زندگی کی گہری اور خاموش راہوں پر کچھ انسان ایسے گزرتے ہیں جو چراغ کی طرح جل کر دوسروں کو روشنی دیتے ہیں، مگر خود پس پردہ رہتے ہیں۔ نہ شہرت کی تمنا، نہ نام و نمود کی خواہش — بس خدمت، قربانی اور محبت کا سفر۔
ایسی ہی پاکیزہ شخصیت ہیں عبدالرب عرف چھیدی بن سیف اللہ بن بقریدَن بن مُلاہے بن داہا، جو اپنے ایمان، خلوص، خدمتِ خلق، اور محنت کی بدولت گاؤں اور خاندان کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہیں۔
آپ کی ولادت یکم جنوری 1936ء کو گرام پڑیا، بھارت بھاری (ضلع سدھارتھ نگر، اتر پردیش، ہندوستان) میں ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان غلامی کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا، اور دیہات میں غربت و جہالت کے بادل منڈلا رہے تھے۔
نام "چھیدی” اس وقت کی ایک عام دیہاتی رسم کی یادگار ہے۔ جب کسی کے بچے متواتر وفات پاتے تو اگلے بچے کا کان چھید دیا جاتا، تاکہ "بدروحیں” اسے نقصان نہ پہنچا سکیں۔ لیکن بعد میں اولاد نے توحید کی روشنی میں اس توہماتی پہلو کو ترک کرتے ہوئے محبت و احترام کے ساتھ آپ کا نام عبدالرب عرف چھیدی رکھا.
آپ کے والد محترم سیف اللہ رحمہ اللہ ایک نیک، زمیندار اور شریف النفس انسان تھے۔ ان کا تعلق لہچمن پور اسنہرا گاؤں سے تھا، جو اس علاقے کے معزز خانوادوں میں شمار ہوتا تھا۔ آپ کی والدہ آمنہ خاتون صوبیدار خاندان سے تھیں — باوقار اور صابرہ خاتون، جنہوں نے بیوگی کے ایام میں بھی ہمت و استقلال کا مظاہرہ کیا۔پیدائش کے چند برس بعد ہی، چیچک اور ہیضہ جیسی مہلک بیماریوں نے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسی دوران آپ کے والد محترم کا انتقال ہوگیا۔
یوں آپ نے یتیمی کی تلخ گھڑیاں بہت کم عمری میں چکھ لیں۔گھر کی ذمہ داریاں، زمین و جائیداد کی دیکھ بھال، ماں اور بہن کی کفالت — سب کچھ ایک کمسن لڑکے کے کندھوں پر آن پڑا۔ مگر اس بچے نے ہمت نہیں ہاری، اور حالات کے سامنے سینہ سپر ہوگیا۔اس زمانے میں تعلیم کے وسائل نہ ہونے کے برابر تھے، اور گھر کی ضروریات نے آپ کو تعلیم سے زیادہ عمل اور ذمہ داری کا درس دیا۔آپ نے ہل اور بیل کا سہارا لیا، کھیتوں میں پسینہ بہایا، اور دن رات کی محنت سے گھر کو سنبھالا۔ شاید یہی محنت، صبر اور توکل آگے چل کر آپ کے اخلاقی و روحانی مقام کا سبب بنے۔
باپ کے انتقال کے بعد آپ کی والدہ کی شادی آپ کے چچا عدالت صاحب سے ہوئی، جن سے ایک بیٹا رواب علی پیدا ہوا۔ عدالت صاحب بھی جلد وفات پا گئے۔ اس کے بعد والدہ، بہن متینہ خاتون، اور ماں شریک بھائی رواب علی سب کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آگئی۔آپ نے کبھی کسی کو محتاجی کا احساس نہ ہونے دیا، بلکہ دوسروں کے دکھ درد میں ہمیشہ شریک رہے۔ رشتہ داریوں کو جوڑنے میں آپ کی فطرت ایسی تھی کہ پورا گاؤں آپ کو ایک مصلح، مشیر، اور بزرگ کے طور پر دیکھتا تھا۔
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ آپ کی شادی گاؤں ندیا (ننیا) کی ایک نیک سیرت خاتون کتب النساء بنت شہادت صاحب سے ہوئی، جو اپنے خاندان کی اکلوتی بیٹی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو آٹھ نیک اولادوں سے نوازا:1. عتیق الرحمن – مقیم سورت، گجرات2. صالحہ خاتون – زوجہ امراللہ، گرام پڑیا3. عبیدالرحمن فیضی – سورت، گجرات4. عزیز الرحمن – گرام پڑیا5. فاطمہ خاتون – زوجہ علی حسین، مین بھریا (اٹوا)6. جمیلہ خاتون – زوجہ شمشاد عالم، ڈیولی (مہادیو، اٹوا)7. ڈاکٹر حفیظ الرحمن سنابلی – پرنسپل جامعہ عالیہ عربیہ، مئو8. آسماں خاتون – زوجہ محمد شاہد، پٹنہ (سمرا، اٹوا)یہ تمام اولاد آپ کی تربیت اور رہنمائی کی زندہ مثال ہیں۔ اگرچہ بیٹیوں صالحہ خاتون اور فاطمہ خاتون کو تعلیم حاصل کرنے کا زیادہ موقع نہ ملا، لیکن انہوں نے ماں اور گھر کے کاموں میں والد کا بھرپور ساتھ دیا۔آپ نے اپنی پوری زندگی کھیتی باڑی میں گزاری۔ محنت و دیانت آپ کا شعار رہا۔ کبھی سستی، کاہلی یا خود غرضی کو قریب نہ آنے دیا۔ آپ کے لیے کھیت صرف روزی کا ذریعہ نہیں بلکہ عبادت کا میدان تھا۔ آپ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے:عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھییہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری نہ ناری ہےیہی وجہ ہے کہ آپ کا گھر ہمیشہ برکت سے بھرا رہا، رزق میں وسعت رہی، اور چہرے پر ہمیشہ اطمینان کی مسکراہٹ دکھائی دیتی تھی۔عبدالرب عرف چھیدی صاحب کو اودھی زبان پر خاص قدرت حاصل ہے۔ وہ اس کے محاورات، کہاوتوں اور فقرات کے ذریعے گہری بات نہایت سادہ انداز میں سمجھا دیتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں اودھی کی مٹھاس، دیہات کی سچائی، اور تجربے کی روشنی جھلکتی ہے۔اکثر اپنے بچوں کو سمجھانے کے لیے کہتے ہیں: `”ناچے، گائے، تورے تان — دنیا رکھے اسی کی مان”` (یعنی جو خود کو ظاہر کرتا ہے، دنیا اسی کی سنتی اور اسی کی مانتی ہے۔ جو اپنی صلاحیتوں کو چھپائے رکھے، وہ گمنامی میں رہ جاتا ہے)۔ کبھی فرماتے ہیں: `”میا کی کوکھیا کوہرواں کے آواں، کوئی کالا کوئی گور — اور کہو کے کرموا میں لکھی لی فقیریا، کوئی دوڑاوے گھوڑ”`(مطلب یہ کہ سب انسان ایک ماں کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں، کوئی کالا، کوئی گورا، لیکن اصل فرق نصیب کا ہے — کسی کے مقدر میں فقیری لکھی ہے، تو کوئی آسائش میں جیتا ہے)۔ ان کے یہ فقرے صرف زبان کی چاشنی نہیں بلکہ زندگی کا فلسفہ لیے ہوتے ہیں۔ وہ واقعی اودھی زبان کے ماہر اور محاورات پر قدرت رکھنے والے فطری دانشور ہیں۔ وہ وقت کی قدر پر بہت زور دیتے ہیں۔ اور اکثر نصیحت کے انداز میں مچھلی کی کہانی اپنے بچوں کے سامنے ذکر کرتے ہیں: `”او وقت گوا وہ سمے گوا، او گوا پیا کا کہنا، اور کاوا تیرا ٹھوڑ نا ساوے، ساوے پیا کا کہنا”`(یعنی جب وقت نکل جائے، تب پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو کام اپنے وقت پر نہ کیا جائے، اس کے بعد افسوس بے معنی ہو جاتا ہے) ان کے نزدیک وقت اللہ کی سب سے قیمتی نعمت ہے۔ وہ ہمیشہ تلقین کرتے ہیں کہ سستی، تاخیر اور غفلت انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہیں۔ وقت کو غنیمت جاننا ہی کامیاب زندگی کا راز ہے — یہی ان کا عملی پیغام ہے۔عبدالرب صاحب ایک سیدھے سچے، توحید پرست اور خالص دینی مزاج رکھنے والے شخص ہیں۔ شرک و بدعات کے خلاف ہمیشہ کھڑے رہے، لیکن سختی سے نہیں بلکہ حکمت اور محبت کے ساتھ۔ ان کے نزدیک دین صرف مسجد تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر گوشے میں شامل ہے. کھیتوں کی صفائی ہو یا رشتہ داریوں کی درستی، دین ان کی زندگی کا مرکز رہا۔وہ ہمیشہ علماء کی عزت کرتے، ان کے لیے بیٹھک سجاتے، ان کی ضیافت کرتے، اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد بھی کرتے۔ علم اور اہل علم کی بہت قدر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پچاسوں سال کی دوستی مولانا ضامن علی صاحب سے اب تک قائم ہے۔ان کے علاوہ آپ کے قریبی تعلق رکھنے والے علماء میں شامل ہیں: مولانا ابرار وسیم سلفی (صدر مدرس مدرسہ بحرالعلوم، پڑیا)، مولانا عبدالمعبود سلفی (مدرس جامعہ اسلامیہ خیرالعلوم)، اور نوجوان داعی و خطیب مولانا عبدالمبین سلفی (امام و خطیب جامع مسجد کھرگولہ و مدرس صفا شریعت کالج)۔آپ علماء کرام کے ساتھ رہتے تو تعلیم و تعلم، مسئلہ مسائل، نوجوانوں کی بے راہ روی، اور معاشرتی اصلاح جیسے موضوعات پر گفتگو فرماتے۔موجودہ ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے اور اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ گاؤں کی خوشحالی، نظم و ضبط، اور سماجی ترقی کے لیے علماء کے ساتھ مشورہ و تبادلۂ خیال کرتے رہتے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے علماء کرام سے آپ کے روابط اور محبت کا سلسلہ قائم ہے، جو آج بھی قائم و دائم ہے۔آپ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ میرے گاؤں کے بچے علم و دین دونوں میں آگے رہیں۔سادگی آپ کا زیور تھی، قناعت آپ کا سرمایہ۔ آپ نے کبھی شکایت کو زبان پر نہیں آنے دیا۔ گاؤں کے جھگڑوں میں ہمیشہ صلح کی بات کرتے، کبھی کسی کے خلاف دل میں بغض نہیں رکھا۔ آپ کی گفتار میں نرمی، آنکھوں میں شفقت، اور چہرے پر نورانیت صاف جھلکتی ہے۔ آپ گاؤں کے لیے ایک بزرگ، محسن، اور رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو طویل عمر عطا فرمائی ہے۔ عمر کے اس حصے میں جسم کمزور ضرور ہوگیا ہے، مگر دل ابھی بھی زندہ اور بیدار ہے۔آج بھی جب کوئی کام ہوتا ہے تو آپ مشورہ دیتے ہیں، نصیحت کرتے ہیں، اور سب کو دعا دیتے ہیں۔ آپ کا وجود آج بھی خاندان اور گاؤں کے لیے برکت کا سبب ہے۔عبدالرب عرف چھیدی کی زندگی ایک مثالی دیہاتی مسلمان کی کہانی ہے جو خاموشی سے جیتا ہے، مگر اپنی سیرت سے آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ چھوڑ جاتا ہے۔ نہ نام کی خواہش، نہ دنیا کی چاہ, بس خدمت، دعا، اور اللہ کی رضا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے: اَللّٰهُمَّ أَطِلْ عُمُرَهُ فِي طَاعَتِكَ، وَاخْتِمْ لَهُ بِالْخَيْرِ، وَاجْعَلْ حَيَاتَهُ بَرَكَةً لِلنَّاسِ، وَذُرِّيَّتِه صَالِحَةً نَافِعَةً۔ آمين۔







