میں نہیں تھے کیونکہ ان کے خیال میں اس کام کے لیے انگلینڈ میں ایک ایسا نظامِ تعلیم موجود تھا جہاں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو انڈیا بھیجا جاتا تھا تاکہ وہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں انگریزوں کے تسلط کو مضبوط اور مستحکم بنا سکیں۔
فورٹ ولیم کالج اپنی ابتدا سے ہی انگریزوں کے درمیان تنازعے کا شکار رہا اور بعد میں ہندوستانیوں کے درمیان بھی ایک بڑے تنازع کا سبب ثابت ہوا۔ چنانچہ انگریزوں کی ‘بانٹو اور راج کرو’ کی پالیسی کی طرح یہیں سے پہلی بار اردو اور ہندی کا فرق ایک شگاف کے طور پر ابھرا جو بڑھتے بڑھتے اس حد تک جا پہنچا کہ ہندوستان بالآخر دو ممالک انڈیا اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا اور پھر پاکستان سے زبان اور جغرافیائی و سیاسی اختلافات کی وجہ سے ایک علیحدہ ملک بنگلہ دیش بھی وجود میں آیا۔
بہت سے ناقدینِ ادب اس بیانیے سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ فرق پہلے سے ہی موجود تھا کیونکہ یہاں ہر کوس دو کوس پر پانی اور وانی یعنی بولی بدل جاتی ہے چانچہ بہت سے مستشرقین نے انڈیا کو ‘زبانوں کا عجائب خانہ’ بھی کہا ہے۔
ان میں سے بعض ناقدین کا خیال ہے کہ لوگ ایسٹ انڈیا کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر اپناےاپنے مفاد کے پیشِ نظر زبان کی بنیاد پر تقسیم و تفریق کے دعوے کر رہے تھے۔
فورٹ ولیم کے قیام سے قبل
سنہ ۱۸۵۷ء میں سراج الدولہ اور انگریزوں کے درمیان پلاسی کی جنگ نے انگریزوں کو انڈیا میں پاؤں جمانے کا موقع فراہم کیا لیکن لارڈ کلائیو کی قیادت میں ہی بنگال کے نواب میر قاسم کے خلاف سنہ ۱۷۶۴ء میں ہونے والی بکسر کی جنگ نے پورے بنگال پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کو مستحکم کر دیا۔
اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے محسوس کیا کہ انھیں یہاں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کے کام کاج کے انتظام و انصرام میں ان کی مدد کر سکیں، اسی کے پیش نظر گورنر جنرل وارن ہیسٹنگس نے اکتوبر سنہ ۱۷۸۰ء میں کلکتہ مدرسہ قائم کیا جسے بعد میں مدرسہ عالیہ کے نام سے جانا گیا۔
اس مدرسے کے ایک سال کا خرچ انھوں نے اپنی جیب سے پورا کیا جسے بعد میں انگریزوں کی بنگال میں قائم حکومت نے منظور کر لیا اور وارن ہیسٹنگس نے سال بھر تک جو خرچ کیا تھا وہ انھیں واپس ادا کر دیا گیا۔
اس کے چار سال بعد کلکتہ سپریم کورٹ کے جج سر ولیم جونز کی تجویز پر ایشیا اور بطور خاص جنوبی ایشیا کے مطالعے کے لیے ‘ایشیاٹک سوسائٹی’ کا قیام عمل میں آیا۔
فورٹ ولیم کے قیام سے قبل ہمیں گلکرسٹ کا مدرسہ نظر آتا ہے جسے بعد میں فورٹ ولیم میں ضم کر دیا گیا کیونکہ گلکرسٹ فورٹ ولیم کالج کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔
واضح رہے کہ گلکرسٹ ایک سرجن یا معالج کے طور پر انڈیا لائے گئے تھے اور ان کی تعیناتی کلکتے کے بجائے بمبئی میں ہوئی تھی لیکن پھر ان کا تبادلہ ہوتا رہا اور وہ شمالی ہند کے مختلف علاقوں میں خاصا وقت گزارنے کے بعد کلکتہ پہنچے تھے۔
انھوں نے ہی پہلی بار یہ محسوس کیا اور دعویٰ بھی پیش کیا کہ اس ملک میں ایک زبان ایسی ہے جو پورے شمال ہندوستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور اسے انھوں نے ‘ہندوستانی’ زبان کا نام دیا۔ بہر حال یہ بحث الگ ہے کہ اس وقت اردو یا ہندی کا علیحدہ علیحدہ تصور تھا کہ نہیں۔
فورٹ ولیم کالج پر تحقیق کرنے والے اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی نے گلکرسٹ کے حوالے سے اپنی کتاب ‘گلکرسٹ اینڈ دی لینگویج آف ہندوستان’ میں کہا ہے:
گلکرسٹ کو یہاں کی زبان سیکھنے میں اتنی دشواری پیش آئی کہ انھوں نے ہندوستانی زبان کی ایک گرامر تحریر کر دی جو کہ پہلی ایسی کتاب تھی جس کی بنیاد پر انگلینڈ سے آنے والوں کو تعلیم دی جانے لگی۔
دہلی یونیورسٹی میں انگریزی زبان و ادب کے پروفیسر ہریش ترویدی کا خیال ہے کہ:
گلکرسٹ سے زبان کو سمجھنے میں غلطی ہوئی تھی اور انھوں نے تو ہندی اور بنگلہ زبانوں کو بھی ایک سمجھ لیا تھا۔
ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اردو زبان کے معروف شاعر مرزا محمد رفیع سودا کی شاعری اور قصائد سے سیکھی جبکہ آج کے دور میں اردو کے استاد بھی سودا کے قصائد کو بہت آسانی سے نہیں سمجھ سکتے ہیں۔
فورٹ ولیم کے قیام کا مقصد
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج کا قیام انگریز سول سروینٹس کو ہندوستان کی زبان ثقافت اور عدالتی نظام سے روشناس کروانے کے لیے ہوا تھا۔ لیکن اس ادارے کے پورے ڈھانچے پر نظر ڈالی جائے تو یہ براہ راست چرچ آف انگلینڈ کے زیر اثر تھا۔ اس کا ایک بڑا مقصد کرسچن مشنری کاموں کو سرانجام دینا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ سنہ ۱۷۹۹ء میں جنوبی ہند کے سری رنگاپٹنم میں جب ٹیپو سلطان کو شکست ہوئی تو وہاں سے انگریزوں نے قرآن مجید کا ایک نسخہ حاصل کیا اور اسے دیکھ کر کہا کہ اب انڈیا میں بائبل کی ترویج و اشاعت کے لیے راہ ہموار ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ وہ وقت بنگال میں نشاۃثانیہ کا دور تھا اور رام موہن رائے جیسے مفکر اس کے سرخیل تھے۔ چنانچہ ہر طرح کے خیالات کے لیے وہاں گنجائش موجود تھی۔
کالج کا قیام ۱۰ جولائی کو عمل میں آیا جب کہ اس کا خاکہ ۱۸ اگست کو منظور کیا گیا لیکن ٹیپو سلطان کی شکست کی تاریخ کو یادگار بنانے کے لیے اس کے قیام کا دن 4 مئی قرار پایا۔ بہر حال کالج کا پہلا سیشن ۶فروری سنہ ۱۸۰۱ء سے شروع ہوا۔
کالج کے سٹیچیوٹس میں اس کے قیام کے مقصد کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
فورٹ ولیم کالج کا قیام بہت حد تک مسیحی مذہب کی بنیادوں پر کیا گیا ہے اور اس کا مقصد نہ صرف مشرقی ادبیات کا فروغ ہے بلکہ طلبہ کو انڈیا کے برطانوی سامراج میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت جہاں انھیں مقرر کیا جاتا ہے وہاں وہ برطانیہ کے پرمغز قانون اور آئین کو نافذ کریں گے اور کرّہ کے اس حصے میں عیسائی مذہب کی سربلندی کے لیے کام کریں گے۔ اس میں اس وقت تک کسی کو بھی اعلیٰ عہدے پر مقرر نہیں کیا جائے گا یا پروفیسر نہیں بنایا جائے گا جب تک کہ وہ عالی مقام شاہ برطانیہ سے وفاداری کا عہد نہیں اٹھاتا اور مندرجہ ذیل عہد نہیں کرتا:
- میں قسم کھاتا ہوں اور صدق نیت سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں عوامی طور پر کوئی ایسا اصول نہیں اپناؤں گا نہ ایسی تعلیمات دوں گا جو مسیحی مذہب کے یا پھر چرچ آف انگلینڈ کے قائم کردہ اصول و ضوابط سے متصادم ہو۔
- میں قسم کھاتا ہوں اور صدق نیت سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں کھلے عام یا ذاتی طور پر کوئی ایسی چیز نہ کروں کا اور نہ اس کی تعلیم دوں گا جو کہ گریٹ برٹین کے چرچ یا حکومت کے قوانین سے متصادم ہو اور میں ہز میجسٹی کی حکومت سے وفادار رہوں گا۔
پہلے اس کے قیام کے لیے کولکتہ کے قلب میں واقع رائٹرز بلڈنگ کی تفویض ہوئی تھی (جو کہ اب مغربی بنگال کی ریاستی حکومت کا سیکریٹریٹ ہے) اس کا استعمال سنہ ۱۷۸۰ء سے انگلینڈ سے آنے والے لکھاریوں کے لیے ہوتا تھا جس میں کلاس رومز کے علاوہ ایک سائنس کی لیبارٹری اور پروفیسرز اور انتظامیہ کے سٹاف کے لیے کمرے تھے جبکہ پہلی منزل پر لیکچر روم تھے اور دوسری منزل پر چار کمرے تھے جو کہ ۳۰ فٹ لمبے اور ۲۰ فٹ چوڑے تھے۔ اوپری منزل پر ۶۸ فٹ لمبا اور ۳۰ فٹ چوڑا ایک ہال تھا جسے امتحانی ہال بنانا مقصود تھا۔
لیکن لارڈ ویلزلی کے منصوبے اس سے کہیں زیادہ تھے اس لیے اسے ہوگلی ندی کے کنارے واقع وسیع و عریض قلعے فورٹ ولیم میں قائم کیا گیا۔ یہ قلع کنگ ولیم سوئم کے نام پر رکھا گیا تھا اور اسے سنہ ۱۷۰۰ء میں مغل حکمران کی اجازت سے تعمیر کیا گیا تھا۔
ویلزلی نے اس میں مختلف طریقہ انصاف اور قانون کی تعلیم کے ساتھ تاریخ، جغرافیہ، سیاسی معیشت، علم کیمیا، علم نباتات، تجرباتی فلسفہ کے شعبے بھی قائم کیے۔ اس کے علاوہ یونانی اور لاطینی زبانوں کے ساتھ عربی، فارسی، سنسکرت، فرانسیسی، انگریزی اور دیسی زبانیں بھی نصاب کا حصہ تھیں۔
سسر کمار داس اپنی کتاب ‘صاحب اور منشیز’ میں لکھتے ہیں کہ:
ویلزلی اسے اوریئنٹل ا سٹڈیز کے ایک اور مرکز کے طور پر ہرگز نہیں لے جانا چاہتے تھے۔
فوٹ ولیم کالج کے طلبہ
صدیق الرحمان قدوائی اور بہت سے دوسرے ماہرین نے شواہد کی بنیاد پر کہا ہے کہ:
اس میں جو طلبہ آتے تھے وہ ۲۰ سال یا اس سے کم عمر کے ہوتے تھے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بہت تہذیب یافتہ یا اچھے کردار سے آراستہ نہیں تھے۔
کالج رہائشی یعنی اقامتی ادارہ تھا تاکہ طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کی جا سکے۔ صدیق الرحمان قدوائی کے مظابق جس طرح ہندوستان کے بگڑے دل رئیس زادے اور نوابزادے تھے اسی ڈھرے پر انگلینڈ سے آنے والے یہ نوجوان تھے۔ یہ عیش کوشی کے لیے قحبہ خانے جاتے، مجرے سنتے اور بعض تو ہندوستان کے نوابزادوں کی طرح اچکن بھی پہننے لگے تھے۔
انھوں نے کہا کہ
یہ لڑکے انڈیا آنے کے لیے رشوت بھی دیتے تھے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ یہاں دولت کی ریل پیل ہے اور جتنا انھوں نے رشوت میں دیا ہے اس کا کئی گنا یہ یہاں سے حاصل کر لیں گے۔
اگر گلکرسٹ کے کالج سے پہلے کے دنوں پر نظر ڈالیں تو وہ بڑے منافع کے لیے نیل کی کھیتی میں بھی شامل تھے اور نیل کی کھیتی میں ہندوستان کے کاشتکاروں اور مزدوروں کا استحصال مثالی بتایا جاتا ہے۔
فورٹ ولیم کی خدمات
فورٹ ولیم کو اگرچہ نوخیز انگریز حکام کی تعلیم کے لیے قائم کیا گیا لیکن اس کے دور رس اثرات ہندوستان کے زبان و ادب پر مرتسم ہوئے۔
یہاں نہ صرف ہندوستانی یعنی اردو ہندی کی تعلیم دی گئی بلکہ بنگلہ اور تمل کی بھی تعلیم دی گئی۔ ان کے علاوہ اڑیسہ کی زبان اڑیا، پنجاب کی زبان پنجابی اور مہاراشٹر کی زبان مراٹھی کی نثر کے ابتدائی نقوش بھی یہاں ملتے ہیں اور ان کے قواعد بھی یہاں تیار ہوتے نظر آتے ہیں۔
چنانچہ اردو میں بڑے پیمانے پر نثر کی ابتدا اور اس کے خد و خال تیار کرنے کا سہرا بھی اس کالج کے سر جاتا ہے۔
یہیں فارسی اور دیو ناگری رسم الخط کا معاملہ بھی اٹھتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ایک زبان کو دو رسم الخط میں لکھنے کی بنیاد یہیں پڑی۔
ماہرین لسانیات میں اس معاملے میں بہت اختلافات ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ دونوں رسم الخط مروّج تھے۔ لیکن صدیق الرحمان قدوائی کا کہنا ہے کہ اس سے قبل زیادہ تر چیزیں فارسی یعنی آج کے اردو رسم الخط میں موجود تھیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انگریزی زبان کے ریٹائرڈ پروفیسر انیس الرحمان نے ایک پروگرام کے دوران کہا کہ:
فورٹ ولیم کالج کے قیام سے قبل دیوناگری رسم الخط میں پانچ چھ سے زیادہ کتابیں دستیاب نہیں تھیں۔جبکہ اس کالج سے مختلف مضامین میں ایک سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے بیشتر کتابیں اگرچہ اب قابل قدر نہیں لیکن اردو اور ہندی یا دوسری زبانوں میں چند ابتدائی کتابیں ایسی شائع ہوئیں جو قابل ذکر ہیں۔ یہاں سے ہی ہندوستانی زبانوں میں جدید نثر کی بنیاد پڑتی ہے۔
فورٹ ویلیم کالج کی ادبی خدمات
انڈیا میں شاعری اور مرصع اور مقفی نثر تو موجود تھی لیکن سہل اور رواں زبان میں نثر کی داغ بیل یہیں پڑی جو سنہ ۱۸۲۵ء میں دلی کالج کے قیام کے بعد مزید پھلی پھولی اور سرسید کی تحریک کے آتے آتے اپنے شباب پر پہنچ گئی۔
فورٹ ولیم سے شائع ہونے والی کتابوں میں ‘قصہ چہار درویش’ کو میر امن نے سلیس ٹکسالی یعنی دہلوی زبان میں لکھا جو کہ ‘باغ وبہار’ کے نام سے آج بھی سکول اور کالجوں کے نصاب میں شامل ہے۔
میر شیر علی افسوس کی ‘آرائش محفل’ ایک ہندوستانی شاہی خاندان کی کہانی ہے نہ کہ حاتم طائی کی۔ اسی طرح انھوں نے سعدی کی تصنیف گلستان کا ترجمہ ‘باغ اردو’ کے نام سے کیا۔
میر امن کی اخلاقیات پر تصنیف کردہ کتاب ‘اخلاق محسنی’ اور غلام اشرف کی ‘اخلاق النبی’ اہمیت کی حامل ہیں۔ شاکر علی نے داستان الف لیلیٰ رقم کی جبکہ مولوی امانت اللہ کی کتاب ‘ہدایۃّ الاسلام’ قابل ذکر ہیں۔
خلیل علی خان کی ‘داستان امیر حمزہ’ اور حیدر بخش حیدری کی ‘آرائش محفل’ آج بھی بہت سے اداروں میں مکمل یا جزوی طور پر شامل نصاب نظر آتی ہیں۔
اسی طرح وہاں دیوناگری میں للو لال کی تصنیف پریم ساگر اور مظہر علی خان کی بیتال پچیسی بھی سامنے آئی۔
فورٹ ویلیم کالج کی داستانیں
اٹھارویں صدی کے آخر تک اردو داستان کا انتہائی دور رہا۔ اس میں پختگی اور خود اعتمادی نہ آئی تھی۔ اس کا دائرہ بہت محدود تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے قیام کے ساتھ ہی اردو داستان پر شباب آنے لگا تھا، دھیرے دھیرے اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ یہاں کم و بیش پندرہ داستانیں لکھی گئیں۔
1- طوطا کہانی
یہ سید حیدر بخش حیدری کی تصنیف کردہ داستان ہے۔ حیدری کو شہرت و قبولیت دو داستانوں کی وجہ سے ملی جن میں ایک "طوطا کہانی” جبکہ دوسرا "قصہ مہر و ماہ” ہے۔
حیدری نے یہ داستان ڈاکٹر جان گل کرسٹ کی فرمائش پر سنہ ۱۸۰۱ء میں سید محمد قادری کے طوطی نامہ کا ترجمہ کر کے تصنیف کی ۔ داستان سادہ اور آسان زبان میں لکھی گئی ہے لیکن لفظی تصنع سے خالی نہیں۔ جا بجا فارسی محاورات کا لفظی ترجمہ بھی نظر آتا ہے البتہ عبارت رواں اور دلچسپ ہے۔ جملے چھوٹے اور ہلکے پھلکے ہیں جو پڑھتے وقت آواز کے اتار چڑھاؤ سے برابر ہم آہنگ رہتے ہیں۔ عبارت میں روزمرہ اور محاورے کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے تسلسلِ بیان میں کوئی کمی نہیں آنے پائی ہے۔
2- آرائشِ محفل
داستان کی روایت میں حیدری کی دوسری تصنیف "آرائشِ محفل” بھی قابلِ ذکر ہے ۔ یہ داستان سنہ ١٨٠١ء میں فارسی سے اردو میں ترجمہ شدہ ہے۔ داستان میں حیدری کی زبان طوطا کہانی کی زبان سے زیادہ مشکل ہے اور جملے بھی طویل تر ہیں۔ جا بجا عربی و فارسی الفاظ و تراکیب کا استعمال بھی ملتا ہے جن سے بیان کی روانی اور قصے کی دلچسپی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ صحیح ہے کہ میرا من کا سا سوز و گداز، رنگینی اور بانکپن ان کے یہاں نہیں ملتا پھر بھی طرز بیان میں روانی اور ایک طرح کی چاشنی پائی جاتی ہے ۔ اس داستان میں واقعات و حالات باغ و بہار سے کہیں زیادہ بعید الفہم، دور از قیاس اور مافوق فطرت ہیں ۔ قصے کی بنیاد ہی ایک مہرے پر رکھی گئی ہے جس سے تمام مہمات سر کی جاتی ہیں۔ حیدری تصویر کشی میں بھی فنی چابکدستی سے عاری نظر آتا ہے۔ ان کے بیان سے واقعات و مناظر کی کوئی تصویر ذہن میں نہیں بنتی ۔ اپنے زمانے کی معاشرت و تمدن کا جیسا نقشہ میر امن نے کھینچا ہے اس کا بھی یہاں نام و نشان نہیں ملتا۔ تخیل کی پرواز میں سرعت و بلندی تو ہے لیکن ضبط و ترتیب نہیں ۔
ان دو داستانوں کے علاوہ حیدری نے "قصہ مہر و ماہ” سنہ ۱۷۹۹ء میں ، "قصہ لیلیٰ مجنوں” سنہ ۱۸۰۰ء میں اور گلزار دان سنہ ۱۸۰٦ء میں میں لکھی ہیں۔
3- داستانِ امیر حمزہ
مولوی خلیل علی خاں اشک نے سنہ ١٨٠١ء میں ڈاکٹر جان گل کرسٹ کی فرمائش سے داستان امیر حمزہ کو پہلی بار فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ اس داستان میں چار دفتر اور اٹھاسی داستانیں ہیں۔ داستان کی عبارت بہت سادہ، سلیس اور رواں ہے اور اس میں سنجیدگی کے ساتھ ساتھ چاشنی بھی ملتی ہے۔ داستان میں جا بجا ہندوستانی اور ایرانی رسم و رواج کی آمیزش نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ ترجمہ میں مترجم کے تخیل کو جہاں جہاں سے تحریک ملی ہے وہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے۔
4- باغ و بہار
اردو نثر کی تاریخ میں باغ و بہار کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس میں ایک بادشاہ اور چار درویشوں کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں جنہیں تمہید اور خاتمے کے ذریعے آپس میں جوڑ دیا گیا ہے۔ میر امن دہلوی نے یہ داستان جان گل کرسٹ کی فرمائش پر سنہ ۱۸۰۰ء میں تحسین کے "نو طرزِ مرصع” کے مقابلے میں آسان اور سہل زبان میں تصنیف کیا۔ اس داستان کی تین بڑی خصوصیات ہیں:
- پہلی خصوصیت یہ کہ یہ پانچ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی شکل میں ہے جس میں مختصر افسانے کی جھلک نظر آتی ہے۔
- دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دہلی کی تہذیب و معاشرت کی مکمل مرقع کشی نظر آتی ہے ۔
- اس کا تیسرا سب سے اہم امتیاز ہے اس کا اسلوب بیان اور طرزِ نگارش، جو کہ عام بول چال کی زبان اور روز مرہ کے آسان اور زود فہم جملوں اور محاوروں پر مبنی ہے ۔
5- مذہبِ عشق
نہال چند لاہوری نے فورٹ ولیم کالج میں تقرری کے بعد عزت اللہ بنگالی کے ‘قصہ "گل بکاؤلی” کا سنہ ۱۸۰۳ء میں ترجمہ کیا اور اس کا نام "مذہب عشق” رکھا۔ یہ داستان چھبیس ابواب پر مشتمل ہے جس کی کہانی تین حصوں میں منقسم ہے:
پہلے حصے میں شہزادہ تاج الملوک کی پیدائش اور بادشاہ زین الملوک کے نابینا ہونے کو دکھایا گیا ہے۔ بادشاہ کی بینائی واپس لانے کے لیے چاروں شہزادے اور تاج الملوک باغِ بکاؤلی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔
داستان کو طول دینے کے لئے دوسرے حصہ میں راجا اندر اور امر نگر کی کہانی کو شامل کیا گیا ہے۔
دوسری کہانی کے ساتھ ساتھ ایک اور کہانی چلتی رہتی ہے جس میں وزیر زادے بہرام اور روح افزا کی داستان ہے جو کہ اس داستان کا تیسرا حصہ ہے۔
داستان کا تانا بانا ما فوق فطرت عناصر سے باندھا گیا ہے جو اسے طول دینے میں بہت کردار ادا کرتے ہیں۔ اس داستان کی زبان فارسی آمیز اور اسلوب پُر تصنع اور پُر شکوہ ہے جو ابتدا تا انتہا یکساں نہیں۔ کہیں گنجلک فقرے اور دقیق ترکیبوں کا استعمال ہے تو بعض جگہ محاورے اور روز مرہ کا استعمال ۔
6- نثر بےنظیر
یہ داستان میر حسن کی مثنوی "سحرالبیان” کا نثری خلاصہ ہے جسے میر بہادر علی حسینی نے ڈاکٹر جان گل کرسٹ کی فرمائش پر سنہ ۱۸۰۲ء میں ترتیب دیا ۔ یہ داستان سنہ ۱۸۰۳ء میں شائع ہوئی۔ داستان کے فقرے چھوٹے اور مختصر ہیں ۔ عبارت آسان اور رواں ہیں۔ کہیں کہیں پر قافیے کا بھی التزام ہے جس سے داستان میں تعقید پیدا ہو جاتی ہے۔ حسینی نے بیچ بیچ میں مثنوی سحر البیان کے اشعار بھی نقل کئے ہیں۔
7- اخلاقِ ہندی
میر بہادر علی حسینی کی یہ داستان نثر بے نظیر سے زیادہ مشہور اور مقبول ہوئی۔ حسینی نے داکٹر جان گل کرسٹ کی فرمائش پر فارسی داستان "مفرح القلوب” کا سنہ ۱۸۰۲ء میں "اخلاقی ہندی” کے نام سے ترجمہ کیا۔ داستان کی عبارت سلیس اور سادہ ہے۔ عربی و فارسی الفاظ کا استعمال نہایت معتدل ہے لیکن انشا میں فارسی ترجمے کی شان پائی جاتی ہے۔ جملوں کی ساخت اور طول و اختصار میں کوئی توازن نہیں ہے نیز زبان میں میواتی لہجے کا اثر جھلکتا ہے۔
8- بیتال پچیسی
اس داستان کا اصل ماخذ سنسکرت ہے۔ یہ سنہ ۱۷۴۰ میں برج بھاشا میں منتقل ہوئی پھر سنہ ۱۸۰۴ میں مظہر علی خان ولا نے للولال گوی کی مدد سے اسے اردو میں ترجمہ کیا جو سنہ ۱۸۰۵ (1805) میں شائع ہوئی۔ داستان کی زبان صاف اور سلیس نہیں ہے۔ اس میں خالص ہندی کے الفاظ بکثرت استعمال کیے گئے جن میں سے بعض سمجھ سے بالا تر ہیں۔ مواد بھی خالص ہندو دیو مالا اور قدیم ہندو تہذیب سے لیا گیا ہے اس کے باوجود یہ داستان عوام میں بہت مقبول ہوئی۔
9- قصہ مادھونل و کام کندلا
اس داستان کو مظہر علی خان ولا اور للو لال کوی نے سنہ ١٨٠٣ء میں سنسکرت سے اردو میں ترجمہ کیا۔ یہ داستان ایک حسین برہمن مادھونل کی کہانی ہے جسے راجا گوبند راؤ اپنے محل سے نکال کر شہر بدر کر دیتا ہے۔ داستان کی زبان خالص اردو ہے جسے مصنف نے فارسی کے فقرے اور تراکیب سے چار چاند لگا دیا ہے ۔ . اس کی فضا ہندی روایات و اسالیب سے بنی گئی ہے جس میں جنسیات کے کوک شاستر کو کافی اہمیت دی گئی ہے۔
10- سنگھاسن بتیسی
یہ داستان بھی سنسکرت سے اردو میں منتقل ہوئی ہے جسے کاظم علی جوان اور للو لال کوی نے سنہ ۱۸۰۱ء میں لکھا۔ اس داستان میں اس قدیم ہندو معاشرت کے مرقعے پیش کیے گئے ہیں جو مذہبی کتابوں اور سنسکرت ادب میں ملتے ہیں۔ اس کی زبان صاف، سادہ اور جملے سیدھے سادھے ہیں۔ تصنع اور صنائع سے پرہیز کیا گیا ہے البتہ بھاشا کے الفاظ کا بکثرت استعمال کیا گیا ہے ۔
11- شکنتلا
کاظم علی جوان نے للو لال کوی کی مدد سے اس مشہور داستان کو سنسکرت سے اردو میں سنہ ۱۸۰۱ء میں ترجمہ کیا۔ داستان کی زبان سہل و سادہ ہے لیکن جملے مجسع و مقفع تراکیب سے بھری پڑی ہیں جس سے اس کے پلاٹ میں تعقید اور پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ مشکل و گنجلک عبارت کی وجہ سے داستان نہ تو لطف و انبساط پیدا کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے اور نہ ہی ڈرامے جیسی دیسی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہو سکی۔
12- خرد افروز
یہ داستان شیخ ابوالفضل غلامی کی کتاب عیار دانش کا اردو ترجمہ ہیں جس کا اصل ماخذ سنسکرت ہے. حفیظ الدین احمد نے عیار دانش سے پہلی بار سنہ ۱۸۰۳ء میں یہ قصہ اردو میں منتقل کیا اور خرد افروز نام رکھا۔ داستان کی زبان صاف اور سادہ ہے۔ قواعد زبان کا خاص خیال رکھا گیا ہے اور فارسی سے لفظی ترجمہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے چنانچہ مترجم نے فارسی محاوروں کا بھی ترجمہ کر دیا ہے اور جا بجا جملوں کی ساخت میں بھی فارسی اسلوب بیان کی پیروی کی گئی ہے البتہ ہندی، عربی اور فارسی الفاظ کے استعمال میں اعتدال برتا گیا ہے۔
فورٹ ولیم سے کس کا فائدہ؟
فورٹ ولیم سے کس کا فائدہ ہوا؟ اس سلسلے میں ناقدین کی رائے منقسم ہے لیکن سب ایک بات پر متفق ہیں کہ کالج تو تھوڑے ہی عرصے قائم رہا یعنی ابتدائی پانچ چھ سال اس کے عروج کا زمانہ رہا جب تک ویلزلی انڈیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل رہے یا پھر جب تک گلکرسٹ وہاں رہے۔
واضح رہے کہ یہ دونوں سنہ ۱۸۰۵ء میں کالج سے رخصت ہو گئے۔ بہت سے لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ گلکرسٹ کبھی بھی کالج کے پرنسپل نہیں تھے بلکہ ہندوستانی زبانوں کے شعبے کے نگراں تھے۔
صدیق رحمان قدوائی کا کہنا ہے کہ:
کلکتہ اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ چمک دمک والا شہر تھا چنانچہ وہاں سے آنے والے نوخیز طلبہ یہاں کی چمک دمک میں کھو گئے اور انھوں نے بہت حد تک ہندوستان کی تہذیب کو قبول کرنا شروع کر دیا اور اسی زمانے میں سب زیادہ تہذیبی اختلاط و ارتباط سامنے آیا۔ اس کے علاوہ فورٹ ولیم سے جو چیز سامنے آئی وہ آج تک ہمارا اثاثہ ہے۔
بہر حال بہت سے ناقدین وہاں برتے جانے والے تعصبات کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق کسی بھی ہندوستانی کو وہاں پروفیسر نہیں بنایا گیا بلکہ سارے اساتذہ انگریز یا یورپی تھے۔
ہندوستانیوں کے لیے منشی کا عہدہ تھا جو کئی حصوں میں تقسیم تھا۔ انگریزوں کو سب سے زیادہ۱۶۰۰ روپے ماہانہ ملتے تھے اور سب سے کم ایک ہزار روپے جبکہ منشیوں کے سب سے نچلے درجے کو ۴۰ روپے، اس سے اعلیٰ کو ۱۰۰ روپے اور میر منشی کو ۲۰۰ روپے ملتے تھے۔
کالج کا زوال اور خاتمہ
کالج کی مخالفت انگلینڈ میں ہی زیادہ ہو رہی تھی چنانچہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ضرورت کے پیش نظر انگلینڈ میں ہی ہیلی بیری کالج سنہ ۱۸۰۶ء میں قائم کیا گیا جو آج تک اپنی خدمات انجام دے رہا ہے لیکن فورٹ ولیم کا سورج بہت جلد غروب ہو گیا۔
گلگرسٹ اور لارڈ ویلزلی کے بعد اس کے بجٹ میں خاطر خواہ کمی کر دی گئی۔ بلکہ سیتانشو کمار کا تو کہنا ہے کہ کالج کے قیام کے دو سال بعد سنہ ۱۸۰۲ء میں ہی اسے بند کرنے کا حکم سنا دیا گیا تھا لیکن ویلزلی نے اس پر عمل در آمد نہیں کیا اور یہ چلتا رہا۔ ان کے مطابق اس کی دمک اس وقت کم پڑگئی جب گلکرسٹ بھی وہاں سے رخصت ہو گئے۔
سنہ ۱۸۱۳ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک چارٹر آیا جس میں ہندوستان میں تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے ایک لاکھ کی گرانٹ منظور کی گئی۔ انگریزوں کے زیر نگیں جو خطہ تھا اس کے لیے یہ رقم بہت زیادہ نہیں تھی بلکہ ایک طرح سے دیکھا جائے تو فورٹ ولیم کالج میں جتنے اساتذہ اور مترجمین تھے یہ ان کے لیے بھی ناکافی تھی۔
اس کے بعد کالج بجٹ کی کمی کا شکار ہو گیا اور پھر یہ انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بند کر دیا گیا لیکن اس کا انجام پوری طرح سنہ ۱۹ ویں صدی کے وسط میں آیا۔
واضح رہے کہ سنہ ۱۸۳۷ء میں لارڈ میکالے کی نئی تعلیمی پالیسی آئی جس نے انگریزوں کو ہندوستان کی زبان سکھانے کے بجائے ہندوستانیوں کو انگریزی زبان اور تہذیب و تمدن سکھانے کا بیڑا اٹھایا اور اس طرح کالج کا جواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
اس سے پہلے برٹش پارلیمان میں اپنے خطاب کو ختم کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا:
فی الحال ہم اتنا ضرور کریں کہ ایسا طبقہ پیدا کریں جو ہمارے اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان ترجمان کا کام کر سکے جو اپنے رنگ و نسل میں تو ہندوستانی ہوں لیکن اپنے مزاج، اپنے خیال اور اپنے اخلاق اور دانشمندی میں انگریز ہوں۔