غزل

تعلق توڑتا ہے تو وہ یکسر توڑ لیتا ہے
وفا کی راہ میں اکثر وہ ایسا موڑ لیتا ہے

اتر آتا ہے آنکھوں میں کوئی اشک ندامت جب
تو پھر شرمندگی سے ٹوٹا رشتہ جوڑ لیتا ہے

وہ میداں کھیل کا ہو، یا سیاست کی وہ کج راہیں
ہنر منداں اگر دوڑے تو سرپٹ دوڑ لیتا ہے

بیا سے مانگ لو عزم ارادہ اور جوانمردی
بلندی پر وہ کیسے اپنا گھر خود جوڑ لیتا ہے

وہ رہ جاتا ہے منزل سے ہمیشہ دور، اے شاہد
جو مجبوری کی چادر راستے میں اوڑھ لیتا ہے

عبدالمبین محمد جمیل شاہد سلفی

اشتراک کریں