غزل

غزل امیرِ شہر کی نیت خراب ہوجائے
تو لازمی ہے ہر اک شے خراب ہوجائے

مسلماں ہوکے چلے جو روش لئیموں کی
یقین ہے کہ وہ مثلِ غُراب ہوجائے

پیاس کھینچ کے لائی ہے دشت سے اسکو
ڈرے ہے پھر،کہ نہ دریا سراب ہوجائے

"جوایک جام بھی پی کر سنبھل نہیں سکتے”
وہ چاہتے ہیں سمندر شراب ہوجائے

ستم پہ ایک ستم روز ڈھا رہا ہے جو
دعا ہے جلد وہ مرکر تراب ہوجائے

اِدھر کی بات اُدھر جو بھی کررہے ہیں مبین
غزل یہ انکے لئے اب ضِراب ہوجائے

عبد المبین محمد جمیل ایم اے

اشتراک کریں