امیر خسرو دہلوی : حیات و خدمات

تعارف امیر خسرو

ہندوستان میں فارسی زبان وادب کو وقار بخشنے والوں میں امیرخسرو کا نام سرفہرست ہے، ان کا تعلق ترک کےایک قبیلہ "ہزارۂ لاچیں” سے تھا، ان کے آباء واجداد تاتاری فتنوں اور چنگیزی حملوں سے پریشان ہوکرماوراء النہر‘ سے ہجرت کرکے تیرھویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں آکر آگرہ میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ یہیں پر ان کی پیدائش 1253ء میں ایک ہندوستانی خاتون کے بطن سے ہوئی،

حضرت امیر خسرو کے والد کا نام امیر سیف الدین محمود تھا جو بہت بڑے جنگجو تھے۔  خسرو ابھی آٹھ سال کی عمر کو پہونچے تھے کہ  والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، کچھ عرصہ بعد یہ خاندان آگرہ سے دہلی منتقل ہو گیا۔

خسرو نے سلطنت دہلی یعنی خاندان غلامان، خلجی اورتغلق کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا اور برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں حصہ لیا اور سرگرم رہے۔

فنِ موسیقی سے شغف

خسرو خداداد ذہانت کے مالک تھے، بیس سال کی عمر میں ہی درسیات سے فراغت حاصل کر لی تھی۔ شاعری ان کا خاص میدان تھا لیکن صرف وہ شاعر نہ تھے بلکہ کئی علوم و فنون میں یکتائے روزگار تھے۔ ایسے ہی فنِ موسیقی انہیں خاص لگاؤ تھا، موسیقی میں انھیں اس قدر مہارت حاصل تھی کہ اُس زمانے کے اُستاد بھی انھیں اپنا استاد مانتے تھے۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قوالی اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی یعنی ایک طرح کا راگ جسے ایمن کلیان یا یمن کلیان کہا جاتا ہے اور جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انھیں کی ایجاد ہے۔  مشہور ہندوستانی ساز ستار کے موجد وہی تھے۔ یہ روایت اس لحاظ سے قرین قیاس بھی معلوم ہوتی ہے کہ خسرو کا زمانہ ہندوستانی اور ایرانی تہذیب کے باہمی اختلاط کا زمانہ تھا۔  حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید تھے۔ انہیں کے قدموں میں دفن ہوئے۔ عوام میں ان کی مقبولیت انہیں کے نسبت سے ہے۔

خسرو کی شاعری

امیر خسرو کا زیادہ تر کلام فارسی زبان میں ہے لیکن انھیں ترکی ، عربی، ہندی، سنسکرت اور ہندوستان کی اور کئی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ فارسی زبان کے ساتھ ساتھ انہوں اردو زبان کو بھی اپنی شاعری کے لئے ایک وسیلہ اظہار بنایا تھا، دنیا میں اردو کا پہلا شعر حضرت امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے۔ اردو کی اصناف شاعری میں اردو دوہے، پہیلیاں،  گیت وغیرہ کو اپنا میدان بنایا تھا، اس سلسلے میں اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام نمایاں ہے۔
امیر خسرو کے اردو دوہے کی چند مثالیں:

خسرو دریا پریم کا، اُلٹی وا کی دھار
جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار

سیج وُہ سونی دیکھ کے رووُوں میں دن رین
پیا پیا میں کرت پہروں، پل بھر سکھ نا چین

اب رہی بات فارسی زبان کی تو انہوں نے سبھی اصنافِ شاعری مثلاً  مثنوی، قصیدہ، غزل وغیرہ میں خوب طبع آزمائی کی۔ خسرو کی منفرد ذات ہے جن کے شاعرانہ کمالات کا لوہا ایران کے ہر دور کے شاعروں نے مانا ہے۔ اور انھیں’ طوطئ ہند‘ کے خطاب سے بھی نوازا ہے۔ غزل میں انہوں نے پانچ دیوان بطورِ یادگار چھوڑے ہیں۔

خسرو کو ہندوستان میں فارسی کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا گیا ہے، اگرچہ کہ خسرو نے بشمول قصیدہ ، مثنوی اور غزل ہر صنف سخن پر طبع آزمائی کی ہے اور ہر میدان میں اپنی عظمت کے نقوش چھوڑے ہیں لیکن ان کو جو شہرت و مقبولیت غزلوں سے ملی وہ کسی دوسرے اصناف سخن میں نہیں ملی۔ خسرو اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس کمسنی میں بھی جب میرے دودھ کے دانت ٹوٹ رہے تھے اشعار میرے منہ سے موتیوں کی طرح جھڑتے تھے۔‘‘

خصوصیاتِ کلام

ان کی غزلوں میں وہ تمام فکری اور فنی خوبیاں موجود ہیں جوعظیم شاعری اور شاہکار غزل دونوں کے لئے ضروری ہوا کرتی ہیں۔ ان کی غزلیں سعدی و حافظ کی غزلوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں، انہوں شاعری عشق ومحبت جسے غزلیہ شاعری میں بنیادی حیثیت حاصل ہوا کرتی ہے خسرو اس لذت سے بھی آشنا تھے، یہی سبب ہے کہ خسرو نے اپنی شاعری میں عشق کی جو سچی ترجمانی کی ہے اس کی نظیر ہندوستانی شاعری میں ملنا مشکل ہے۔ خسرو کی غزلوں میں سوزو گداز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خسرو کے زمانے سے اب تک قوالی کی محفلوں میں قوال زیادہ تر خسرو کے کلام کو گاتے ہیں۔

خسرو کی زیادہ تر غزلیں نشاطیہ لب ولہجہ میں ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ بادشاہوں کے دربار سے وابستہ ہوکر گذارا تھا۔ علاوہ ازیں ان کی بہت ہی غزلوں میں غم کی دھیمی آنچ اور کسک کا احساس ہوتا ہے پھر بھی اس کسک پران کی شوخی غالب رہتی ہے۔

دلم در عاشقی آواره شد آواره تر بادا
تنم از بے دلی بے چارہ شد بے چارہ تر بادا
گراے زاہد دعاۓ خیر می خواہی مرا ایں گو
کہ آں آوارہ در کوئے بتاں آوارہ تر بادا

فارسی کا یہ مشہور شعر امیر خسرو ہی کا ہے:

اگر فردوس بر روے زمین است
همین است و همین است و همین است

ان کی غزلیں فنی لحاظ سے انتہائی بلند ہیں اور احساس کے اظہار کے لئے انہوں نے بہترین اسلوب اختیار کئے ہیں ، ان کے اشعار میں غنائیت اور موسیقیت بہت زیادہ ہے ، جس کی وجہ سے انہیں بہت سراہا جا تا ہے۔ عام طور پر ایران میں سعدی اور ہندوستان میں خسرو کا ذکر فارسی شاعری کے کمال کے لئے کیا جا تا ہے، بقول ڈاکٹر حامد اللہ انصاری :

"جو کام سعدی سے پورا نہ ہو سکا اسے خسرو نے پورا کر دیا”

اشتراک کریں