سریندر پرکاش اردو افسانہ نگاروں کی صفوں میں ایک نمایاں اور منفرد شخصیت کے حامل ہیں۔ سریندر پرکاش کے افسانوں کا تخلیقی دور کی بات کریں تو یہ وہ دور تھا جب ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔ لہذا اس کے اثرات ان کے افسانوں پر بھی پڑ رہے تھے لیکن انھوں نے اپنے لئے ایک نئی راہ منتخب کی اور نئی طرزِ تحریر کو اختیار کیا۔ ان کے افسانوں پر دوسرا اثر پڑا تقسیم ہند کا، انھوں نے ملک کی تقسیم کا درد محسوس کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں ملک کے بٹوارے کا کرب اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات کی منظر کشی ملتی ہے۔ آئیے اس بات کو ان کے افسانہ "بجوکا” کے مطالعے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
سریندر پرکاش نے اپنے افسانے "بجوکا” کی کہانی کا آغاز ‘ پریم چند’ کے ناول کے کردار ‘ہوری’ سے کیا ہے۔ ہوری پریم چند کے ناول میں سالوں پہلے مرچکا تھا۔ اس افسانے میں کہانی پھر سے اسی کردار کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ اس افسانے کی رو سے ہوری کے دو بیٹوں میں سے ایک گنگا میں نہاتے ہوئے ڈوب کر حال بحق ہو چکا تھا جبکہ دوسرا پولیس کے مقابلے میں مارا گیا۔اب ہوری ان دونوں بیٹوں کی بیویوں اور پانچ بچوں کے ساتھ گزر بسر کر رہا تھا
ہوری کا کردار اس افسانے میں بھی ایک کسان کے روپ میں ہے۔ اس کی فصل پک کر تیار ہو چکی تھی۔ آج اسے اپنی بہوؤں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ مل کر اس فصل کی کٹائی کے لیے جانا ہے۔ آج چونکہ فصل کی کٹائی کا دن تھا اور یہ دن کسی تہوار سے کم نہ تھا۔اس وجہ سے تمام گاؤں میں خوب چہل پہل کا سماں تھا۔ سب خوشی خوشی اپنی فصلوں کی کٹائی میں مصروف تھے۔ ہوری فصل کی کٹائی کے لئے جاتے وقت یہ سوچ رہا تھا کہ کتنا اچھا وقت آگیا ہے۔ ساری فصل پر صرف اسی کا حق ہے نہ کسی بنیے کا ڈر، نہ زمیندار اور نہ ہی انگریز کی زور زبردستی ہے۔
یہ خیال آتے ہی اس کی فصل کے ہرے بھرے خوشے اس کی نظروں کے سامنے جھوم اٹھے۔اپنے کھیت کے قریب پہنچتے پہنچتے ہوری نے کھیت سے فاصلے پر موجود تھل کو دیکھا جو رفتہ رفتہ ہوری کے کھیت کو نکلنے کے لئے بڑ ھ رہا تھا۔تھل کی وجہ سے کھیت کی مٹی بھربھری ہوجاتی اور وہ فصل اگانے کے قابل نہ رہتا تھا۔ اس لیے ہوری دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ بچوں کے جوان ہونے تک یہ تھل اس کے کھیت تک نہ پہنچے۔
اسی اثنا میں وہ کھیت تک پہنچ گئے سب دل ہی دل میں فصل کی کٹائی سے بہت خوش تھے کہ اب گھر کی کوٹھری میں اناج بھرے گا اور سب مزے سے پیٹ بھر کر کھائیں گے۔ مگر کھیت میں داخل ہوتے ہی اچانک ہوری کے قدم رک گئے۔ سب حیرانی میں مبتلا ہوگئے کیوں کہ پکی ہوئی فصل میں بے چینی کے آثار تھے اور فصل کے کٹنے کی آواز مسلسل آرہی تھی۔ ہوری نے کون ہے کی صدائیں بلند کی تو اچانک فصل کاٹنے والا نمودار ہوا۔
سب کو یہ دیکھ کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہوری کے ہاتھوں کا بنایا ہوا ‘بجوکا’ تھا ۔یہ دیکھ کر سب سکتے میں آ گئے۔ ہوری نے اپنے ہاتھ سے بنائے گئے بانس کی پھانکوں کے بجوکا سے پوچھا کہ وہ اس کی فصل کیوں کاٹ رہا ہےاور اس کے ہاتھ میں موجود درانتی کہاں سے آئی۔ بجوکا کہنے لگا کہ اس نے تو صرف اپنے حصے کی فصل کاٹی ہے اور تیار فصل میں ایک چوتھائی اس کا حصہ ہے کیوں کہ اس نے اس کھیت کی حفاظت کی ہے۔
بجوکا نے کہا کہ وہ کھیت پکنے تک یہاں کھڑا رہا اور ہوری کی امانت میں اس نے کوئی خیانت نہیں کی۔ آج اگر اس نے اپنا حصہ لیا ہے تو اس میں مسئلے کی کیا بات ہے۔ ہوری یہ ناانصافی دیکھ کر بجوکا کو پنجائیت لے جاتا ہے۔پنجایت میں تمام لوگ موجود تھے جب بجوکا کی پنجائیت میں آمد ہوئی تو ہوری یہ تماشہ دیکھ کر تڑپ اٹھا کہ سب لوگ احتراماً بجوکا کی آمد پر اٹھ کھڑے ہوئے۔ بجوکا نے پنجائیت کا انصاف بھی خرید لیا تھا۔
پنجائیت کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ہوری نے بجوکا کو فصل کا ایک چوتھائی حصہ دے دیا۔ اس تمام واقعے کے بعد ہوری نے اپنے بچوں کو وصیت کی کہ آئندہ کبھی اپنی فصل کی حفاظت کے لئے بجوکا نہ رکھیں بلکہ اگر وہ مر جائے تو اس کی لاش کو کھیت میں باندھ دیں کیوں کہ بجوکا آخر میں فصل میں حصے دار بن جاتا ہے۔یہ کہہ کر ہوری جیسے ہی کھیت کے قریب پہنچا تو وہیں گر کر ختم ہوگیا۔ اس کے پوتے پوتیاں اسے بانس پر باندھنے لگے۔ مصنف نے نہایت خوبصورتی سے اس مختصر افسانے میں بجوکا کو ایک علامت کے طور پر پیش کرکے اپنی املاک کے تحفظ کی اہمیت کو باور کروایا ہے کہ اگر ان کی حفاظت کسی کو سونپی جائے تو اکثر بے جان قوتیں بھی جان دار بن کر حق مانگنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔
"بجوکا” عہد حاضر کے سیاسی اور معاشی نظام پر ایک طنز اور عدم اطمینان کا اظہار ہے۔ مصنف کے شعور پنپا ہوا استحصال کا ایک جدید طرز ہے۔ جس کا خدشہ بجو کا کے وجود سے درانتی نکلنے کے عمل میں دیکھا جا سکتا ہے ۔بجوکا ظاہر میں بانس لکڑی گھاس پھونس سے تیار کیا گیا ایک بے جان ڈمی آدمی جیسا دیکھنے والا ڈھانچہ ہے۔ اس ڈھانچے کو انسانی شکل دینے کے لیے اس پر ہانڈی الٹ کر رکھ دیا جاتا ہے ۔آنکھ ناک کان بنا دیے جاتے ہیں اور اس پر انسانی مکھوٹا چڑھا، پرانے کپڑے پہنا کر کسان اپنے کھیت میں کھڑا کر دیتا ہے ۔وہ بجوکا کھیت میں فصلوں پر نگراں ہے تاکہ چرند پرند فصلوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔
بجوکا مصنف کی بنائی تصویر۔ ایک چوتھائی کھیت کاٹنے کا عمل، اس کے وجود سے درانتی نکلنے پھر اس کے ہاتھ در انتی لگنے کا واقعہ۔ ہوری سے اپنی محنتا نہ وصول کرنے کے لئے دلیل ، پنچایت کا اس کے حق میں فیصلہ اور چوپال کا بجوکا کے سامنے تعظیما سر جھکا لینے کا عمل میں بجوکا کسی نہ کسی زاویے سے موجودہ جمہوری نظام کا ڈھانچہ لگتا ہے یا جمہوری نظام کی نافذ کردہ قانون کی ایک شقی یا معاشی استحصال کا ایک نیا ٹولز ہے ۔