ایک مسلمان کاا بحیثیت مسلمان اس بات پر پختہ اعتقاد اور یقین ہونا از بس ضروری ہے کہ ترقی اور کامیابی کا ضامن اگر کوئی اصول اور دستور ہوسکتا ہے تو وہ صرف اسلام کا اصول اور قانون ہے، اس سے ہٹ کر اگر کوئی اس بات کا کا خواہاں ہے کہ وہ وہ صرف اس دنیا میں چین و سکون کی کی حقیقی زندگی بسر کر لے تو یہ محض نا ممکن ہی نہیں بلکہ امرٍ محال ہے، آخرت کی کامیابی و کامرانی تو دور کی بات ہے
دور حاضر کے مسلم سماج اور معاشرے کو جانے کس کی نظرٍ بد لگ گئی کہ اسلام کو کو پرے ڈال کر غیروں کی اندھی تقلید اور تشبہ کو ہی اپنی کامیابی کا ضامن تصور کرتا ہے، اسلام اور اسلامی تعلیمات سے حد درجہ لا تعلقی کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ اسلام احکام و فرائض سے کوتاہی اور اس کی ادائیگی میں سستی اور کسل مندی کا مرتکب ہو رہا ہے بلکہ دینِ اسلام کے تعلق سے اس کی معلومات بھی حد درجہ ناقص اور بعض اوقات انتہائی غلط اور اسلام مخالف ہیں
اسلام کیا ہے؟ اس کے ارکان کون کون سے ہیں؟ قرآن کا مقام ومرتبہ کیا؟ ہے اور اسی طرح رسول کی حیثیت کیا ہے؟ یہاں تک کہ کلمہ شہادت جو کہ دین اسلام کا گیٹ ہے اس کے اقرار کے بغیر کوئی اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا وہ بھی ٹھیک طرح سے حفظ نہیں ہے تو اس کا مطلب و مفہوم کی تفہیم کا کیا سوال!
یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں بلکہ امر واقعی ہے راقم السطور کا واسطہ پڑا ایک ایسے نوجوان سے جس نے کچھ ایسا سوال کر ڈالا جسے سن کر کلیجہ منہ کو آگیا۔۔۔ اس نے پوچھا۔۔۔۔۔
"محمد صاحب وہی تھے نہ جنہوں نے قرآن لکھا تھا؟”
جی ہاں یہاں یہ سوال اور استفسار ہے اس نوجوان کی طرف سے جو مسلمان ہے ، مسلمان گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور مسلم گھرانے کا چشم و چراغ ہے
یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے ملتے جلتے اور بہت سے واقعات ہیں جو آئے دن روشنی میں آتے رہتے ہیں۔
یہ تو رہا ایک نوجوان کا واقعہ تراویح کے تعلق سے ایک باریش بزرگوار کا تاثر بھی سن لیں۔ وہ صاحب فرمانے لگے کہ تراویح وغیرہ ان لوگوں کا کام ہے جو آزاد قسم کے لوگ ہیں اپنے کندھے پر کھانے کھلانے کا بوجھ نہ رکھتے ہوں۔ ذمہ دار افراد کے لئے فرض نماز ہی کافی ہے
یہ ہے مسلم سماج کی افراد کی دینی بیداری کی ایک جھلک۔
جب اسلام کی بنیادی تعلیمات سے اس قدر ناواقفیت ہو تو اہل اسلام اور ان کی تاریخ تک کہاں رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔ کرکٹ اسٹار اور فلم سٹار کے نام تو سورہ فاتحہ کی طرح از پر ہیں۔ ( سورہ فاتحہ ٹھیک طریقے سے یاد ہے یا نہیں یہ الگ مسئلہ ہے) مگر صحابہ کرام کی اسمائے مکرمہ جن کی بے پناہ قربانیوں کے سبب اسلام ہم تک پہنچ سکا ان سے چند افراد بعد با خبر ہوں تو ہوں مگر اکثریت ان سے بے خبر ہے ، کتنے ہی افراد ایسے ہوں گے جنہیں یہ بھی پتہ نہیں ہو گا کہ نہیں کہ ہمارا ایک شاندار ماضی رہا ہے ۔ماضی کو یاد کر کے خوش ہو جانا اور محض خراج عقیدت پیش کر لینا اگرچہ کہ ترقی یافتہ قوموں کا شیوہ نہیں ہے (جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے) تو یہ بات بھی مسلم ہے کہ ماضی کو بھول کر بھی ہم سرخرو نہیں ہو سکتے جیسا کہ ایک دانشور کا خیال ہے
"جو قوم شاندار ماضی رکھنے کے باوجود اپنے ماضی سے بے خبر رہتی ہے اس کا کوئی حال نہیں ہوتا اور جو قوم اپنے خصائص و فضائل سے بیگانہ رہے اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا”
ہونا یہ چاہیے تھا کہ شاندار ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ذات کا محاسبہ کیا جاتا، اپنیے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر ان کی روشن زندگیوں سے سبق حاصل کیا جاتا لیکن یہ کیا ہوا ؟ اس کی توفیق تو نہ ہو سکی الٹے اسلام اور اسلامی تعلیمات سے ہی برگشتگی کا اظہار ہونے لگا اور نوبت بایں جا رسید کہ اس کی بنیادی تعلیمات کا علم ہی رخصت ہو چلا
سوال یہ ہے کہ اس منفی رجحان کا ذمہ دار کون ہے؟ آخر کیوں موجودہ نسل دین سے اس قدر لاتعلق ہے؟ اس کے اندر غلط نظریات اور منفی افکار کے پروان چڑھنے کے اسباب کیا ہیں؟ اس میں کوتاہی کی ہیں اور کہاں تک ہے؟ سمجھنے کی ضرورت ہے
موجودہ ریسرچ بتلاتی ہے کہ مسلم قوم کے ستر فیصد افراد نے کسی مدرسے یا اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا، غور طلب ہے کہ جس قوم کے ستر فیصد افراد ان پڑھ اور علم سے کورے ہوں تو اس قوم کی فکری سطح کیا ہو سکتی ہے؟ نیز اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا ؟
عصری تعلیم کا حصول جو کی موجودہ دور کی لازمی ضرورت ہے اور جس کے بغیر دنیاوی اور مادی ترقی محض خواب ہے اگر اس کی استطاعت نہیں تو کم از کم مدارس و جامعات کی مفت یا معمولی خرچ کی تعلیم کے حصول کیا میں کیا رکاوٹ ہے؟ اس تعلیم کے حصول سے اقتصادی اور مادی فائدے کا وعدہ نہ سہی، ایک سچا اور بااخلاق مسلمان بن کر زندگی تو گزاری جا سکتی ہے. ایک آدمی سچا اور پکا مسلمان بن کر زندگی بسر کر اس سے بھی بڑی کوئی دولت ہو سکتی ہے؟ مفت پڑیں اتنی عظیم نعمت بھی اگر کوئی حاصل نہ کر سکے تو اس سے بڑھ کر بد بختی اور کیا ہو سکتی ہے
منصفانہ نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو معاشرے کو دین سے برگشتہ کرنے میں جہاں اور بہت سے عوامل کار فرما ہیں وہیں اس کی ایک کڑی اس ایک اکائی سے بھی جا ملتی ہے جس سے ایک فرد کا پہلا مکتب اور فرسٹ اسکول کہا جاتا ہے، یعنی والدین۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کوتاہی کی ابتدا ہی ہیں سے ہے، اکثر والدین اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے تعلق سے غیر سنجیدہ ہیں، اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرد اولاد کی تربیت اور اصلاح کی پوری ذمہ داری عورت کے سر ڈال کر خود ہر قسم کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتا ہے ، اگر بہت زیادہ کوئی احسان کرتا ہے تو صرف معاشی ذمہ داری اپنے سر لے لیتا ہے، بسا اوقات بعض حضرات سے یہ بھی ممکن نہیں ہوتا۔ جبکہ مرد اور عورت کی حیثیت چکی کے دو پاٹ کی سی ہے جس کے ایک حصے سے کچھ فائدہ نہیں جب تک کہ دونوں ایک دوسرے کا تعاون نہ کریں، اسی طرح اولاد کی تربیت اور نگہداشت کے تعلق سے اگر دونوں سنجیدہ نہ ہوں تو اس کا خاطر خواہ فائدہ سامنے نہیں آ سکتا، اولاد کی صحیح تربیت کے لئے اول خود کو اخلاقی پیرائے میں ڈھالنا ہو گا۔ اس سلسلے میں خود کو اسلامی تعلیمات کا پابند بنانا لازمی امر ہے، جب کہ ہوتا یہ ہے کہ والدین خود اخلاقی حدود سے اس قدر متجاوز ہوتے ہیں کہ آپس میں تکرار لڑائی جھگڑے نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے، جس کا پورا پورا اثر اولاد کی ذہنیت اور اس کے روحانی نشوونما پر پڑتا ہے، نتیجے کے طور پر اولاد کے اندر بھی بدتمیزی، ہٹ ڈھڑمی اور بد زبانی جیسی بری عادتیں پروان چڑھنی شروع ہو جاتی ہیں، اس پر مزید معاشرے میں غلط افراد کی سنگت جلتے پر تیل کا کام کرتی ہے
معاشرے پر نظر دوڑائی جائے تو جائے تو ایسے بہت سے بچے مل جائیں گے جو والدین کی کوتاہی کے سبب غلط ہاتھوں میں پڑھ کر اپنی زندگیاں پر باد کرتے نظر آ رہے ہیں یہی بچے بڑے ہو کر قوم و ملت کے خیرخواہ اور ہمدرد بننے کے بجائے معاشرے پر بوجھ بنتے ہیں اور کوئی بھی شنیع اور قبیح حرکت ان کے پاس گناہ اور جرم نہیں رہ جاتی، نیز طرح طرح کے خرافات و جرائم کا ذریعہ بنتے ہیں
یہ تو رہا تربیت کے سلسلے میں والدین کی روش کا نتیجہ، تعلیم کے سلسلے میں ان کا کیا رویہ ہے اس تعلق سے زیادہ کچھ نہ کہتے ہوئے یے ملت ایجوکیشنل ٹرسٹ بنگلور کے چیئرمین جناب فیاض قریشی صاحب کے ایک مضمون کا اقتباس نقل کر دینا ہی کافی ہے، موصوف لکھتے ہیں
"مسلمان تعلیم سے کس قدر محبت رکھتے ہیں اور اس کے لیے کتنی قربانیاں دیتے ہیں ملت کی یہ کہانی ہر باشعور مسلمان جانتا ہے مسلم والدین کی اکثریت آج یہ سوچتی ہے یہ بچہ پڑھ لکھ کر کیا کرے؟ گا اگر لکھ پڑھ لے تو اسے نوکری کہاں سے ملے گی؟ اور بعض والدین اپنے بچوں کو اسکول یا مدرسہ اس لیے بھیجتے ہیں کیونکہ ان کی شرارت کو اپنے گھروں کے اندر برداشت نہیں کر پاتے”
آگے لکھتے ہیں
"بیشتر ان پڑھ اور غریب اور والدین جن کے پاس علم کی کوئی اہمیت نہیں ہے اول تو اسکول میں اپنے بچوں کا داخلہ کراتے ہی نہیں اگر دیکھا دیکھی نیم دلی کے ساتھ داخلہ کرا بھی دیا تو اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب ان کے بچے اسکول سے بیزار ہوجائیں اور وہ کب انہیں مزدوری پر لگا دیں”
یہ ہے والدین اور سرپرستوں کا اپنے بچوں کی تعلیم کے تعلق سے رویہ، ان حضرات کا یہ طرز عمل معصوم بچوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ نہیں تو اور کیا ہے؟ نہ اولاد کی اخلاقی تربیت کا احساس اور نہ ہی تعلیم ہی کی طرف کوئی توجہ پھر بھی یہ شکوہ کہ اولاد سعادتمند، فرماں بردار اور نیک سیرت نہیں ،
اگر ابتدا ہی سے اولاد کی اخلاقی تربیت کی جاتی ان کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا جاتا تو اس خطرناک صورتحال کی نوبت ہی نہ آتی، قبل اس کے کہ موجودہ نسل دینی اور تعلیمی اعتبار سے مزید انحطاط اور پستی کی راہ اختیار کرے قوم کے قوم کے با اثر حضرات کو ان کی اصلاح کے لئے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، جس طرح کالج اور یونیورسٹی کے طلباء کے لئے ہفت روزہ یا پندرہ روزہ اسلامی تربیتی کورس چلائے جا رہے ہیں مزید اس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے سماج کے ان پڑھ اور ناخواندہ حضرات کے لیے بھی اسی نوعیت کے کورسس کے ترتیب کی ضرورت ہے تاکہ یہ طبقہ بھی دین سے قریب ہو اور اپنے اندر سے ہر قسم کے غلط افکار و باطل تصورات کو ذہن سے کھرچ کر صحیح اسلامی زندگی گزار سکے
کاش ملت کے افراد اس بات کو سمجھتے !