اچھی تحریر وہ ہے جو جذبات دروں اور احساسات بروں کو کشید کرکے خون جگر کی روشنائی سے لکھی جائے، باقی تو سب الفاظ کے ایچ پیچ ہیں، جن میں کبھی صاحب تحریر کے جذبات نمایاں ہو جاتے ہیں اور بہتوں کے دل کی آواز بھی بن جاتے ہیں؛ لیکن کیا وہ واقعی اچھی تحریر ہے اور اس سائل کو مطمئن کرسکتی ہے جسے انداز تحریر سیکھنا ہو، جسے یہ جاننا ہو کہ الفاظوں میں ایسے جذبات، احساسات، خیالات کو کیسے در کیا جائے جو قوم، اور معاشرے کی آواز بن سکے؟ شاید اس کا جواب نفی میں ہو۔ اصل وجہ یہ ہے کہ صاحب قلم اکثر لکھ کر اپنے دل کے درد کو دھوتا ہے یا لکھے ہوئے کردار کے پیچھے وہ خود چھپا ہوتا ہے، ظاہر ہے ایسی تحریر کچھ لوگوں کے دل کی آواز، سامان سکون دل تو ہو سکتی ہے؛ مگر کیا وہ واقعی اچھی تحریر بھی ہے، یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ محبت کا مارا ہوا شخص ہو یا سماج کا ستایا ہوا یا کہ جسمانی عوارض اور اذیتوں کا شکار، وہ انہیں محدود دائروی میں گھوم کر رہ جاتا ہے اور انہیں جذبات کو الفاظ دینے کی کوشش کرتا ہے؛ لیکن دوسری طرف اپنے ارد گرد فطرت کی پیدا کردہ نعمتوں کو بھول کر اپنے الفاظ میں صرف درد پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے یا دوسروں کے درد کو بھول کر صرف نعمتوں، حسین نظاروں کا ذکر کرتا ہے جبکہ اچھی تحریر کے لئے دونوں کا باہم ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔
اچھی تحریر لکھنے سے پہلے مکمل تیاری کی ضرورت ہوتی ہے کہ عنوان کے مالہ و ماعلیہ کو اچھی طرح پڑھا جائے پھر اپنی فکری صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے موزوں الفاظ کی تلاش کی جائے؛ کیونکہ وہ الفاظ ہی ہیں جو آپ کے مافی الضمیر کو ادا کرتے ہیں، ظاہر ہے ہر لفظ میں یہ خصوصیت نہیں ہوتی ہے اس لئے موزوں الفاظ اچھی تحریر کے لئے ایک اہم ضرورت ہیں، اور الفاظ کے ذخیرے اور معانی کی پہچان زیادہ پڑھنے سے ہی ہوتی ہے، ایک رائٹر جتنا پڑھے گا اس کی تحریر میں اتنی ہی چاشنی بڑھتی جائے گی۔ بسا اوقات بہت سے طالب علم کہتے ہیں لکھنا سکھا دیجئے، ان کے لئے جواب یہ ہے کہ پہلے آپ پڑھئیے جتنا پڑھیں گے اتنے مضامین نہاں جانہ دماغ میں کلبلائیں گے پھر افکار کی آمد ہوگی اور جذباتی طور پر آدمی لکھنا چاہے گا؛ لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر پڑھنے والا لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو؛ بلکہ مشق کی ضرورت بہرحال ہرآن ہے؛ کیونکہ مشق ہی آدمی کی صلاحیت میں چار چاند لگاتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سچائی، حق گوئی اور حالات کی بعینہ ویسی ہی عکاسی کرنا جیسا کہ وہ خارج میں ہیں، سچ کو سچ کہنا اور جھوٹ، دروغ گوئی، نفاق کو ظاہر کرنا ہی موضوع کے ساتھ انصاف کہلاتا ہے؛ ورنہ تو ایسی تحریر کی کوئی وقعت نہیں جو کہ الفاظ و معانی کے اعلی معیار پر کھری اترتی ہو، جس میں فصاحت و بلاغت کی چاشنی بھی ہو؛ مگر خود وہ جھوٹ کا پلندہ ہو، اور آئینہ کے سامنے کی تصویر اور پس پردہ تصویر میں نمایاں فرق ہو، تو ایسی تحریر بیمار ذہنیت کی عکاس اور بیمار ذہنیت کو پیدا کرنے میں ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔ آئینہ ایک ایسا آلہ ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا؛ بلکہ اپنے سامنے والے کو بعینہ ویسا ہی دکھا دیتا ہے جیسا کہ وہ ہوتا ہے بغیر اس بات کی پرواہ کئے کہ اس کا انجام کیا ہوگا، اس کا مالک ناراض ہوکر اس کو چکنا چور نہ کر دے، ٹھیک اسی طرح اچھی اور سچی تحریر کا ہونا ضروری ہے؛ بلکہ اس میں اصول تو یہ ہے کہ
شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
حالات کا ستایا ہوا، محبت کا مارا ہوا، دکھ درد کو سمجھنے والا، نعمتوں، رحمتوں سے آشنا محرر اپنی محنت، لگن کو بروئے کار لاتے ہوئے خون جگر کو روشنائی بنا کر لکھتا ہے تو لگتا ہے کہ اس کی تحریر میں جان ہے، اور ایسی تحریر دوسروں کو اپنی دل کی آواز لگتی ہے، اور اسے لگتا ہے کہ جو اس نے کہا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے، اور اپنی تحریر کو اس معیار تک پہچانے کے لئے فکری بلندی، دوسروں کے حقوق کی پاسداری، عزت و احترام کا جذبے کا ہونا ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اس کے بغیر دل کی بھڑاس تو نکل سکتی ہے؛ لیکن اسے دل کی آواز کہنا انصاف کا خون ہوگا؛ لہذا اچھا رائٹر بننے کے لئے اپنے ذہن و فکر، خیال و اعمال کی آبیاری کس قدر ضروری ہے یہ چیز دو سطر پڑھنے اور دو سطر لکھنے کے بعد ہی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ خلاصہ کے طور پر یہ کہنا کافی ہوگا کہ پہلے پڑھنا اور خوب پڑھنا، اپنی فکری صلاحیت کو بروئے کار لانا، آس پاس کے حال احوال سے باخبر ہونا اور مزید کے لئے آنکھیں کھلی رکھنا، دکھ درد اور محبت کو محسوس کرنا، فطرت کو جاننا، قدرت کی تخلیقات میں غور و فکر کرنا، سفر کرنا، تجربات سے فائدہ اٹھانا، تحقیق کرنا، چانچ پرکھ کرنا پھر ایک نتیجے تک پہونچنا، دوسروں کے تکالیف اور آسانیوں کو احساس کرنا، سچائی کا دامن نہ چھوڑنا، جھوٹ دروغ گوئی اور نفاق سے دور رہنا، یہ چند ایسے ٹول ہیں جس سے کسی حد تک لکھنا آ سکتا ہے۔