مالک مرے عطا کر مجھ کو وہ زندگانی
مسرور جس میں دل ہو،چہرے پہ شادمانی
رنج والم سے کٹ کر تاروں کی انجمن میں
چمکوں میں مثل انجم، وہ رات دے سہانی
یہ کائنات ارضی، محو ثنا ہے یارب
سب کی زباں پہ یارب، ترا ذکر جاودانی
ادراک کر نہ پائیں، آنکھیں کسی کی تیرا
فرمان تیرا شاہد ہے صاف "لن ترانی "
رحمت کی تیرے مولا، ہے انتہا ٕ نہ کوئی
پھیلی ہوئی ہے ہر سو، یارب تری نشانی
ماحول ہے مکدر، شادابیاں ہیں عنقا
فطرت کو دھلنے والا نازل تو کردے پانی
حرکت سے باز رہ کے ہو جائیں گے فنا سب
یہ کہہ رہی مسلسل دریاؤں کی روانی
ہم بھول جائیں جس سے ماضی کی تلخیوں کو
رحمت سے اپنی سب کو دے دے وہ کامرانی
چڑیاں چہک چہک کر پیغام دے رہی ہیں
انسان تو بھی کرلے یہ ذکر پھر زبانی
ہر چیز کو فنا ہے ہر شے ہے آنی جانی
قاٸم ازل سے تو ہے تری ذات جاودانی