مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک ظہیر الدین بابر کے ذریعہ قائم کی گئی برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک وسیع مسلم سلطنت تھی، مغلیہ دور نے برصغیر میں کئی تبدیلیاں اور نئے رحجانات کو جنم دیا۔ اردو زبان و ادب میں بھی اس عہد کا اثر نمایاں رہا۔ مغل سلطنت میں جہاں فارسی اور عربی کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا، وہیں اردو نے بھی اپنی بنیادیں مضبوط کیں۔ مغل حکمرانوں کی سرپرستی نے اردو ادب کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ دور اردو زبان کے عروج اور اس کی ادبی و ثقافتی ترقی کا بھی گواہ ہے۔
مغلیہ دور میں اردو کی ابتدائی تشکیل
مغلیہ دور میں مختلف زبانوں کا میل جول اور آپس میں ملاپ ہوا جس سے ایک نئی زبان وجود میں آئی۔ اس نئی زبان کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا گیا، جیسے کہ ریختہ، ہندی، دکنی، اور آخر کار اسے اردو کہا گیا۔ مغل دور میں فارسی زبان کا غلبہ تھا لیکن عوامی سطح پر مختلف مقامی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ اردو نے فارسی، عربی اور ترک زبانوں کے الفاظ کو اپنے دامن میں سمیٹ کر اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی۔
مغل شہنشاہوں کی اردو ادب میں دلچسپی
مغل بادشاہوں نے ادب کی سرپرستی کی اور خود بھی ادبی سرگرمیوں میں دلچسپی لی۔ ان کے درباروں میں شعراء، ادباء، اور علما کو خاص مقام دیا جاتا تھا۔ اکبر، جہانگیر، اور شاہجہان جیسے حکمرانوں نے ادب اور فنون لطیفہ کو فروغ دیا۔ مغل دربار کے ماحول میں فارسی زبان کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی بھی اہمیت بڑھنے لگی۔ اس عہد میں فارسی میں لکھی گئی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا گیا، جس سے اردو زبان کا دائرہ وسیع ہوا۔
اردو شاعری پر مغلیہ اثرات
مغلیہ دور میں اردو شاعری نے ایک نیا موڑ لیا۔ اس دور میں شاعری کو عام لوگوں میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور اردو زبان میں شاعری کا آغاز ہوا۔ مغل دربار میں فارسی شعرا اور ادیبوں کی موجودگی نے اردو شاعری پر فارسی اثرات کو بڑھاوا دیا۔ اردو زبان میں غزل، قصیدہ، اور رباعی جیسی اصناف نے جگہ بنائی۔
ولی دکنی کو اردو غزل کا بانی سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے اردو شاعری میں فارسی انداز کو فروغ دیا۔ اس کے بعد میر تقی میر اور سودا جیسے شاعروں نے اردو شاعری کو مزید بلند مقام دیا اور اردو غزل کو عوام میں مقبول بنایا۔ ان کی شاعری میں سادگی، جذبات، اور روزمرہ زندگی کی عکاسی پائی جاتی ہے جو آج بھی دل کو چھو لینے والی ہے۔
داستان گوئی اور نثری ادب
مغل دور میں داستان گوئی کو بھی عروج حاصل ہوا۔ یہ لمبی داستانیں سننے اور سنانے کا رواج تھا جن میں ’داستان امیر حمزہ‘ اور ’قصہ چہار درویش‘ مشہور ہیں۔ ان داستانوں میں انسانی جذبات، بہادری، اور جادوئی کہانیاں بیان کی جاتی تھیں۔ مغلیہ دربار میں قصہ گو حضرات کی اہمیت تھی اور وہ حکمرانوں اور عوام کو اپنی کہانیوں سے محظوظ کرتے تھے۔ ان داستانوں نے اردو نثری ادب کو بہت زیادہ متاثر کیا اور آنے والی صدیوں تک یہ روایت برقرار رہی۔
اردو زبان کی شناخت اور مغلیہ دور
مغلیہ دور میں اردو زبان نے نہ صرف ترقی کی بلکہ اسے ایک شناخت بھی ملی۔ مغل حکمرانوں کے دور میں اردو زبان کو دہلی اور شمالی ہند کے مختلف علاقوں میں بولا اور سمجھا جانے لگا۔ فارسی زبان کے اثرات کے ساتھ ساتھ اردو زبان نے مقامی بولیوں اور دیگر زبانوں کے الفاظ کو بھی اپنایا، جس نے اس کی ساخت اور مٹھاس میں اضافہ کیا۔ مغل دربار کے ادبی ماحول نے اردو کو عوامی زبان سے ادبی زبان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اختتامیہ
مغلیہ دور میں اردو ادب نے جڑیں مضبوط کیں اور آنے والے وقت کے لیے ایک مستحکم بنیاد فراہم کی۔ یہ عہد اردو زبان و ادب کی ترقی کا ایک سنہری دور رہا۔ مغل حکمرانوں کی سرپرستی، دربار کے شعرا اور ادبا کی کاوشیں، اور فارسی زبان کے اثرات نے اردو ادب کو ایک منفرد مقام دیا۔ آج بھی اردو ادب میں مغلیہ دور کی جھلکیاں واضح ہیں اور اس دور کی ادبی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔