میر تقی میر : سخن کی کارگہہ شیشہ گری کا نمائندہ شاعر

اب یہ تو یاد نہیں کہ میر تقی میر سے میرا پہلا تعارف کب ہوا لیکن اپنے ابتدائی تعلیمی دور سے ہی ان کے بہتر نشتروں کا ذکر اکثر بزرگوں سے سنتا رہا پھر جب کچھ اور سمجھ آئی اور میر کے زبان زد کلام سے کان آشنا ہوئے تو مجھے عطار کے لونڈے والا شعر بھی نشتر کی طرح چبھنے لگا۔پھر آگے بڑھے تو میر کے یہاں جنسیات اور بدن کی جمالیات کا ایک جہاں آباد نظر آیا:

وصل اس کا خدا نصیب کرے
میر دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ

وصل میں رنگ اڑ گیا میرا
کیا جدائی کو منھ دکھاؤں گا

جس جائے سراپا میں نظر جاتی ہے اس کے
آتا ہے مرے جی میں یہیں عمر سر کر

کہاں ہے گل میں صفائی ترے بدن کی سی
بھری سہاگ میں تس پر یہ بو دلہن کی سی

جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے
کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ

اب کچھ مزے پہ آیا شائد وہ شوخ دیدہ
آب اس کے پوسٹ میں ہے جوں میوۂ رمیدہ

دراصل میر کے بارے میں بقول شخصے بہت سی غلط فہمیاں در آئی ہیں ۔خصوصا٘ ان کے کلام کے سلسلے میں ایک تو یہی بہتر نشتروں والی بات دوسرے کلام میں یاسیت کی شدت ۔اس موضوع پر شمس الرحمان فاروقی نے” شعر شور انگیز ” میں ایک پورا مضمون ” چوں خمیر آمد بدست نانبا” کے عنوان سے درج کیا ہے جس میں میر کی جنسی شاعری پر ایک تفصیلی بحث کی ہے ۔اس کے علاوہ فاروقی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ:

” میر کے یہاں وہ زبان ملے گی جو وسیع ترین انسانی تعلقات کے داخلی پہلو کی نمائندگی کرتی ہے "۔

دراصل یاس انگیزی اور غمناکی کے تعلق سے ہمارے قدماء نے میر کے یہاں جو کچھ دیکھا اس سے قطع نظر ہمارے عہد کے کچھ اتاؤلے شاعروں نے بھی میر کو یاسیت کا امام بنا ڈالا ۔کسی کی دیوار میں اس لئے نمی آگئی کہ دیوار کے پیچھے کوئی میر کی غزل گا رہا تھا تو کسی کا تکیہ اس لئے بھیگ گیا کہ رات کو دیوان میر سرہانے رکھا تھا۔

"ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہتے "۔

واقعہ یہ ہے کہ میر تقی میر نے بقول فراق گورکھ پوری تقریباٗ تیس ہزار شعر کہے ہیں ۔ ان تیس ہزار شعروں میں زندگی کا ہر رنگ موجود ہے ۔ کہیں غم زمانہ کے رنگ ہیں کہیں غم جاناں کے ۔انھوں نے اگر یہ کہا ہے کہ:

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

کیا جانے چشم تر کہ مرے جی کو کیا ہوا
کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی

تو یہ بھی کہا ہے کہ:

میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

اس بات سے قطعہ نظر کہ میر کے یہاں کتنی تہہ داری ہے اور جہان معنی کے کون کون سے رنگ رقصاں ہیں دیکھنا یہ بھی چاہئے کہ ان کے شعری اثاثے میں کیفیت اور سر مستی سے عبارت اشعار کی صورتحال کیا ہے ۔یہ موضوع ہر چند کہ تفصیل طلب ہے پھر چند اشعار پیش کر کے میں اپنی بات آگے بڑھاتا ہوں

ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دئیے
بھولے اس کے قول قسم پر ہائے خیال خام کیا

پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
اور کہے تو اے گل جس سے بے برگی اظہار کریں

گل گل شگفتہ مے سے ہے کیا زرنگار دیکھ
یک جرعہ ہم دم اور پلا پھر بہار دیکھ

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا

چشم خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
ہم تو سمجھے تھے کہ اے میر یہ آزار گیا

کہا میں نے گل سے ہے کتنا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا یہ ہے

میر صاحب رلا گئے سب کو
کل وہ تشریف یاں بھی لائے تھے

منھ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
آئینہ ہے یہ حیرتی کس کا

شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے

شاعری میں عام طور پر الفاظ کی تکرار کو معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن ایک بڑا شاعر اس بظاہر عیب کو۲ اپنی تتخلقی قوت سے ہنر بنا دیتا ہے۔ میر صاحب کے یہاں بھی اس کے نمونے ملتے ہیں ۔ اوپر کے وہ اشعار جن میں الفاظ کی تکرار ہے ان کا تخلقی استعمال کیا خوب کیا گیا ہے مثلاٗ پتہ پتہ ، بوٹا بوٹا اور گل گل ۔ دھرے دھرے ۔ کم کم ۔ وغیرہ۔ اس کے علاوہ میر نے خالص بھاشا کے روزمرہ الفاظ کو بھی حرف اعتبار بخشا ہے ۔ جیسے:

رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہہں
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے
بہت

پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم بادو باراں ہے

کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہوگئی
دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہو گئی

برکیف جہاں تک میر کے بہتر نشتروں والی بات ہے تو ہمارے مرحوم دوست حبیب احمد نے اس سلسلے میں بہت سر مارا اور تمام تلاش بسیار کے بعد پتہ یہ چلا کہ خود میر نے بھی نکات الشعراء میں اپنے انتخاب کردہ دو سو اکتیس شعروں میں نشتر شعروں کا کوئی ڈکر نہیں کیا ۔ میر کے بعد جن صاحبان نقد و نظر نے کلام میر کا انتخاب کیا انھوں بھی ایسے اشعار کی کوئی نشاندہی نہیں کی۔مثلا٘ سر شاہ محمد سلیمان ۔نواب جعفر علی خاں اثر ۔مولوی عبدالحق۔ حسن عسکری ۔سردار جعفری۔ ڈاکٹرمحمد حسن ۔قاضی افضال وغیرہ کے انتخاب میں کہیں خصوصیت سے بہتر نشتر شعروں کا کوئی انتخاب نہیں ہے ۔ محمد حسین آزاد نے تو نشتر والی بات سے ہی انحراف کیا ہے ۔ان کا لہنا ہے کہ جب کوئی تڑپتا ہوا شعر پڑھا جاتا ہے تو ہر سخن شناس سے بلا مبالغہ یہی سنا جاتا ہے کہ دیکھئے یہ انھیں بہتر نشتروں میں سے ہے ۔البتہ مولانا حسرت موہانی نے ضرور اس سلسلے میں بہتر شعروں کی نشاندہی کی ہے ان کے اس خصوصی انتخاب میں مقبول اور زبان زد شعر بھی ہیں اور وہ بھی ہیں جو عام طور پر مشہور نہیں ہیں ۔جیسے:

سینے میں شوق میر کے سب درد ہو گیا
دل پر رکھا تھا ہاتھ سو منھ زرد ہوگیا

غیروں سے دے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر
پھر دیکھنا ادھر کو آنکھیں ملا ملا کر

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

کہا میں نے گل کو ہے کتنا ثبات
یہ سن کر کلی نے تبسم کیا

اب تو جاتے ہیں میکدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

دراصل مولانا حسرت کا یہ بہتر نشتروں والا مضمون جو اردوئے معلی میں ۱۹۰۲ میں شائع ہوا تھا اس میں وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ سخن فہمی کی بنیاد پر انھوں نے میر کے سارے دواوین سے منتخب کرکے یہ بہتر شعر نکالے ہیں ۔

خیر یہ تو بہتر نشتروں والی بات ہے ورنہ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میر نے لگ بھگ تیس ہزار کے قریب شعر کہے جن میں غزلیں بھی ہیں ۔مثنویاں بھی شہر آشوب بھی قصیدے بھی ۔پھر یہ بھی ہے کہ شعر ان کے لاکھ خواص پسند ہوں ان کے مخاطب عوام سے بھی رہے ہے ۔ چنانچہ عوام کی دلچسپی کے لئے انھوں نے وہ مضامین بھی نظم کئے جن سے عام عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہو سکے ۔ جہاں تک اس عہد کے عوامی مذاق کا معاملہ ہے تو میر صاحب کی زندگی کا بیشتر حصہ خود عوامی رہا ہے وہ نہ کسی نواب خاندان کے داماد تھے اور نہ قلعہ معلی کے منصب دار ۔انھیں ترک وطن بھی کرنا پڑا آگرہ چھوڑ کر دہلی آئے یہاں فقیروں اور صوفیوں کی صحبتوں میں بھی رہے شہزادوں اور رئیسوں کے درباروں میں بھی حاضری دی ۔ دلی کو اجڑتے بھی دیکھا اور بادشاہ کی آنکھوں میں سلائیاں پھرتے بھی دیکھیں۔تاریخ شاہد ہے کہ میر کے عہد میں دہلی سے پنجاب تک جو سیاسی اتھل پتھل اور اس کے نتیجے میں جو خوں ریزیاں ہو رہی تھیں اس میں کیا عوام اور کیا خواص سب ہی پس رہے تھے میر صاحب جن کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ دہلی میں گزرا ۔ وہ بھی ان حالات کا شکار ہوئے ایسے میں اگر انھوں نے خوں رنگ شاعری کی تو کوئی تعجب نہیں ۔۔

ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد وغم کتنے جمع کئے تو دیوان کیا

پھر یہی دل شکستہ میر صاحب جب اپنی عمر کے آخری حصہ میں لکھنؤ آتے ہیں تو نواب آصف الدولہ کی تعیش پسند طبیعت کے سبب انھیں یہاں ہر طرف آسودگی نظر آتی ہے ۔ان کی فکر میں ایک قسم کا ٹہراؤ پیدا ہوتا ہے ۔ تصوف آشنا تو تھے ہی عمر اور ماحول نے طبیعت میں استغنا پیدا کر دیا ہو تو کوئی تعجب نہیں ۔ایسے میں انھوں نے اگر اپنےکمرے کی کھڑکی کھول کر یہ بھی نہ دیکھا ہو کہ باہر ایک خوبصورت باغ بھی ہے تو اس میں حیرت کیا ۔۔

ان سب کے باوجود میر ان خوش نصیب شاعروں میں ہیں جن کا کلام ہر دور عزت و توقیر کی مسند پر جلوہ افروز نظر آتا ہے

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

اشتراک کریں