حالی نے اردو ادب کو جو تنقیدی شعور بخشا اور تنقید کے تعلق سے اپنے جو تصورات پیش کئے ان کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے ان کے پش منظر میں ان مقصد نیک تھا وہ اردو شعر ادب کو انجماد کے کنوئیں سے باہر نکالنا چاہتے تھے اور ایک ایسے ادبی رحجان کے خواہاں تھے جو ہر قسم کی غیر ضروری مبالغہ آرائی اور تصنع سے پاک اور حقیقت پسندی پر مبنی ہو، اسی جذبے کے تحت انہوں نے اپنے زمانے میں ان مباحث کو اٹھایا جو برسہا برس کے بعد اردو ادب میں موضوع بحث بننے والے تھے، اور باکل اسی طور تسلیم کئے جاتے والے تھے جیساکہ حالی نے تسلیم کیا تھا، جب ہم حالی کے جملہِ سرمایہ تنقید کو سامنے رکھتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حالی نے اردو کو جو کچھ دیا ہے اس کی اولیت افادیت اور اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔
حالی نے جو تنقیدی تصورات پیش کئے وہ اس وقت اردو ادب کے لئے ایک نیا موضوع تھا اور ان کے زریعے ابھی اردو ادب میں ایک منظم تنقیدی شعور کی بنیاد رکھی جارہی تھی تو ظاہر ہے اس مرحلے میں جلدی اور تسامح کے امکانات تو ہو ہی سکتے ہیں، اس لئے حالی کے تنقیدی تصورات کو جہاں مقبولیت ملی وہیں انہیں گڑے اعتراضات اور تنقیدوں کے نشانے پر بھی رہنا پڑا ۔ ان کے بہت سارے اسباب ہیں :
1) حالی کے پیشِ کردہ تنقیدی تصورات اردو کے لئے بالکل نئے تھے اس لئے شک کی نگاہ سے دیکھے گئے۔
2) انگریزی ادب کے اصول اردو والوں کو ایک آنکھ بھی نہ بھا سکے، یہ الگ بات ہے کہ آج اردو کا ہوئی بھی تحقیق و تنقیدی مضمون انگریزی ادب کے حوالوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
3) حالی نے انگریزی ادب کو براہ راست نہ پڑھ اس کے ترجمہ شدہ کتابوں سے پڑھا تھا کیونکہ حالی انگریزی زبان سے نابلد تھے اس لئے غلطی کے امکانات ہو سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہیں کہیں اصطلاحات کے نازک فرق کو ملحوظ نہیں رکھ سکے، مثلا انہوں نے Imagination اور Fancy کے مفہومِ کو خلط ملط کر دیا۔ ایک جگہ وہ تمثیل کی تعریف یوں کرتے ہیں:
”یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کر دیتی ہے، اور ماضی و مستقبل اس کے لئے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے.”۔ (مقدمہ شعر و شاعری، ص:51)
دوسری جگہ یوں لکھتے ہیں:
”وہ ایک قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجر بہ یا مشاہدہ کے ذریعے سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے۔ یہ اس کو مکرر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے، اور پھر اس کو الفاظ کے ایسے دل کش پیرایہ میں جلوہ گر کرتی ہے جو معمولی پیرایوں سے بالکل یا کسی قد را لگ ہوتا ہے۔” ( ایضا صفحہ 52 )
یہ دونوں تعریفیں دوا لگ الگ انسانی صلاحیتوں کی تعریفیں ہیں۔ حالی دونوں تعریفوں میں گڈ مڈ کرتے ہیں جبکہ پہلی تعریف Fancy کی ہے اور دوسری تعریف Imagination ) کی۔ ممکن سے حالی کو دونوں اصطلاحات کے فرق سے کامل واقفیت حاصل نہ رہی ہو۔
4) حالی نے انگریزی پڑھے بغیر انگریزی کے اتنے بڑے شاعر جان ملٹن کے خیالات کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں ترجمہ کی مدد سے اس کے خیالات کو صحیح طور پر نہیں سمجھا، اور اسے پیش کرنے میں اپنی سمجھ بوجھ اور اپنی عربی و فارسی دانی کا بھی استعمال کیا جس کے سبب ان کے تنقیدی تصورات کہیں سے کہیں پہونچ گئے۔ حالی نے لکھا ہے کہ ملٹن نے عمدہ شعر کی تین خصوصیات بتائی ہیں سادگی، اصلیت اور جوش، لیکن اصل بات کچھ اور ہے، ملٹن کے یہ خیالات عمدہ شعر کے متعلق نہیں ہیں بلکہ انہوں نے یہ بتایا ہے کہ فن خطابت کے مقابلے شاعری کا استدلال سادہ، اصلی اور پر جوش ہوتا ہے۔ لیکن اس میں غلطی حالی کی نہیں ہے بلکہ حالی سے پہلے ایک مفکر کولرج سے ہوئی ہے، اور حالی نے کولرج کو پڑھ کر ملٹن کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ لہذا کولرج کے تتبع میں حالی سے بھی وہی غلطی سرزد ہو گئی۔
5) ملٹن کے نظریہ کی جو دوسری خصوصیت یعنی ”Sensuous” اس کا اردو ترجمہ”حسی” یا ”احساس پر مبنی” ہوسکتا ہے، لیکن حالی نے اس کا ترجمہ ”اصلیت” سے کیا ہے، اس پر ناقدین سخت اعتراض کرتے ہیں، تاہم بعض ناقدین اس کی توجیہ یوں کرتے ہیں کہ حالی نے چونکہ عربی و فارسی مفکرین کو بہت زیادہ پڑھا تھا جنہوں نے شعر کی اصلیت پر بہت زیادہ زور دیا تھا، انہیں کے تتبع میں حالی ”Sensuous” کے نام پر اصلیت کی بحث شروع کر دیتے ہیں۔ سو حالی سے یہ غلطی سرزد ہو گئی۔
6) حالی نے اصناف سخن غزل، قصیدہ، مرثیہ وغیرہ پر جو تنقید کی ہے ناقدین کی ایک تعداد نے اسے پسند نہیں کیا ہے، تاکہ اکثریت حالی کی ہمنوا ہی رہی ہے۔
خیر معاملہ جو بھی ہو اردو ادب پر حالی کے احسانات کم نہیں ہیں جب تک اردو کا نام رہے گا حالی کا نام بھی اس کے ساتھ ساتھ زندہ جاوید رہے گا۔