رشید احمد صدیقی کی مزاح نگاری : تنقیدی مطالعہ

طنز و مزاح کیا ہے؟

ایسی تحریر جو ایک انسان کو ہنسنے پر مجبور کر دے اسے مزاح کہتے ہیں اور اگر اسی تحریر میں تنقید کو مَزاح کا جامہ پہنا دیا جائے لیکن اس کے باوجود بھی قاری مسکرانے پر مجبور ہوجائے تو اسے طنز کہیں گے ۔ اردو ادب میں عموماً یہ دونوں الفاظ ہم معنی سمجھے جاتے ہیں اور ایک ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں، حالانکہ طنز اور مَزاح میں فرق ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں، لیکن اس کے باوجود طنز اور مزاح اکثر ایک دوسرے کے متوازی بھی استعمال ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی سرحدیں ایک دوسرے سے ایسے ملی ہوتی ہیں کہ ان کو الگ کرنا بہت ہی مشکل اور دشوار ہو جاتا ہے۔ طنز سے مراد طعنہ، ٹھٹھہ، تمسخر یا رمز کے ساتھ بات کرنا ہے، جب کہ مَزاح سے خوش طبعی، مذاق یا ظرافت مراد لیا جاتا ہے۔

ادیب کا تعارف

مزاح نگاری فنونِ لطیفہ کی ایک مشہور و معروف صنف ہے۔ اردو ادب کے مزاح نگاروں کی ایک لمبی فہرست ان  میں ایک مشہور نام رشید احمد صدیقی کا بھی ہے۔ رشید احمد صدیقی 25 دسمبر 1894 کو صوبہ اتر پردیش کے ضلع جونپور کے ایک گاؤں مڑیا میں پیدا ہوئے۔ رشید بچپن سے ہی بیمار رہا کرتے تھے اس لئے ان کی ابتدائی تعلیم پر کم توجہ دی گئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر یعنی ان کے آبائی وطن جونپور میں مکمل ہوئی اس کے بعد اعلی تعلیم کے حصول کے لئے علی گڑھ کا رخ کیا، مالی حالت بہت کمزور تھی اس لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ کچہری میں ملازمت کرلی۔ فارسی زبان و ادب سے ایم اے مکمل کیا۔ رشید کو سیاست سے دور کا واسطہ نہیں تھا البتہ تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں میں شامل ضرور رہے، اپنی طالب علمی کے زمانے میں وہ انجمن طلبہ کے معتمد رہے، زمانہ طالب علمی سے ہی آپ لکھنے لگے تھے اور طنز و مزاح کو اپنا میدان خاص بنایا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے مکاتیب بھی اس رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں، آپ کے مزاحیہ مضامین کو کافی شہرت حاصل ہوئی، لوگوں بہت پسند کیا۔

رشید احمد صاحب نے اپنے مضامین میں طنز و ظرافت کا پیرایہ اختیار کیا اور نصف صدی تک اس میدان کے نمایاں شہ سوار بنے رہے، ان کی شخصیت کا جو پہلو بہت نمایاں معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ رشید صاحب اپنی شوخ طبیعت کے باوجود بے حد سنجیدہ انسان تھے۔

اسلوبِ نگارش : خوبیاں و خامیاں

اُردو نثر کے اسلوبی ارتقاء میں رشید احمد صدیقی کے اسلوب کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے اسلوب نے اُردو نثر کو نئی آب وتاب اور نیا رنگ و آہنگ عطا کیا، بالخصوص طنز و مزاح کا جو اسلوب اختیار کیا وہ اپنی فکری بصیرت اور فنی بصیرت کے اعتبار سے غیر معمولی ہے۔

رشید احمد صدیقی کے طنز و مزاحیہ اسلوب میں پیرایہ اظہار کی جتنی جدت وندرت موجود ہے ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے، لفظوں کا مزاج و آہنگ ، جملوں کی ترتیب و ساخت اور بیان و بدیع کی صنعتوں کے افکارانہ استعمال سے اپنے اسلوب کو جیسی طرفگی اور نیرگی بخشتے ہیں طنز ومزاح میں اسالیب شاذ ہی ملتی ہے۔ رشید احمد صدیقی کے اسلوب کی عظمت اور وقار و تمکنت مسلم ہے۔

رشید احمد صدیقی کی انشاپردازی کے ان گنت اور بے شمار مضامین سامنے آچکے ہیں طنزیہ و مزاحیہ مضامین میں ان کے دو مجموعے ہیں پہلے مجموعے کا نام "مضامین رشید” اور دوسرے کا نام ” ہے خنداں”۔ ویسے ان کے دیگر مضامین مین اور دیگر تحریروں یہاں تک کہ خطوط میں بھی طنز و مزاح کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ "مضامین رشید” میں رشید صدیقی کے طنز و مزاح کی تخلیقی اور فطری صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے :مضامینِ رشید” ان کا سب سے اہم کارنامہ ہے، بلکہ آج تک طنزیہ و مزاحیہ ادب اپنی جگہ اس کی اہمیت مسلم ہے۔ دوسرا مجموعہ "خنداں” ان کے ریڈیائی مضامین کا مجموعہ ہے۔ جو مختلف مواقع پر ریڈیو اسٹیشن سے پیش کئے گئے تھے۔ "خنداں” کا نمایاں وصف اس کے مضامین کا تنوع ہے، اس سے رشید کے ذہن کی تیزی زمانے اور زندگی کے مطالعے کی گہرائی کا علم اور اور زبان و بیان پر عبوریت کا اندازہ ہوتا ہے۔ خنداں میں مضامین رشید کے مقابلے طنز و مزاح کے عناصر کچھ کم ہیں۔ ان کے یہاں فن کی جو خامیاں ہیں وہ "خنداں” میں ابھر آئی ہیں۔ جیسے نفسِ مضمون سے ہٹ جانے کی عادت، مضامین میں پھیکاپن اور ابہام، بے لطف تکرار، غیر ضروری طوالت اور بے معنی مباحث۔ خنداں کے مضامین میں پائی جانے والی ان خامیوں کی ایک وجہ ہے وہ یہ کہ اس کے مضامین زیادہ تر ٹرین میں علی گڑھ سے دہلی جاتے ہوئے لکھے گئے ہیں۔ اس ڈھائی تین گھنٹے کے سفر میں غور فکر کا مطلوبہ موقع نہیں مل سکا۔ اور دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ریڈیو اسٹیشن سے ملے ہوئے عنوان میں محصور و مقید ہوکر ہی انہیں لکھنا ہوتا تھا۔ اس لئے ان مضامین آمد کا فقدان نظر آتا ہے۔ فرمائشی مضامین ہونے کی وجہ سے ان مضامین میں ان کے اور مضامین جیسا لب لہجہ نہیں ملتا۔ بلکہ ان میں خطابت کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ سلسلہ طویل ہوتا جاتا ہے اور بات سے بات نکلتی ہے جب کہ بات کچھ نہیں ہوتی۔ اس کی مثال دیکھیں:

جوانی میں آدمی باغ نہیں لگاتا، باغ میں گناہ کرتا ہے، بڑھاپے میں باغ کی ہوا کھاتا ہے اور توبہ استغفار کرتا ہے لیکن آپ گھبرائیں نہیں میں آپ کو اس قسم کے باغیوں کی سیر کرانا نہیں چاہتا۔ یہ تو میرے بہکنے کی عادت ہے جس کا موقع ریڈیو سے بڑھ کر کہیں اور نہیں ملتا۔ (خنداں ص85)

تصانیف

رشید احمد صدیقی کی مشہور تصانیف می درج ذیل کتابیں خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذكر ہیں

  1. آشفتہ بیانی میری،
  2. علی گڑھ کی مسجد قرطبہ،
  3. علی گڑھ کا ماضی و حال،
  4. عزیزانِ ندوہ کے نام،
  5. گنجہائے گرانمایہ،
  6. غالب کی شخصیت اور شاعری،
  7. ہم نفسان رفتہ
  8. ،ہمارے ذاکرصاحب،
  9. اقبال شخصیت اور شاعری،
  10. جدید غزل،
  11. مضامینِ رشيد
  12. خنداں
  13. طنزیات و مضحکات

وفات

رشید احمد صدیقی ۱۵ جنوری ۱۹۷۷ کو اس جہاں فانی سےکوچ کر گئے۔ آپ نے ۸٦ برس کی عمر پائی۔

 

اشتراک کریں