ماضی میں واقع حالات کا سلسلہ وار بیان تاریخی دستاویز کہلاتا ہے، اور اس دستاویز کی علمی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ اس کو من و عن بیان کردیا جائے جیسا کہ ایک آئینہ اپنا کام کرتا ہے وہ صورت کی وہی عکاسی کرتا ہے جو حقیقت میں ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرتا، اس کو اس بات کا خوف نہیں ہوتا کہ وہ اپنے مالک کے عیوب کو چھپا کر اس کے محاسن کو پیش کردے؛ بلکہ جیسے وہ عیوب کو نمایاں کرتا ہے تو خوبیوں کو بھی عیاں کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کسی کتاب یا مضمون – چاہے اس کی فنی حیثیت جو بھی ہو- کے محاسن و معائب کو باہر نکال کر علمی دنیا کے سامنے پیش کرنے کا نام اصطلاح میں نقد اور اس کا فاعل ناقد یا نقاد کہلاتا ہے۔ اب نقاد کا دل بھی آئینہ کے مانند ہونا چاہیے، جہاں اس کے لئے کھلے دل اچھائیوں کا اعتراف کرنا ضروری تو عیوب کو بیان کرنے میں شخصی اقدار کو ملحوظ رکھنا بھی ناگزیر ہے؛ بلکہ یوں کہا جائے کہ اس کے ایمان کا حصہ ہونا چاہیے تو مبالغہ نہ ہو۔ اب چاہے وہ دوست کی بات ہو یا دشمن کی، سچائی سے کنارہ کش ہو کر تصویر کی غلط عکاسی نقد کے اصول سے کلی انحراف ہوگا، اور شخصی اقدار کو نشانہ بنانا تہمت ہوگی۔اگر کوئی مؤرخ تاریخ بیان کرنے میں عقیدت کے پہلو کو ملحوظ رکھتا ہے تو تاریخ نہیں عقیدت بیانی ہے، اور اگر کوئی ناقد نقد کرنے میں بھکتی کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے، اور شخصی اقدار کا خیال نہیں کرتا، اور غیر سنجیدہ اسلوب اختیار کرتا ہے، اور غیر معتبر دستاویز پر اپنے نقد کی بنیاد رکھتا ہے تو یہ اندھ بھکتی ہے۔ بھکت اور معتقد کو اپنے ممدوح کی ہر برائی اچھی لگتی ہے اور رقیب کی ہر اچھائی بری لگتی ہے، عشق و عقیدت کا یہی فلسفہ ہے جس کا نقد سے کوئی تعلق نہیں۔ ٹھیک یہی حیثیت تقابلی مطالعہ کی ہے جس طرح سے سکے کے دو رخ ہوتے ہیں اور دونوں رخوں کے دیکھے بغیر سکے کی پہچان اور صحیح شناخت نہیں ہو سکتی، اس طرح تقابلی مطالعہ میں دونوں پہلوؤں پر نظر کئے بغیر صرف عقیدت کی بنیاد پر کسی کی رائے کو اصل الاصول کا درجہ دے دینا اور دوسرے کی رائے کو دیکھے اور پرکھے بنا رد کردینا یقیناً منصب مزاج کا طرہ امتیاز نہیں ہو سکتا ہے۔ موجودہ دور میں نقد کی ایک دوسری شکل بھی ہے جس میں اصل موضوع سے ہٹ کر دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے، جہاں دلائل اور حوالے کتاب اور دستاویز نہیں ناموس و عزت ہوتی ہے، جہاں لفظی ہیر پھیر کا جادو چلتا ہے، جہاں پرانے اختلاف کو نمایاں کیا جاتا ہے، جہاں مسلکی کردار کو بنیاد بنایا جاتا ہے، نقد کی یہ قسم سب سے مقبول و معروف ہے۔
تاریخ کو مسخ کرنے اور اس میں عقیدت کو گھسانے کا کام کوئی نیا نہیں ہے، جس کو جہاں موقع ملا فائدہ اٹھانے سے گریز نہیں کیا، اور نتیجتا منصف تقابلی مطالعہ میں بات ظاہر ہو ہی جاتی ہے، پھر تو مخالفین و موافقین کی زبانیں دراز ہوکر ایک دوسرے کی عزت تک پہونچ جاتی ہیں۔ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب تنقیدی اصولوں کا حوالہ دینے والے، اخلاقی اقدار سکھانے والے اس قضیہ نا مرضیہ میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ یہ المیہ صرف حال کا نہیں بلکہ ماضی کا دامن بھی اس سے داغدار ہے، ہو سکتا ہے ماضی، حال کے مقابلے خیر القرون قرار پائے کہ ان میں دلی کدورت پائیدار نہیں تھی اور باہمی ملاقات میں اخلاص کا درجہ ناپید نہیں ہوتا تھا۔ مگر موجودہ دور میں اخلاص، اخلاق کے ساتھ تحقیقی مزاج بھی ناپید ہو گیا ہے، زبان و قلم دشنام طراز ہو گئے ہیں، اور اپنے من کی بات ہی قابل قبول معلوم ہوتی ہے، چاہے سچائی سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ واقعات کے اس پہلو کو جو فکر و نظر سے ہم آہنگ ہو قبول کر لینا، اور جن سے فکری اختلاف ہو رد کر دینا شیوہ اہل خرد بن گیا ہے۔ کسی کی پگڑی اچھالنا، کسی کی عزت سے کھلواڑ کرنا روز مرہ کے معمولات ہیں جس میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی۔
جی تو چاہ رہا تھا کہ اپنی بات کی توثیق میں کچھ مثالیں ذکر کی جائیں مگر ماہر القادری کے ایک تبصرے کا اقتباس ذکر کرنے میں ہی عافیت سمجھی، اس اقتباس کے تناظر میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئیے، اور اپنی خودی کا امتحان لینا چاہیے۔
ماہر القادری صاحب نے جوش ملیح آبادی کی سوانح حیات "یادوں کی برات” پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنا تنقیدی مسلک کچھ یوں بیان کیا تھا:
"۲۳ سال کی مدت میں ہمارے قلم سے ڈھائی ہزار سے زائد کتابوں پر "فاران” میں تبصرہ ہوا ہے۔ جہاں تک ہمارے امکان میں تھا ہم نے ہر کتاب کو پورے غور و خوض سے پڑھا اور دیانت کے ساتھ اس پر رائے کا اظہار کیا۔ کسی مصنف، مترجم، مؤلف یا شاعر و ادیب کے ساتھ ہم نے زیادتی نہیں کی۔ ہر کتاب کے محاسن و معائب کے دونوں رخ نمایاں کردیئے۔ متعدد اہل قلم اور مصنفین و شعرا نے نہ صرف یہ کہ ہماری تنقید کو گوارا فرمایا بلکہ ان کمزوریوں کا جن ہر ہم نے گرفت کی تھی دل سے اعتراف کیا۔ ہاں وہ حضرات جو صرف تحسین و ستائش کی توقع رکھتے تھے ہم سے ناراض ہو گئے۔ احتساب و تنقید کو گوارا کرنے کے لئے بڑے ظرف و تحمل اور دل گردے کی ضرورت ہے۔” (یاد رفتگاں ص 11)
یہ تو انصاف کی بات ہے اور نقد کی روح بھی ہے، رہا سوال فکری کج روی، ذہنی پراگندگی، اور دریدہ دہنی کا تو نہ اس کا تعلق نقد سے ہے اور نہ ہی سچائی سے، وہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر حق نہیں۔
خیال و فکر کی شیشہ گری میں کچھ
یقیں نہ ہو تو فقط آگہی میں کچھ بھی نہیں
(ماہرالقادری)