شمس العلماء خواجہ الطاف حسین حالی بحیثیت ایک سوانح نگار و شاعر

خواجہ الطاف حسین حالی 1853 میں پیدا ہوۓ ۔ ان کے والد ایزاد بخش پانی پت کے محلہ انصاریاں میں رہتے تھے۔ حالی ان کے دوسرے فرزند تھے ۔ سترہ سال کی عمر میں ان کی شادی اسلام النسا سے ہوئی جو ان کی ماموں زاد بہن تھیں ۔ دہلی میں مدرسہ حسین بخش میں داخلہ لیا اور 1855 میں پانی پت واپس آ کر اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے رہے۔ضلع مھار کے دفتر کلکٹری میں ایک معمولی ملازمت کی۔

حالی 1857 کے ہنگامے کے بعد پھر واپس پانی پت چلے آئے۔ 1863 میں نواب مصطفی خان شیفتہ سے ملاقات ہوئی جنھوں نے اپنے فرزند نقش بند خاں کا اتالیق بنالیا ۔ نواب کے انتقال کے بعد پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں مترجم کی جگہ کام کرتے رہے یہاں مغربی ادبیات ، مغربی علوم اور اہل مغرب کی ترقی سے واقفیت حاصل ہوئی ۔ انجمن پنجاب کے قیام کے بعد محمد حسین آزاد کے ساتھ اس سے وابستہ ہو گئے ۔ اسی دوران انجمن میں برسکارف نشاط امید ، مناظره رحم و کرم اور حب الوطنی جیسی نظمیں لکھیں ۔ حالی کی تصانیف میں مولود شریف ( 1864 ) ، مبادی علم ارضیات با طبقات الارض اور مجالس النساء کا ذکر بھی ضروری ہے ۔ نظم میں مسدس کی وجہ سے حالی کا نام ناقابل فراموش بن گیا ہے ۔ مناجات بیوہ میں ایک بیوہ کی بیتابیاں بیان کی گئی ہے ۔ یہ ایک پر اثر اور حقیقت پسندانہ نظم ہے ۔ اس کا مجموعہ کلام 1893 میں شائع ہوا ۔ دیوان کے ساتھ مقدمہ بھی شائع ہوا تو ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا ۔

"یادگار غالب” کی تصنیف

حالی کو غالب سے بڑی عقیدت تھی۔ غالب کے انتقال کے بعد انھوں نے "یاد گار غالب” لکھی جو 1897 میں شائع ہوئی۔ اس سوانح میں غالب کے حالات زندگی اور ان کی سیرت پر بڑے محققانہ اور شگفتہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے ۔ وہ تصویر کے دونوں رخ پیش کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سرسید کے واقعات زندگی اور ان کے کارناموں کو لے کر "حیات جاوید” سوانح لکھی جس میں سرسید کی ہمہ جہت شخصیت کو بڑے مدلل طریقے سے پیش گیا ہے۔

حالی ان مصنفین میں سے ہیں جنھوں نے سوانح نگاری کو مقبولیت عطا کی اس سلسلے میں "حیات جاوید” ، "حیات سعدی” اور "یادگار غالب” ان کے کارنامہ ہیں ۔ حالی نے سرسید کے حالات اور ان کے کارناموں کو حیات جاوید ( 1901 ) میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔

یادگار غالب کا وصف یہ ہے کہ اس میں غالب کے مستند حالات قلمبند کیے گئے ہیں اور غالب کے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالی گئی ہے ۔ یہ ایسی سوانح عمری ہے جو اردو کے سرمائے میں ایک بیش بہا اضافہ تصور کی جاتی ہے ۔ یہ ایک جامع سوانح حیات ہے ۔ کیونکہ حالی نے غالب کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور ان کی شخصیت اور تہذیبی وادبی افکار کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ "یادگار غالب” میں حالی "حیات سعدی” کے مقابلے میں زیادہ غیر جانبدار اور بے لاگ نظر آتے ہیں۔

سرسید اور الطاف حسین حالی

1857 میں حالی کی سرسید سے ملاقات ہوئی ۔ وہ اپنے جدید خیالات ، اپنی ادبی صلاحیتوں ، قومی ہمدردی اور نئے تہذیبی تقاضوں سے آگہی کی وجہ سے ان سے قریب ہوگئے ۔ حالی نے اپنی مسدس میں ۔ قوم کی زبوں حالی ، اخلاقی انحطاط اور نئے حالات سے بے خبری کا ذکر کیا ہے اور قوم کو غیرت دلائی ہے ۔ "مسدس حالی” جسے "مد و جزر اسلام” بھی کہا جاتا ہے یہ سرسید کی فرمائش پر لکھی گئی تھی ۔ یہ حالی کا ایک یادگار کارنامہ بھی ہے ۔ حالی ایک شاعر اور نقاد ہی نہیں تھے بلکہ ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ سرسید کی صحبت میں رہ کر ایک ذہنی معمار بن گئے تھے ۔ حالی کی تحریروں میں حب الوطنی اور قومی ترقی کا جذ بہ ٹھاٹھیں مار رہا ہے ۔ انھوں نے اپنے مضامین ، قرون اولی کی حق گوئی وحق پسندی ، مسلمانوں میں مسئلہ خیرات ، بدگمانی اور "الدین یسر” وغیرہ میں مذہب کی عظمت اور اس کی اخلاقی قدر و قیمت کا احترام کرنے کی دعوت دی ہے تا کہ بہتر اجتماعی زندگی بسر ہو سکے ۔ اس کے علاوہ سرسید نے ادب کا جو تصور پیش کیا تھا اس پر حالی نے "مقدمہ شعر و شاعری” میں روشنی ڈالی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ادب میں پرکاری ، تصنع ، بناوٹ اور آرائش سے احتراز کیا جائے اور سادگی بشتگی ، فطری انداز اور سلاست کو اپنایا جاۓ تاکہ ترسیل و ابلاغ کا دائرہ وسیع تر ہو جائے۔

حالی کی نظم گوئی

حالی کی نظم نگاری ان کے طرز فکر کی ترجمان اور اردو شاعری کے سرمائے میں ایک اضافہ ہی نہیں بلکہ نئی روشنی کی آئینہ دار بھی ہے ، ان کی نظمیں لاہور کے مشاعروں میں پیش کی گئیں تو اس کی نئی آواز اور نئے امکان کا مظہر قرار دیا گیا ۔ حالی لاہور میں 1870 سے 1871 تک مقیم رہے ۔ وہ انجمن پنجاب کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مشاعروں سے بہت متاثر ہوئے ۔ وہاں عنوان تجویز کر کے نظم لکھنے کی فرمائش کی جاتی تھی ۔ وہاں حالی کو محمد حسین آزاد کا مکمل تعاون حاصل تھا ۔ حالی نے اپنی نظموں کے ذریعے اردو شاعری کو عشق و عاشقی کے روایتی اور بندھے ٹکے مضامین اور شمع و پروانہ کی داستانوں کے طلسم سے آزاد کرایا ۔ اور درد مندی ، خلوص اور بیساختگی کی اہمیت واضح کی ۔ منظر نگاری اور مظاہر قدرت کی عکاسی کو فروغ دیا ۔ "برکھا رت” حالی کی ایک مقبول ترین نظم ہے جس میں ہندستان جیسے زرعی ملک میں برسات کے موسم کو خوشیوں کا پیش خیمہ تصور کیا جاتا ہے۔ "نشاط امید” میں حالی نے امید کی ولولہ خیزی اور دلنوازی پر روشنی ڈالی ہے ۔ ناامیدی انسان کو افسردہ بے عمل اور کامل بنادیتی ہے۔

1857 کے ہنگامے کے بعد مسلمان اپنے حال اور مستقبل دونوں سے ناامید ہوچکے تھے ۔ امید واحد ذریعہ ہے جو انسان کوغم کے اندھیروں سے باہر نکالتی ہے اور قوت عمل عطا کرتی ہے ۔ حالی نے اپنی ایک مشہور نظم "حب الوطن” لکھی ۔ اس نظم میں ہندستان میں آریوں کی آمد ، رام چندر جی کے حالات اور ان کے بَن واس ، رسول اللہ کی ہجرت اور حضرت یوسف کی اپنے وطن سے جدائی دکھائی گئی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ وطن سے محبت ہر دور میں انسان کے دل میں جاگزیں رہی ہے اور اس سے وابستگی انسانیت کا شعار ہے۔

حالی نے مناظرہ رحم و انصاف ، مناظره تعصب و انصاف ، مناظره واعظ و شاعر ، دولت اور وقت کا مناظره جیسی نظمیں بھی لکھیں بھی جن کا مقصد اخلاقی اور تہذیبی پہلوؤں کو اجاگر کرنا تھا ۔ "شکوہ ہند” میں حالی نے اپنی قوم کا حال کا اس کے ماضی سے موازنہ کر کے موجودہ بدحالی اور انتشار کی طرف اشارے کیے ہیں ۔ یہ اصلاحی نظمیں تہذیبی اور تاریخی اہمیت کی حامل ہیں "مناجات بیوہ” اور "چپ کی داد” میں حالی طبقہ نسواں کے غمگسار اور ہمدرد کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ "مثنوی حقوق اولاد” میں ماں باپ کے بیچا لاڈ پیار کے مضر نتائج کی طرف توجہ ڈالتے ہیں ۔ مسدس حالی کی پیروی میں برج موہن نے ’ ’ بھارت در پن ‘ اور میتھلی شرن گیت نے ’ ’ بھارت بھارتی ‘ ‘ لکھیں ۔

اسلوب نگارش

حالی کا اسلوب سادہ ، سلیس اور رواں ہے ۔ اس میں سلاست اور بے تکلفی کے ساتھ ساتھ شافتگی اور جاذبیت موجود ہے ۔ یہ غالب سرسید کا اثر ہے جو متلون اور گنجلک عبارات اور بناوٹ وتصنع کے خلاف تھے ۔ حالی نے اپنے مضامین اپنی تنقید اور سوانح نگاری میں جو نثر پیش کی ہے وہ انھیں صاحب طرز ادیب بناتی ہے ۔ سادگی اور سلاست کے بی رنگ ان کی شاعری میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔

وفات

1904ء میں حکومت برطانیہ نے شمس العلما کا خطاب دیا ۔ یکم جنوری 1915 کو انتقال ہوا ۔

اشتراک کریں