شمس الرحمن فاروقی (پ ۳۰ستمبر ۱۹۳۵۔م: ۲۵ دسمبر ۲۰۲۰) نابغۂ روزگار، عبقری اور نظریہ ساز ادیب تھےاگر صاحب الرائے، صائب الرائے، ہمہ جہت، ہشت پہلو، اپنی ذات میں انجمن جیسی تراکیب کی اردو زبان و ادب کی شخصیات کے حوالے سے فہرست مرتب کی جائے تو فاروقی اولین شخص ہونگے جن پر مرقومہ بالا تراکیب کا قرارِ واقعی اطلاق ہوگا۔
اردو کی کوئی صنفِ ادب ایسی نہیں جس کو فاروقی نے چھوا ہو اور اپنی تخلیقی استعداد، مجتہدانہ طرزاستدلال، خلاقانہ طرزِ بیان اور معنیٰ آفرینی سے کُندن نہ بنا دیا ہو۔
تنقید کا میدان ہو یا تحقیق کا، نظم کی شعریات ہو یا فکشن کی اساس، میر فہمی ہو یا نظیرشناسی،عرفانِ غالب ہو یا فہمائش ِاقبال، افسانہ طرازی ہو یا ناول نگاری، شعر کی تفہیم ہو یا نثر کی تشریح، عروض دانی ہویا لغات نویسی غرض انہوں نے علم وادب کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے۔
پورے عہد نے ان کی علمی لیاقت اور ادبی قابلیت کا اعتراف کیا ہے۔ ان کی شخصیت ذکاوت، ذہانت، فطانت اور متانت کا حسین مرقع تھی۔ان کی سخن سنجی،نکتہ رسی اور دقیقہ شناسی مثالی تھی۔
ان کے سحرنگار قلم نے اردو کو ”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ جیسا دستاویزی مَعرَکَہ خیز ناول دیا۔ انھوں نے اپنے جادو نگار قلم سے اردو میں پہلی مرتبہ تاریخ و تمدن، تہذیب و ثقافت سے لبریز شاہکار افسانوں کا مرقع ”سوار اور دوسرے افسانے“ سے اردو ادب کو مالامال کیا۔ ان کا یہ افسانوی مجموعہ پہلی بار ۲۰۰۱ میں لاہور پاکستان سے شائع ہوا بعد ازاں ہندوستان سے ۲۰۰۳ میں اشاعت پذیر ہوا۔ادبی حلقوں میں ان افسانوں کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔
ان افسانوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ افسانے فاروقی نے بوجوہ کسی اور نام سے تحریر کئے تھے۔ جس کو انگریزی میں گھوسٹ رائٹنگ (Ghost Writing) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس مجموعے میں پانچ افسانے شامل ہیں۔ پہلا افسانہ ”غالب افسانہ“ ہے۔ فاروقی نے یہ افسانہ ”بینی مادھو رسوا“ کے نام سے لکھا اور باقی چار افسانے ”عمر شیخ مرزا“ کے نام سے تحریر کئے۔”غالب افسانہ “ کی وجہِ تخلیق کے بارے میں فاروقی رقم طراز ہیں:
”مجھے خیال آیا کہ غالب کے بارے میں افسانے اور حقیقت پر مبنی ایک بیانیہ کیوں نہ لکھوں، جس میں کچھ غالب سے متعلق ادب کے معاملات، اس زمانے کی ادبی تہذیب اور کچھ تاریخ،سب حل ہوکر یکجان ہو جائیں۔میں کئی برس سے اردو کی قدیم ادبی تاریخ اور تہذیب پر بیک وقت اردو اور انگریزی میں کتاب لکھ رہا تھا مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ہماری پرانی تہذیب ہمارے حافظے اور علم سے تقریبا غائب ہو چکی ہے۔ اگر یہ وقت کی سطح کے نیچے اترکرڈوب گئی تو ہمارا نقصانِ عظیم ہوگا اور اس کی بازیافت تو خیر ممکن ہی نہ ہوگی۔ جن تہذیبوں کا ماضی نہیں ان کا مستقبل بھی نہیں۔ اردو ادب وتہذیب کو فراموش کر دینے،اسے پایہئ اعتبار سے ساقط تصور کر نے یا ساقط قرار دلوانے کی جو کوششیں ملک میں جگہ جگہ ہو رہی ہیں (اور ان کوششوں میں ہمارے بھی بعض سربرآوردہ حلقے شریک ہیں)ان کو دیکھتے ہوئے یہ اور بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے تاریخی حافظ کو زندہ رکھیں اور اپنی ادبی تہذیب کو جاندار قائم رہنے والی اور آج بھی بامعنی حقیقت کے طور پر پیش کریں۔“
فاروقی کے بیان سے یہ بات پایۂ تصدیق کو پہنچتی ہے کہ فاروقی کو اردو تہذیب اور اپنی قدیم ثقافت و تمدن سے حد درجہ عشق تھا اور یہ عشق ہی ان افسانوں کوصفحہ قرطاس پر لانے کا موجب ہوا۔
”غالب افسانہ“ کا مرکزی کردار ۱۸۴۰ کا مولود اور راجپوت خانوادے کا چشم و چراغ ہے۔ یہ افسانہ دراصل اسی کی آپ بیتی ہے
فاروقی نے کمالِ قصہ گوئی، اسلوب بیان اور اپنے جادو نگار قلم سے شخص واحد کی خود بیتی کو بڑی ہنر مندی اور فن کاری سے تہذیب وتمدن میں رنگ کر جگ بیتی بنادیا ہے۔
اس افسانے میں مرزا غالب (پ:۲۷ دسمبر ۱۷۹۷۔ م: ۱۵ فروری ۱۸۹۶) کا سراپا، نشست وبرخاست، انداز گفتگو، خوش لباسی، ہند کے فارسی گو شعراء پر غالب کا سخت تبصرہ، غالب کی رموز اشعار پر گفتگو، مومن کی معنی آفرینی پر تحسینی کلمات کے علاوہ دہلوی تہذیب وتمدن کے رنگ اس قدر نمایاں ہیں کہ ہم اس میں غالب کے آخری وقت کی دہلی کے حالات، تہذیب و تمدن، اخلاقیات، معاشرت، سماجی رویہ، علم و ادب شعر و شاعری، کی جھلکیاں جا بجا صاف دیکھ سکتے ہیں۔
فاروقی کو منظر نگاری اور مرقع سازی میں کمال حاصل تھا۔انھوں نے مرزا غالب کا قلمی مرقع کس ڈھنگ سے پیش کیا ہے ملا حظہ فرمائیں:
”کشیدہ قامت، متوسط بدن لیکن ہاڑ بہت چکلا، شانے اس عمر میں بھی خم سے آزاد، سنہرا چمپئی رنگ، اس پر سفید داڑھی، سرمنڈا ہوا، مسکراتا ہوا روشن چہرہ، آنکھیں بڑی بڑی لیکن تھوڑے سے سرور کی وجہ سے سرخی مائل، آنکھوں میں شوخی اور فراست کی چمک، پورا چہرہ مہرہ اور قدوقامت بالکل کسی تازہ وارد تو رانی کا تھا، بس ڈاڑھی ہندی طرز کی نہ ہوتی اور سر نہ منڈا ہوا ہوتا تو اچھے اچھوں کو یہی دھوکا ہوتا کہ کوئی آغائے تو رانی ہے۔“
اس افسانے میں غالب کو موضوعِ گفتگو بنانے کے ساتھ اس وقت کی دہلی کی آب و ہوا، ادبی تہذیب ،دہلی کے گلی، کوچوں کا تذکرہ، دہلی کی معاشرت، قومی یکجہتی ،تاریخ، ہند اسلامی تہذیب کی ختم ہوتی ہوئیں اقدار، مغلیہ حکومت کا ٹمٹماتا ہوا چراغ،انگریزوں کی ہندوستانیوں پر بہیمانہ درندگی کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ انگریزوں کے ہندوستانیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے کا ذکر افسانے میں یوں کیا گیا ہے:
”سارا راستہ کمپنی بہادر کے جیالے سپاہیوں کے ظلم و اور انکی کی بہیمانہ حرکات کے علائم سے بھرا پڑا تھا۔کتے اور چیل کووں نے لاشیں کھانی چھوڑ دی تھیں۔زغن اور لکڑبگھے مُردوں کو کھاتے کھاتے بیمار ہو گئے تھے۔راستے میں دونوں طرف کوسوں تک پھانسیاں ہی پھانسیاں نظر آتی تھیں۔“
اس مجموعے کے دوسرا افسانہ”سوار“ ہے۔ اس افسانے میں اٹھارویں صدی کی نصف ثانی کی دہلی کی تہذیب و ثقافت، تعلیم و تعلم، صوفیا کی مجلسیں، مدارس کی تعلیم و تربیت، علماء کاتدریسی انداز، دہلی کے بازار، وہاں کی گلیاں، کوچے، حویلیوں اورکوٹھیوں کے ذکر نے افسانے کی فضا کو اس درجہ خواب ناک بنادیا ہے کہ قاری خود کو اسی عہد میں چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے ۔بازارِ گل فروشاں کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیے اور فاروقی کے قلم کی سلا ست وشگفتگی دیکھتے جائیے:
”مالی واڑے میں ہمیشہ کھوے سے کھوا چھلتا تھا اور شور وغل اس پر مزید سماں بادھ دیتا تھا۔گل فروشوں کی صدائیں، گلہائے بوقلموں کی خوشبوئیں اور رنگینی، شائقین کا ہجوم جن میں کبھی کبھی رجواڑے کی گلی والیوں کے ہوا دار بھی ہوتے تھے وہ رونق ہوتی تھی کہ پوچھئیے نہیں۔لوگ گلدستے، دستنبو، ہار گجرے، بدھیاں وغیرہ قیمت جمع کرکے پہلے سے بنوا رکھتے تھے اور بھاری گجرے یا سہرے کے لئے دو دو تین تین دن پہلے کہنا پڑتا تھاجو بھی اپنا مال لینے آتا فوراً وہاں سے چلا نہ جاتا۔گل فروشوں کی سجاوٹیں اور صدائیں اور خوشبوئیں دیر تک دلوں کو باندھے اور قدموں کو روکے رکھتی۔ دور و نزدیک سے آنے والے یہ ازہار متنوع اللون خدا جانے کس طرح اتنی دیر تک محفوظ رکھے جاتے تھے۔ گل فروشوں کی سجاوٹیں اور صدائیں اور خوشبوئیں دیر تک دلوں کو باندھے اور قدموں کو روکے رکھتی۔ دور و نزدیک سے آنے والے یہ ازہار متنوع اللون خدا جانے کس طرح اتنی دیر تک محفوظ رکھے جاتے تھے۔گل فروشوں کا کمال یہ تھا کہ خود ان کی دکانوں پر کوئی گل زرد دیکھنے میں نہ آتا تھا۔ خدا جانے کس وقت وہ اپنے پژمردہ اور افسردہ مہمانوں کو رخصت کر دیتے تھے۔دکانیں تو ان کی علی الصباح کھل جاتیں اور رات گئے تک کھلی رہتی۔جب تک چاوڑی بازار کا آخری تماشبین اور رؤسا واہلِ ثروت کی صحبت ِ شبینہ کا آخری مہمان نہ رخصت ہوتا گل فروش بھی اپنی دکان سجائے رہتے۔“
افسانے کا مرکزی کردار مدرسے کے بڑے درجات کا ایک طالب علم ہے جو مدرسے سے فارغ التحصیل ہوکر معلمی کا پیشہ اختیار کرلیتا ہے۔افسانے میں اسی کی داخلی کیفیات کو بنیاد بنا کر کہانی پیش کی گئی ہے۔
روایت ہے کہ قطب الدین بختیار کاکی(۱۲۳۵-۱۱۷۳) کے عہد میں دہلی میں ایک بزرگ آئے تھے جو سڑکوں پر سوار پھرتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کا دیدار کرنے والے پر جنت واجب ہو جاتی ہے دہلی والے ان کی زیارت کو جاتے تھے یہی روایت دہلی اب تک میں چلی آ رہی تھی اور اسی طرح سواروں کے آنے کی افواہیں اڑتی رہتی تھی۔
اس افسانہ کا نقطۂ خیال بھی یہی ’سوار‘ ہے۔ افسانے میں ایسے ہی سوار کے گزرنے پر شور ہوتا ہے کہ اسے روک کر جو کچھ مانگا جائے گا وہ اسے حاصل ہوجائے گا۔ سوار پرُ اسرار طور پر آکر غائب ہوجاتا ہے۔
فسانے کا مرکزی کردار اس سوار کی آمد سے قبل ہی اپنے اندرون میں عجیب سی تبدیلی محسوس کرتا ہے۔ سوار کے گزرنے کے بعد اس کی داخلی کیفیات یکسر مختلف ہوجاتی ہیں اور اس کے تصورات و تخیلات پر نادیدہ سی قوت قبضہ جمالیتی ہے جس سے وہ اپنے افاعیل و حرکات اور ہوش مندی میں بحران محسوس کرتا ہے۔ لوگوں سے میل ملاقات سب عنقا ہوجاتی ہیں، وہ خاتون جس کے حسن بے پرواہ پر وہ مرمٹتا ہے اس کے دعوت وصل کے بعد بھی اس سے اجتناب کلی کرلیتا ہے اور اس کو اپنے لئے افعی تصور کرتا ہے اور آخرکار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی محبوبہ کے نام پر تخلص رکھ کر شاعری شروع کردیتا ہے اور گھر میں گوشہ نشین ہوجاتا ہے۔
اس افسانے میں انسان کے نفسیاتی عوامل کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ انسان کی نفسیاتی کشمکش کو افسانے کا موضوع بنایا گیا ہے۔ انسان اپنی جبلت و فطرت سے فرار حاصل نہیں کرسکتا۔ کردار کی مذہبی تعلیم و تربیت اس کو حسن پرستی اور عشق و محبت سے اجتناب کی تلقین کرتی ہے اور انسانی فطرت اس جانب کھینچتی ہے۔ فطری شعور اور مذہب و سماج کے مابین تطبیق کی تعدیم اور عدم توازن سے اسی طرح کی صورتِ حال پیش آتی ہے جو اس افسانے میں بیان کی گئی ہے۔یعنی انسان کی زندگی افتراق و انتشار کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے۔
تیسرا افسانہ ”ان صحبتوں میں آخر……“ میرتقی میر (پ :۲۸ مئی ۱۷۲۳۔م: ۲۲ستمبر ۱۸۰۱) کے لئے لکھا گیا ہے۔ افسانے میں میر کی زندگی، شاعری، صحبتیں، مجلسیں، عشق و محبت اور عہدِ میر اور حیاتِ میر کی جھلکیاں، میر کی عادات و اطوار، عاشق مزاجی، شعر کہنے کا ڈھنگ، شاعری کا رنگ، تُنَک مزاجی وحشتِ عشق غرض میر اپنے تمام تر خال و خد کے ساتھ اس افسانے موجود ہیں۔میر کی صورت گری فاروقی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے:
”بائیس تیئیس کی عمر، کشیدہ قامت، دبلا بدن،لیکن چوڑی کلائیاں، خمار آلود تیز آنکھیں، جو کچھ خاص بڑی تونہ تھیں، لیکن ان میں غضب کی زندگی اور چمک تھی۔ ہلکی ڈاڑھی، ٹھوڑی پر اور بھی ہلکی لیکن گھنی، چڑھی ہوئی مونچھوں کے باعث چہرہ بھرا بھرا لگتا تھا، ٹوپی یا چیرہ وغیرہ سے بے نیاز سر کے بال گھنے اور پٹے دار، بیچ میں مانگ کی روشن لکیر۔ ورنہ سارے بال سر کی پشت پر اس طرح پڑے ہوئے تھے گویا انھیں کھینچ کھینچ کر سیدھا کیا گیا ہو۔ گلے میں ہلکی بانات کا انگر کھا،اس کے نیچے اونی کرتا۔ بدن پر موٹے مشروع کا جامہ،پاؤں میں گتھیلی جوتی۔کمرمیں تیلیا رنگ کا دوپٹہ، جس سے کٹار آویزاں تھی۔“
اس افسانے میں فاروقی کی قصہ گوئی کی قوت و صلاحیت قابلِ صد رشک ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار ایک یہودی خاندان کی آخری یتیم فرد ہے۔جس کو غلاموں کے ساتھ فروخت کردیا جاتا ہے۔وہ اپنی زندگی کا سفر کیسے طے کرتی ہے، اپنے وجود کے بقا کے لئے کہاں کہاں کی خاک چھانتی ہے، کن حالات سے گزرتی ہے ان سب باتوں کو اس طور پیش کیا گیا ہے کہ کہانی کے پس منظر کی تاریخ اور تہذیب و تمدن، معاشرت اور اس وقت کے سماج کی اخلاقیات ابھر کر سامنے آجاتی ہیں۔
ایسے افسانے کی تشکیل عالمی تاریخ وادب کے ہمہ جہت وسیع مطالعے، گہرے تجربے، عمیق مشاہدے کے بعد ہی ممکن ہے۔ افسانے کی کہانی سقوطِ غرناطہ کے وقت سے شروع ہوکر میر کے عہد میں اختتام پذیر ہوتی ہے۔کہانی اتنی دلچسپ اور توجہ کشید ہے کہ ایک مرتبہ شروع کرنے کے بعد پڑھتے چلے جائیے اور فاوقی کی قصہ گوئی، تاریخ نگاری، منظر نگاری، جزئیات نگاری اور کردار نگاری پر عش عش کرتے جائیے۔
اس افسانے میں فاروقی کی علمیت ہر سطر میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔گوکہ افسانہ کا بنیادی محور لبیبہ خانم، نور السعادۃ اورمیر کی شخصیت و زیست ہے لیکن اس ضمن میں تاریخ نگاری اور تہذیب وتمدن کی جو تشکیل کی گئی اس کے لئے افسانہ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔بغیر مطالعہ کے اس کی خوبیوں کو محسوس نہیں کیا جاسکتا۔
یہ افسانہ اس مجموعے کے تمام افسانوں میں اس لئے ممیز وممتاز ہے کہ پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے فاروقی نے یہ افسانہ لکھتے وقت تخلیق کی پوری قوت کا استعمال کیا ہے۔افسانے میں زورِ بیان، شدتِ جذبات، زبان وبیان، جادو بیانی اور فاروقی کی علمیت اوج کمال پر ہے۔
چوتھا افسانہ ”آفتابِ زمیں…..“ غلام ہمدانی مصحفی (۱۸۴۲-۱۷۴۸) کی زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ مصحفی اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے اردو کے اہم اورصاحبِ طرز کلاسیکل شاعر ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنا کلام فروخت کرتے تھے۔ انھوں نے کئی لوگوں کو صاحبِ دیوان شاعر بنادیا تھا۔ لیکن اس افسانے میں اس کی تاویل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مصحفی اور انشا کی ادبی چشمکیں مشہور ہیں لیکن فاروقی نے ایک بھی اس طرح کے واقعہ کا افسانے میں ذکر نہیں کیا۔ اپنے وقت میں مصحفی کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔انھوں نے لکھنؤ اور دہلی میں زندگی گزاری اس لئے افسانے میں اس وقت کی دہلوی اور لکھنوی تہذیب و تمدن اور معاشرت کی جھلکیوں کا در آنا ناگزیر تھا۔
افسانے میں مصحفی کے ادبی مشاغل، ان کا مزاج، مسلک و مشرب پر بحث، ان کی قادر الکلامی، زود گوئی، مذہب بیزاری، خود پسندی وغیرہ سب شامل ہیں۔ گاہے محسوس ہوتا ہے کہ افسانوی رنگ کے بجائے سوانحی رنگ گاڑھا ہوتا جارہا ہے۔
افسانے میں مصحفی کی سوانح ان کی بیوہ کی زبانی بیان کی گئی ہے جن کو مصحفی کے انتقال کے بعد ان کے اپنے ہی گھر سے نکال دیا گیا تھا۔اس کے بعد انھوں نے بڑی کسمپرسی کی زندگی گزاری۔ان کی درد بھری زندگی کا نقشہ فاروقی نے بہت افسردہ انداز میں کھینچا ہے۔
پانچواں افسانہ”لاہور کا ایک واقعہ“ تجسس اور خوف سے بھر پور ہے۔ کہانی میں کردار علامہ اقبال (پ: ۹ نومبر ۱۸۷۷۔م : ۲۱ اپریل ۱۹۳۸) سے ملاقات کرنے جاتا ہے اور واپسی پر اس کے ساتھ ڈرامائی اور سنسنی خیزواقعہ پیش آتا ہے۔
وہ اس افتاد کا مقابلہ کرتا اور اس سے کس طرح نکلتاہے، یہ کہانی کا اہم حصہ ہے۔ افسانہ کی تکنیک قاری کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ کہانی کا اختتام قاری کو مزید حیرت زدہ کردیتا ہے اورقاری افسانہ پڑھ کر سوچ میں پڑجاتا ہے کہ کیا افسانہ اس طرح بھی لکھا جاسکتا؟دراصل یہ افسانہ نصف ِ اول سے کچھ زیادہ فاروقی کے حقیقی خواب پر مبنی ہے۔فاروقی نے خواب دیکھا اور اس کو کمالِ قصہ گوئی سے افسانے میں ڈھال دیا۔ اس افسانے میں بیانیہ کی سلاست و پختگی اور ڈرامائی کیفیت قاری کو باندھ لیتی ہے۔
فاروقی کی ادبی شخصییت کی تعمیر اور ان کے فکر و تخیل کی تشکیل میں عالمی کلاسیکی ادب کا بڑا حصہ رہا ہے۔داستان امیر حمزہ اور طلسمِ ہوش ربا کے مطالعے نے ان کی قوت فکر و استدلال کو مہمیز کیا ہے۔ اردو اور فارسی کے قدیم ادب کے وسیع مطالعے نے ان کو تہذیب و اقدار سے روشناس کرایا ہے۔ اسی لئے ان کے افسانوں میں تہذیب و اقدار کی وہ دھمک سنائی دیتی ہے جو دیگر افسانہ نگاروں کے یہاں مفقود ہے۔
فاروقی کی افسانوی دنیا دیگر افسانہ نگاروں سے یکسر مختلف ہے۔ انھوں نے افسانہ نگاری کے ذریعہ تاریخ وتہذیب کی بازیافت کا ایک نیا پہلو تلاش کیا ہے۔ ان کے افسانے تاریخی، تہذیبی اور تمدنی تناظر کی پختگی کی اعلیٰ مثال ہیں اور خاص پس منظر کی وجہ سے اردومیں ان کی افسانہ نگاری ایک خاص انفرادیت و اہمیت کی حامل ہے۔ کہانی کا ارتقائی عمل اور کرداروں کے شخصی ابعاد کو روشن اور مستحکم کرنے کے لیے قوت فکر و تخیل کا استعمال جس خوبی سے کیا ہے وہ صرف فاروقی کا حصہ ہے۔
ان کے افسانوں میں فرد کی زندگی کا گہرا مشاہدہ اور انسانی نفسیات کا عمیق مطالعہ پایا جاتا ہے۔یہ افسانے اپنے اندر فنی ندرت اور سماج کے شعور کے علاوہ تہذیب کا شعور رکھتے ہیں اور قاری پر دیر پا اثر چھوڑتے ہیں۔یہ افسانے اپنے تخلیقی رنگ و آہنگ کے اعتبار سے بھی اردو کے دیگر افسانوں سے مختلف ہیں۔ان افسانوں میں تہذیب و تمدن کا پہلو نمایاں ہے۔تجرباتی شدت اور مشاہداتی قوت نے بیانیہ کو اتنا پختہ کردیا ہے کہ افسانوں کی فضا فکشن سے ہٹ کر حقیقی معلوم ہوتی ہے۔
افسانوں کی تہذیبی فضا، معاشرتی اخلاقیات اور لفظیات کے استعمال نے ان افسانوں کو ادب عالیہ کے بلند درجے پر پہنچا دیا ہے۔ افسانوں میں زبان زمان ومکان اور تہذیبی و تمدنی پس منظر کی وجہ سے قدیم الایام کی ثقیل، مرصع اور پرتکلف زبان فنکارانہ طور پراستعمال کی گئی ہے۔ جو افسانوں کی اضافی خوبی ہے اور اس وجہ سے افسانوں کا ادبی وقار بلند ہوا ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ ان کے افسانوں کی عظمت کی ایک بڑی وجہ زبان کا فنکارانہ استعمال بھی ہے۔صرف ایک جملہ دیکھئے جب لبیبہ خانم رائے کشن چند اخلاص سے اشعار سنانے کی فرمائش کرتی ہے:
”کیا آپ مجھے اپنے کلام بلاغت التیام سے کچھ حظ اندوزی کا موقع عنایت فرمائیں گے؟“
ان افسانوں میں فاروقی کی کردار نگاری، منظر نگاری، تاریخ نگاری، واقعات نگاری، قصہ گوئی، پیکر تراشی، معجز بیانی، مرقع بیانی، تہذیب و تمدن کی تشکیل، زبان و بیان کی پختگی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔خاص طور پر”سوار“، ”غالب افسانہ“ اور ”ان صحبتوں میں آخر…..“ کی فضاتاریخ و تہذیب کے سحر میں ڈوبی ہوئی ہے۔ جس کا ادراک مطالعہ کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔کوئی بعید نہیں کہ بعض لوگ اس کو ”ناسٹیلجیا“ تصور کریں۔ لیکن یہ درست نہیں ہوگا کیونکہ اپنی تاریخ اور قدیم تہذیب و تمدن کو اجاگر کرنا، خود کو اس سے جوڑنا اپنی تاریخ سے محبت کرنا کسی بھی طور ماضی پرستی کے زمرے میں نہیں آتا۔
ان افسانوں میں ادبی تاریخ و تہذیب و تمدن کی جو بازگشت سنائی دیتی ہے اس سے کماحقہٗ لطف کشید کرنے کے لئے تاریخ کی تھوڑی بہت شُد بُد ہونا بہت ضروری ہے۔فاروقی نے اٹھارویں اور انیسویں صدی کا نقشہ بڑے ہی والہانہ انداز میں کھینچا ہے۔ یہ افسانے ہماری قدیم تہذیب وتمدن کے آئینہ دار ہیں۔ ان افسانوں میں تہذیب، تمدن، مذہب، عقیدہ، رواج ورسومات حتی کہ طبقاتی کشمکش اور سماجی ناہمواریاں دیکھنے کو ملتی ہیں اسی لئے ان افسانوں کی ادبی اہمیت اور تہذیبی معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
افسانوں کے زیادہ تر کردار حقیقی اور تاریخی ہیں اس لئے واقعات سچے معلوم ہوتے ہیں۔ افسانوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ قاری خود کو اسی زمانے میں جیتا جاگتا محسوس کرتا ہے اور جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے قاری پر حیرت کے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ منظر و پس منظر حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔
افسانوں کی قرا ت کے دوران ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ادبی تاریخ و تہذیب کس قدر روشن اور تابناک تھی۔
ان افسانوں میں میر، مصحفی اورغالب کی شخصیات و نظریات کی جھلک دکھا نے کے ساتھ ساتھ فاروقی نے اپنے جادوبیان اور سحرنگار قلم سے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی دہلی کی جو جھلکیاں پیش کی ہیں ان سے اس وقت کا سارا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھرجاتا ہے۔قاری خود کو انیسویں صدی میں جیتا جاگتا، دہلی کے گلی کوچوں میں بھاگتا دوڑتا، بسنت کاتہوار مناتا، بازارِ گل فروشاں کی سیر کرتا، اردو بازار میں کتابوں کی خریداری کرتا، صوفیاء کی مجالسِ ذکر میں روح کو سرشار کرتا ،اولیاء کی قبروں پر چادر چڑھاتا، روضہائے بزرگاں پر قوالیوں سے لطف اندوز ہوتا، شعرو ادب کی مجلسوں میں شعراء کی نوک جھونک سے حظ اٹھاتا، علماء دین کی محفلوں سے اکتسابِ فیض کرتا، رقص و موسیقی کی محفلوں میں سردھنتا، ہندوستانیوں پر انگریزوں کے ظلم وستم کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ان افسانوں کی ادبی اہمیت وافادیت اورتاریخی و تہذیبی معنویت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر فاروقی ان افسانوں کے علاوہ کچھ اور نہ لکھتے تو فاروقی کانام ادب میں زندہ رکھنے کے لئے یہ افسانے کافی ہوتے۔