اختر الایمان کی نظم نگاری : ایک مطالعہ

تعارف

اخترالایمان کی پیدائش 12نومبر1915 کو نجیب آباد ، ضلع بجنور میں ہوئی تھی۔ ان کا گھرانا قدامت پرست تھا۔ غربت کا ماحول تھا۔ ان کی والدہ ان پڑھ تھیں۔ بچپن میں ہی معاشی تنگی کے سبب انھیں والد کے ساتھ گھر چھوڑنا پڑا۔ وہ دہلی آ جاتے ہیں۔ والدہ کا پیار انھیں نہیں ملتا ہے۔ دہلی آنے کے بعد والدہ نے کوئی خط بھی نہیں لکھا کیونکہ وہ ان پڑھ تھیں۔ اختر کے بچپن کی ایک بات ہے کہ ان کی چھوٹی بہن کے لیے ان کے تایا کے لڑکے کا رشتہ آیا تھا، جو کافی عمر دراز تھا اور دوسری شادی کرنا چاہتا تھا۔ یہ سب باتیں ایسی تھیں جو اختر کے دل و دماغ پر نفش ہوگئیں۔ دہلی میں ان کے والد انھیں بہت مارتے پیٹتے تھے۔ بقول اختر ایک بار انھیں والد کا پیار ملا تھا اور اس وقت جب انھوں نے لوٹا توڑ دیا تھا اور رضائی میں دبک کر مار کے ڈرسے سسک رہے تھے تو والد نے آکر چمکارا تھا اور پیار کیا تھا لیکن الد کے لیے  اختر کے پیار میں کمی نہیں تھی وہ والد کو بہت زیادہ چاہتے تھے۔ ایسے ہی حالات و واقعات کے درمیان اختر جوان ہوئے۔ اختر الایمان کی دہلی آنے کے بعد اشفاق نامی شاعر سے ملاقات ہوئی تھی اور اس کے کلام کے جواب میں خود بھی شاعری شروع کر دی۔ پھر علی گڑھ میں ایم اے میں داخلہ لیا اور بعد میں ریڈیو میں ملازم ہو گئے جہاں ن۔ م۔ راشد پہلے سے تھے۔ کچھ وجوہات کی بنا پر انھوںنے ریڈیو کی نوکری چھوڑ دی اور بمبئی چلے گئے وہاں  فلموں کے لیے مکالمے لکھے۔ ان کا انتقال9 مارچ 1996کو ہوا تھا۔

اختر الایمان کی شاعر

اردو ادب دائرے کو اور خاص طور سے شاعری کو دو ادبی تحریکوں نے روشنی دی جن میں ایک ہے "ترقی پسند تحریک” اور دوسری ہے حلقۂ ارباتِ ذوق. لیکن کچھ ایسے شاعر بھی تھے جو ان دونوں ادبی رجحانات سے تعلق نہ رکھتے ہوئے بھی اپنی شاعرانہ شخصیت کی تشکیل میں لگے رہے۔ اور آج بھی نامور شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اختر الایمان ایک ایسے ہی شاعر ہیں جنہی تیسری آواز کہا جاتا ہے۔ اور یہ آواز ان کی اپنی آواز ہے۔ یہ ایک نامور اور مشہور شاعر ہیں خاص عام کے مابین مقبولیت نے ان کا قدم بوسی کی۔

اختر الایمان صاف ستھرا ذوق رکھتے ہیں ان کے یہاں وہ جذباتی رویہ نہیں ہے جو جو اشتراکیت سے متاثر جدت پسندی کا شوق رکھنے والے شعراء کے یہاں پایا جاتا ہے۔ انہوں نے مغربی زبانوں کی شاعری کے اثرات بھی قبول کئے، آزاد اور معریٰ نظم نگاری بھی کی، ہیئت کے بہت سے تجربوں کو آزمایا لیکن انہوں نے خود کو ادبی گرو بندی سے دور رکھا۔

اختر کے شروعاتی دور کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے لگتا ہے کہ جیسے یہ ایک وحشت زدہ انسان کی شاعری ہے جو لوگوں سے اس جہاں سے بھاگ رہا ہے۔ ان کے نوجوانی میں شائع ہوئے پہلے مجموعے "گرد اب” کی نظمیں ایسی ہی ہیں۔ ان کے مجموعے گرداب کو 1944 میں شاہد احمد دہلوی نے شائع کیا تھا۔ اس مجموعے پر تبصرہ کرتے ہوئے فراق نے کہا تھا کہ:

’’نئے شاعروں میں سب سے گھائل آواز اختر الایمان کی ہے جس میں بلا کا درد اور زمانے کے حوادث پنہاں ہیں۔”

ان کا یہ شعر کافی مشہور ہوا تھا :

اب ارادہ ہے کہ پتھر کے صنم پوجوں گا
تاکہ گھبراؤں تو ٹکرا بھی سکوں مر بھی سکوں
(نظم: تنہائی)

لیکن بعد کی نظموں میں انھوں نے بہت جلد اپنے لہجے پر قابو پا لیا اور اپنی شاعری کو نئی منزلوں اور رفعتوں سے روشناس کرایا۔ اختر الایمان اردو شاعری میں اپنے منفرد لب و لہجے ، عام فہم الفاظ ، فارسیت سے عاری الفاظ اور علامتی شاعری کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انھیں علامتی شاعر کہا جا تا ہے۔ منظر نگاری ، علامت، خوبصورت الفاظ ، نئی اصطلاحات کے استعمال سے وہ بخوبی واقف تھے۔

اختر الایمان نے زمانے کے کئی نشیب وفراز دیکھے، بے رخی کا سامنا کیا اور زندگی کے فریب کھائے لیکن ان کے یہاں زندگی اور زمانے کے تعلق سے بیزاری اور برگشتگی نہیں ملتی۔ زندگی اور زمانے کے منفی رویہ کے باوجود ان کو زندگی اور زمانے سے پیار تھا۔ اس کے ساتھ فکر کی سنجیدگی اور خاص طور پر ارتکاز فکر نے ان کے کلا میں گہرائی پیدا کر دی ہے ۔ یوں ان کا کلام غور وفکر کی دعوت بھی دیتا ہے۔

اختر الایمان کا فکر رجحان بھی جدا گانہ ہے الفاظ کے انتخاب میں احتیاط اور اچھوتے اسلوب نے ان کی شاعری کو مجموعی طور پر اور ان کی اشاریت کو ندرت اور بانکپن کا حاصل بنادیا ہے۔

اختر کی زیادہ تر نظمیں مختصر ہیں لیکن اپنی نظموں میں انہوں نے اشاروں سے کام لیا ہے۔ اور ایسی مختصر نظمیں جن میں اشارات ہوں تو کامیاب ہوتی ہیں۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اختر الایمان کی شاعری کا قابل لحاظ حصہ یادوں پرمشتمل ہے ان کے پہلے شعری مجموعہ کا نام ہی "یادیں” ہے ۔ یہ یادیں انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی ۔ ان کا تعلق آپ بیتی سے بھی ہے اور پر بیتی سے بھی ۔ یہ یادیں خوشگوار بھی ہیں اور نا خوشگوار بھی۔ غالبا بہ حال سے بے اطمینانی ہی ہے کہ شاعر یادوں کی دنیا میں پناہ لیتا ہے۔

"ایک لڑکا” اختر الایمان کی ایک خوبصورت نظم ہے جو یادوں پر مشتمل ہے۔ "کل کی بات” ، "ریت کے محل‘‘ اور "مسجد” بھی اسی قبیل کی منظومات ہیں۔

مسجد کا موضوع موجودہ دور میں کسی بھی مذہب سے اس کے پیروؤں کی بے نیازی، مذہبی افراد کی بے راہ روی اور عصری قدریں ہیں۔ اس نظم میں تین کردار تین اشارات ہیں۔ مسجد مذہب کے لیے اشارہ ہے۔ شاعر نے مسجد کی زبوں حالی اور شکستگی کا ذکر کرتے ہوئے آج کے دور میں مذہب کی حالت کو اجاگر کیا ہے۔ رعشہ زدہ ہاتھ مذہب کے اشارے کے طور پر استعمال ہوا ہے جو عصری مسائل کو اپنی گرفت میں لینے اور ان پر قابو پانے کی اہلیت نہیں رکھتا اور ندی اشارہ ہے نئی قدروں کے لیے ۔ ان تینوں اشارات کی کشمکش نے نظم کے بہاؤ کو تیز تر کر دیا ہے اورنظم معنوی طور پر تبہ دار ہوئی ہے۔

اختر الایمان نے ایک اور نظم ’’باز آمد‘‘ میں بھی ندی کو بطور اشارہ استعمال کیا ہے۔ اس نظم میں برگد کا گھنا درخت کپاس کوٹتی ہوئی عورتیں اور رمضان قصائی وغیرہ بھی اچھے اشارات ہیں ۔

اختر الایمان کی ایک اور نظم ’’تنہائی‘‘ کا موضوع بظاہر شخصی ہے لیکن اختر الایمان نے اپنے شخصی تجربات کو بھی آفاقی حیثیت دے دی ہے ۔ اس نظم میں ’’ببول‘‘ کا اشارہ شاعر کی ذات کی طرف ہے۔

’’نئی صبح” بھی اشاریتی زاویہ سے ایک اہم نظم ہے۔ ماضی اور حال، روایت اور بغاوت کی کشمکش ، مٹتی ہوئی قدریں اورا بھرتا ہوا نیا معاشرہ اس نظم کا موضوع ہے۔ کالا ساگر، رات، پرانے دیئے، سرخ زبان کی نازک لو، ایک کہانی اور سورج کا نکلنا جیسے اشارات نظم کی معنویت کو گہرا کر دیتے ہیں۔ اس نظم کی ایک خوبی اس کا صوتی آہنگ ہے اور معنوی تسلسل بھی جواشارات کے مفہوم کی وضاحت میں مدد کرتے ہیں ۔ شاعران اشارات کو یوں ابھارتا ہے کہ نظلم نئے دور کے لئے ایک مشعلِ راہ بن جاتی ہے۔

ان تمام خصوصیات کی حامل شخصیت اختر الایمان آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اپنی نظم نگاری اور نئے لہجے کے لیے  وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

اشتراک کریں