سفر عربی لفظ ہے جس کے معنی ہین مسافت طے کرنا۔
سفر نامہ کو لکھنے کا مقصد قارئین کو اپنے تجربات و واقعات سے آگہی دینا، اورسفر کی داستان سنا کر عام انسان کے اندر دیارِ غیر کے بارے میں جاننے کی خواہش پیدا کرنا۔ سفر نامہ، سفر کے تاثرات، حالات اور کوائف پر مشتمل ہوتا ہے۔
سفرنامے کا تعارف
فنی طور پر سفرنامہ ایک بيانيہ صنف ہے جس ایک سفرنامہ نگار سفر و سیاحت کے دوران يا اس کے اختتام سفر پر اپنے مشاہدات، کيفيات اور اپنے قلبی واردات کو فصیح و بلیغ عبارت اور ادبی پیرائے میں حوالۂ قرطاس کرتا ہے۔
بنیادی طور پر سفرنامہ کی دو قسمیں بنتی ہیں
- ادبی سفرنامے
- محض سفری احوال
ایک مستقل ادبی صنف ہونے کے ناطے سفرنامہ کی پیش کش ادبی نوعیت کی ہونی چاہئے۔ یوں ہر مسافر کا سفری احوال ادبی سفرنامہ نہیں کہلائے گا۔
ڈاکٹر سید عبد اللہ دیکھ لے ایران کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ
سفرنامے کی صنف میں تمام اصناف کو اکٹھا کر دیا جاتا ہے۔ اس میں داستان کا داستانوی طرز، ناول کی فسانہ طرازی، ڈرامے کی منظر کسی، آبیتی کا مزہ اور جگ بیتی کا لطف اور پھر سفر کرنے والا جزو تماشا ہو کر اپنے تاثرات کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ اس کی تحریر پر لطف بھی ہو اور معاملہ افزا بھی۔[اصناف نظم و نثر از ڈاکٹر اشفاق احمد ورک]
پہلا سفرنامہ کب اور کہاں لکھا گیا یہ کہنا ذرا مشکل ہے۔ یورپین مؤرخین یونانی "سیاح ہیرو دوتس” Hero Dotus کو سفرنامہ نگاری کا موجد مانتے ہیں لیکن اس کے سفرنامہ کے بارے میں زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں۔
اردو سفرنامہ نگاری
ہندوستان میں انگریزوں کا زور اور تسلط بڑھنے کے ساتھ ہی یورپین ممالک کے قصے کہانیاں یہاں کے لوگوں تک زیادہ پہونچنے لگیں۔ تو ہندوستانیوں کے دل میں ان ممالک کے سفر کا شوق بڑھنے لگا لہذا ابتدائی ادوار میں اردو و فارسی سفرنامہ لندن اور مغربی ممالک کے سفر پر مشتمل ملتے ہیں۔
اب تک کے اردو سفرنامہ کی فہرست کافی طویل ہے۔ جن میں اولیت کا شرف یوسف کمبل پوش کے سفرنامے "تاریخ یوسفی” معروف بہ "عجائبات فرنگ” کو حاصل ہے۔ یوسف خان کمبل پوش نے ن 1837ء میں انگلستان کا سفر کیا یا یہ سفرنامہ اسی سفر کی روداد ہے۔
"عجائبات فرنگ” کی صرف یہی خوبی نہیں کی وہ اردو کا پہلا سفر نامہ ہے بلکہ زبان و بیان کی صفائی، بے ساختگی اور حقیقت نگاری کی وجہ سے بھی اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ سفرنامہ پہلی بار یار پنڈت دھرم نارائن کے زیر اہتمام 1847ء میں دہلی سے شائع ہوا پھر تحسین فراقی نے دوبارہ ترتیب دے کر 1983ء میں لاہور سے شائع کیا۔
سرسید کے دور میں اردو ادب نے بہت ترقی کرلی تھی۔ ان کے رفقاء نے اردو کو مختلف اسصناف سے مالامال کیا تھا۔ اس عہد میں کئی اچھے سفر نامے بھی لکھے گئے۔ سر سید کا سفرنامہ "مسافرانِ لندن” انھیں میں سے ایک ہے۔ سر سید کے سفر لندن کا مقصد علم و ہنر اور علوم و فنون کی نئی راہیں تلاش کرتا تھا۔ سرسید نے یہ بات اچھی طرح محسوس کر لی تھی کہ قوم کی ترقی کا راز نئی تعلیم میں پوشیدہ ہے لہذا ولایت جانے کا کا ان کا بنیادی مقصد وہاں کے طریقۂ تعلیم، نصاب تعلیم، اصول درس و تدریس اور وہاں کی تہذیب و ثقافت سے براہ راست واقفیت اور معلومات حاصل کرنا تھا تاکہ ان سے اپنے ہم وطنوں کو مستفید کر سکیں۔
علامہ شبلی نعمانی نے انیسویں صدی کے آخری دہائی میں اسلامی ممالک کا سفر کیا۔ واپس آنے پر دوستوں کے اصرار پر حالات سفر تحریر کیے یے اور اردو ادب میں ایک اہم سفرنامے "سفر نامۂ روم و مصر و شام” کا اضافہ ہوا۔
علامہ شبلی کے اس سفر کا مقصد محدود تھا، غیر مسلم مؤرخین کی متعصبانہ اور تنگ نظری کی روش کی وجہ سے وہ مسلمانوں کی زندگی کا وہ رخ بھی دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے جیسے یورپین تاریخ نگار جان بوجھ کر نظر انداز کر جاتے تھے، اس خیال کے ساتھ انھوں نے اسلام کی جلیل القدر ہستیوں کی سوانح لکھنا شروع کی۔ اس سلسلے میں ضروری مآخذ تک رسائی کے لیے انہوں نے اس سفر کا ارادہ کیا کیا کیا۔
شبلی کے اس سفرنامہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ باتیں اس طرح بیان کر جاتے ہیں کہ قاری کے دل و دماغ میں اتر جاتی ہیں۔ یہ ان کے جملہ نثر کی بھی خوبی ہے۔
عصر حاضر میں اردو سفرنامے
عصر حاضر میں اردو سفر نامے ترقی کی کی منزلیں طے کی ہیں ہیں اگر اس لو آلو کے نقطہ نظر سے دیکھیں ہیں تو اس میں میں خاص فرق نہیں آیا ہے ہے لیکن تخلیقی شعور اور علمی استعداد رکھنے والے نئے راستے نکال ہی لیتے ہیں آج کا سفر نامہ نگار کے مطابق دستی کے ساتھ پیش کرتا ہے اب سفر نامہ نہ محرم واقعات کا بیان نہیں نہیں بلکہ ایک سیاسی فکری اور روحانی واردات بن گیا ہے ان سفرنامہ میں ڈاکٹر عابد حسین کا لکھا ہوا آپ سفرنامہ نہ ہے شوق ق او صالحہ عابد حسین کا سفر نامہ سفر زندگی کے نئے سونگ ساز از سید احتشام حسین کا سفرنامہ نہ ساحل اور سمندر سر اور سید ابو الحسن علی ندوی سیاست پر نامہ ڈرامہ ترکی میں دو ہفتے کتے چرسی اوسط میں کیا دیکھا فا لا لا خاص طور پر قابل ذکر ہیں
عصر حاضر کے سفرناموں میں مختلف خصوصیات کے باوجود کچھ خامیاں بھی نظر آتی ہیں جو سفر نامے صداقتوں کو مجروح کرتے ہوئے اسے فکشن کے حدود میں داخل کر دیتی ہیں۔ نئے سفرناموں میں کہیں کہیں مبالغہ آرائی اور اپنی ذات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا، اپنے نظریات پر بیجا اصرار کرنا جیسے عیوب پائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اظہار کے وسیلے سے اس نے اردو سفرنامے کو ایک قدم آگے ضرور بڑھا دیا ہے