پریم چند کا افسانہ کفن اردو ادب میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس افسانے میں پریم چند نے بہت ہی خوبصورت انداز سے ایک دبے کچلے خاندان کی غربت اور اس سے پیدا ہونے والی ایک دل دہلا دینے والی صورتحال کو فنکارانہ شعور کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ حالانکہ پریم چند کے عہد کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ افسانہ کسی ایک خاندان کی روداد نہیں ہے بلکہ اس طبقے کے ہر اس خاندان کی کہانی ہے جو جاگیردارانہ نظام کے استحصال کا شکار تھا۔
کفن کا پلاٹ دو نہایت ہی غریب مزدور گھیسو اور مادھو کے ارد گرد گھومتا ہے . ان دونوں کے بیچ باپ بیٹے کا رشتہ ہے ۔ ایک تیسرا کردار بدھیا کا ہے جو مادھو کی بیوی ہے . وہ گھر کے اندر درد زہ سےتڑپ رہی ہے اور گھیسو اور مادھو باہر بیٹھے آلو بھون کر کھانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس دوران گھیسو مادھو سے یہ ضرور کہتا ہے کہ وہ اندر جا کر اپنی بیوی کو دیکھ آئے . لیکن وہ نہیں جاتا ہے . کیونکہ اسے اندیشہ ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں اس کا باپ بھنے ہوئے آلو کا زیادہ حصہ کھا جائے گا . ادھر بدھیا درد زہ کی تکلیف کو برداشت نہیں کر پاتی اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے . صبح جب مادھو اور گھیسو کی آنکھ کھلی تو گھر کے اندر بالکل خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ مادھو کمرے کے اندر جا کر دیکھتا ہے تو اس کی بیوی بدھیا اسے مری پڑی دکھائی دیتی ہے۔
گھیسو اور مادھو کے لئے اصل مسئلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے ۔ بدھیا کو جلانے یعنی اس کا کریا کرم کرنے کے لئے لکڑیاں اور کفن درکار تھا ۔ لیکن ان کے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی . لہذا گھیسو اور مادھو روتے بلکتے ہوئے زمیندار کے پاس پہنچے ۔ حالانکہ زمیندار ان دونوں باپ بیٹےکو ان کی کاہلی کی وجہ سے بالکل ہی پسند نہیں کرتا . لیکن اس کے باوجود ان کی بے بسی اور لاچاری کو دیکھ کر دو روپیے دے دیتا ہے . گاؤں کے کی دوسرے لوگ بھی ان دونوں کی مدد کرتے ہیں ۔ اور اس طرح ان کے پاس کل ساڑھے پانچ روپے جمع ہو جاتے ہیں . رقم لے کر دونوں کفن خریدنے کے لیے بازار جاتے ہیں لیکن ادھر ادھر گھوم کر وقت ضائع کرتے ہیں . حتی کے شام ہو جاتی ہے ۔ اور دونوں باپ بیٹا ایک شراب خانے میں گھس جاتے ہیں اور شراب پینے میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ حالانکہ انہیں بار بار اس بات کا خیال آتا ہے کہ بدھیا کا کریا کرم کرنا ہے لیکن اپنے اس خیال کو گھیسو اور مادھو یہ کہہ کر جھٹکتے رہتے ہیں ہیں کہ زندہ لوگوں کو تو کپڑے دستیاب نہیں اور مردہ کو نئے کپڑے دئیے جاتے ہیں ۔ بھلا یہ بھی کوئی انصاف ہے ، اتنا ہی نہیں کفن کے لیے جمع سارے پیسے کو شراب پینے میں اڑا دیتے ہیں تو دونوں اپنی اس حرکت کو حق بجانب ٹھہراتے ہوئے توجیہہ بھی پیش کرتے ہیں کہ انہیں بدھیا کے مرنے کی وجہ سے اچھا کھانا نصیب ہوا ہے . اس لئے اس کا ثواب بدھیا کو ضرور ملے گا ، حالانکہ مادھو کو اس بات کا ڈر ستا رہا ہے کہ پیسے تو ختم ہو گئے ہیں ایسی صورت میں بدھیا کا کریا کرم کیسے ہوگا . لہذا مادھو گھیسو سے پوچھتا ہے کہ جب لوگ سوال کریں گے کہ بدھیا کی آخری رسومات کے لئے ہم نے جو پیسے دئیے تھے وہ کیا ہوئے تو کیا جواب دیں گے ۔ گھیسو یہ سن کر اطمینان سے کہتا ہے کی ہم کہہ دیں گے کہ پیسے کھو گئے ۔ اس کے بعد دونوں چھک کر شراب پیتے ہیں ، بھنے ہوئے گوشت کھاتے ہیں اور نشے کی حالت میں ناچنے گانے لگتے ہیں اور پھر وہیں بے سدھ ہو کر گر پڑتے ہیں ۔
پریم چند نے انہیں واقعات پر کفن کا پورا پلاٹ تیار کیا ہے . موضوع کے اعتبار سے اس کہانی کی معنویت یہ ہے کہ پریم چند کے عہد میں جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے کسانوں مزدوروں کی حالت بڑی ابتر تھی اور جو نہایت بے بسی کی حالت میں زندگی گزارتے تھے . ان کی ہے بسی کو پیش کرنے کیلئے پریم چند نے گھیسو اور مادھو کی انسانی غیرت کو غربت اور مفلسی کی وجہ سے بے غیرت کردار کے طور پر پیش کر کے جاگیردارانہ نظام کی برائیوں کو طشت از بام کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جہاں تک کردار نگاری کا سوال ہے افسانے کے دو کردار گھیسو اور مادھو کا واقعات کی مناسبت سے غیر انسانی عمل کرنا یعنی کریا کرم کے پیسے کو شراب پینے میں اڑا دینا بھی فطری عمل لگتا ہے . اس فطری عمل کی تابناکی اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب گھیسو اور مادھو کو بار بار احساس ہوتا ہے کہ وہ کچھ غلط کر رہے ہیں ۔ یعنی کریا کرم کرنے کا فریضہ انجام دینا ان کے ہواس پر چھایا رہتا ہے . لیکن ان کے اندر بھوک اور اچھا کھانا کی دبی ہوئی خواہش ان کے اس احساس کو بار بار کچل دیتی ہے ۔ کہنا ہوگا کہ غربت اور ان سے پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجے میں جو خیالات اور جذبات ایک انسان میں پیدا ہوتے ہیں ان کو پریم چند نے ان دو کرداروں کے ذریعے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے ۔ مکالمے بھی فطری ہیں اور برمحل ہیں جس کی وجہ سے کہانی میں کہیں اکتابت نہیں ہوتی . پریم چند کا یہی کمال ہے کہ وہ واقعات کو کرداروں اور مکالموں کے ذریعے فطری بنا دیتے ہیں.کفن انہی بنیادوں پر ایک شاہکار افسانہ ہے۔