دعوت طعام کی موجودہ شکل- ایک جائزہ 

دنیا میں کوئی ایسی مخلوق ہے ہی نہیں جو اکل و شرب پر منحصر نہ ہو کھانا پینا ہر ایک کی ضروریات زندگی کا لازمی حصہ ہے جس کے بغیر نہ تو کوئی زندہ رہ سکتا ہے اور نہ ہی مفوضہ امور کو بحسن و خوبی انجام تک پہنچا سکتا ہے اس ناحیہ سے اگر دیکھا جائے تو دنیا کی ساری تگ و دو، دوڑ و دھوپ، جدوجہد اور محنت و جفا کشی کا حاصل اکل و شرب ہی ٹھہرتا ہے یہ الگ ایک بات ہے کوئی اس میں حد سے تجاوز کر جاتا ہے تو کوئی بخل و کنجوسی سے کام لیتا ہے جبکہ اللہ کا فرمان ہے كلوا واشربوا ولا تسرفوا اور دوسری جگہ فرماتا ہے:

وَلَا تَجۡعَلۡ یَدَكَ مَغۡلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبۡسُطۡهَا كُلَّ ٱلۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُومࣰا مَّحۡسُورً [الإسراء ٢٩]

بہرحال انس وجن چرند وپرند اور درند حتی کہ چونٹی سے لے کر طویل القامت اور عظیم الجثہ حیوان سب کو کھانے پینے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات چونکہ تہذیب و تمدن سے عاری اور ثقافت وحضارت سے نابلد ہوتی ہیں اس لیے ان کے یہاں کھانے پینے کا کوئی اصول و ضابطہ نہیں جسے بروئے کار لا کر وہ کھانے پینے کا عمل انجام دیں یہ صرف حضرت انسان کا خاصہ ہے اسی لیے اللہ نے اصول اور تہذیب و طریقہ سے نہ بلد کھانے پینے والوں کو بہائم و انعام کے زمرے میں شمار کیا اور کہا:

وياكلون كما تاكل الأنعام
اور وہ ایسے کھاتے ہیں جیسے جانور کھاتے ہیں

انسان جیسے جیسے ترقی کے منازل طے کرتے رہا اسی طرح بود و باش، معاشرت اور خورد و نوش سبھی میں تبدیلی آتی گئی ایک وقت تھا جب لوگ زمین اور فرش پر بیٹھ کر کھانے کو ترجیح دیتے تھے کھانے کے برتن اور لوازمات بھی مختلف و متنوع اور مٹی وغیرہ کے تھے چونکہ لوگوں میں خاک ساری تھی اور تہذیب و تمدن کی چمک دمک اور مغرب کی ہوا ابھی ان تک نہیں پہنچی تھی اس لیے وہ اسی طرح زمانے اور ماحول کے مطابق کھاتے تھے لیکن سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی معاشرت اور طرز بود و باش میں بھی ترقی ہوئی. لہٰذا اب فرش کے بجائے کرسیوں اور بڑے برتنوں کے بجائے اعلی قسم کے مختلف ومتنوع ظروف میں کھانے پینے کا نظم و نسق شروع ہوا اور فرش پر بیٹھ کر کھانا حقیر و کمترین لوگوں کی نشانی ٹھہری.

پھر لوگوں نے ترقی کی تو کھڑے کھڑے اور چل کر کھانے کا چلن عام ہوا جس کو لوگ معروف زبان میں بفر سسٹم کہتے ہیں حالانکہ یہ طریقہ حیوانوں سے حد درجہ مشابہ اور ان کی نقل ہے جس میں کھانے وغیرہ کا نقصان بھی بہت زیادہ ہوتا اور خطیر رقم بھی خرچ ہوتی ہے لیکن ذہنی غلامی انسان سے سوچنے اور سمجھنے کا ملکہ سلب کر لیتی ہے. اور پھر وہی ہوتا ہے جس کو اقبال نے کہا تھا ۔ ع

جو نہ تھا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

اسی طرح دعوت طعام میں جہاں بہت ساری خرابیاں اور عیوب و نقائص ہاتھی دانت کے مانند نظر آتے ہیں اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کا وقت سے قبل پہونچنا اور کھانے کے بعد صاحب طعام کی مجبوریوں سے قطع نظر وہاں دیر تک فروکش رہنا. جو سراسر اسلامی تعلیمات کے منافی اور اصول دعوت اکل و شرب کے خلاف ہے کیونکہ جب اللہ کے نبی نے حضرت زینب سے نکاح کے بعد ولیمہ کیا اور بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعد ازخورد وہاں بیٹھے رہے تو اللہ نے ناپسند کیا اور قران میں اس طریقہ اور عادت کا رد نازل فرمایا اور کہا مفہوم ترجمہ: جب کھا لو تو وہاں سے چل پڑو۔ وہاں بیٹھ کے بات چیت مناسب نہیں۔

اللہ کے اس حکم کو دیکھیں اور دوسری طرف حالات مسلمین کا نظارہ کریں

اللہ تو کہتا ہے:

وَلَـٰكِنۡ إِذَا دُعِیتُمۡ فَٱدۡخُلُوا۟ فَإِذَا طَعِمۡتُمۡ فَٱنتَشِرُوا۟ وَلَا مُسۡتَـٔۡنِسِینَ لِحَدِیثٍۚ [الأحزاب ٥٣]

یہی نہیں بلکہ دعوت اکل و شرب وغیرہ میں لوگوں کی اشتہا اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ سارے اداب و اصول بالائے طاق رکھ دیتے جسے بروئے کار لا کر کھانا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے.

ہوتا یہ ہے کہ ایک ہی میز پر دو چار چھ لوگ ایک ساتھ بیٹھتے ہیں میزبان ابھی پیالہ یا کھانے کا ظرف لا کر رکھتا ہے کی اس سے پہلے چھینا جھپٹی اسی طرح شروع ہو جاتی ہے جیسے جانوروں کے مابین جب کوئی چیز بالخصوص بندوں کے درمیان کھانے کی کوئی چیز پیش کی جائے تو ان میں کا ہر ایک کھانے کو لپک لیتا ہے اس بات سے قطع نظر کی ان میں کا کمزور پائے گا بھی کہ نہیں بالکل یہی نظارہ اور کیفیت ہوتی ہے.تہذیب و تمدن کے نام لیوا حضرات انسان کی محفل اکل و شرب میں جب کہ نبی پاک کی حدیث بالکل ان تمام حرکات کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھتی ہے نبی تو تنہا اور جماعت میں کیسے کھانا ہے اس کی پوری کیفیت بیان کر دی ہے لیکن کھانے کی طلب و شہوت حدیث رسول پر غالب آجاتی ہے۔

اس طرح دعوت اکل و شرب میں شریک ہونے والے حضرات میں بہت سارے لوگ کھانے میں کمی اور نقص نکال کر صاحب طعام کی مٹی پلید کرتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ پتہ نہیں کیسے اور کس طرح کھانے کا انتظام کیا ہوگا اس شخص نے.

حالانکہ وہی انسان اپنے گھر میں نمک روٹی اور نہ جانے کتنے کم معیار کے کھانے تناول کرتا ہے لیکن جوں ہی کسی دعوت میں شریک ہوا اس کے اندر کا انا اور حرص و طمع کا جن باہر آجاتا ہے. بالخصوص جب وہ غیر شرعی طریقے سے کسی دعوت میں جائے جیسے بارات وغیرہ جہاں انواع و اقسام کے طعام و شراب کی بہتات اور موجودگی سے میز بوجھل اور میزبان رنجیدہ و کبیدہ خاطر ہوتا ہے۔

حالانکہ نبی کی سنت ہے:

ما عابَ النبيُّ ﷺ طَعامًا قَطُّ، إنِ اشْتَهاهُ أكَلَهُ، وإنْ كَرِهَهُ تَرَكَهُ.

الراوي: أبو هريرة • البخاري، صحيح البخاري (٥٤٠٩) • [صحيح] • أخرجه البخاري (٥٤٠٩)، ومسلم (٢٠٦٤)

رسول الله صلى الله عليه وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا اگر وہ کھانا پسند ہوتا تو کھا لیتے اور اگر ناپسند ہوتا تو اسے چھوڑ دیتے۔

جبکہ ہم مسلمانوں کاطرز عمل اس اسوہ حسنہ کے برعکس ہے ہم کھانوں کے ذائقے میں ذرا سی کمی اور بیشی پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور ایک طوفان برپا کر دیتے ہیں.

کاش ہم اپنے پیغمبر علیہ السلام کے اسوہ حسنہ کو اپنا سکیں۔ (ریاض الصالحین 12/ص618)

اس کے علاوہ بہت ساری ایسی کمیاں ہیں جس کا اس چھوٹی سی تحریر میں احصاء ممکن نہیں

اللہ ہم سب کو سنت نبی پر عمل کرنے والا بنائے۔ امین

بقلم عبدالمبین محمد جمیل سلفی ایم اے اردو

اشتراک کریں