ایک مسلمان کا بحیثیت مسلمان اس بات پر یقینِ كامل ہے کہ اسلام ایک ایسا ضابطہ حیات ہے جو بالکل کامل اور فطرت کے عین مطابق ہے، جسے ایک عقلِ سلیم نہ صرف یہ کہ قبول کرتی ہے بلکہ اسے عملی شکل دینے میں ایک طرح کا روحانی سکون محسوس ہوتا ہے۔
اسلام ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہے جو پاکیزہ اور پرسکون ہو، ایسے معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لئے جو بھی مناسب اصول اور قوانین ہو سکتے ہیں یہ سبھی قوانین اس کے دامن میں موجود ہیں۔
اسی قبیل کا ایک قانون ہے خواتین کے لئے اسلامی پردے کا ۔
پردہ کی شرعی حیثیت
اسلام میں پردے کا شرعی حکم عورت کی عزت و تکریم اور اس کے وقار کو بڑھانے اور اس کے ناموس کی حفاظت کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد عورتوں پر پابندی لگانا یا انہیں مردوں سے کمتر دکھانا ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ حکم ان کو معاشرے کے برے عناصر سے مامون و محفوظ رکھنے کے لیے ہے تاکہ عورت پرسکون ماحول میں رہ کر اپنے خاندان اور معاشرے کی تعمیر کے اہم ترین فرائض کو اسلامی نہج پر پورا کرسکے۔
رسول رحمت ﷺ کے مبعوث ہونے سے پہلے اس اس مہذب دنیا میں عورت کی توہین، ذلت اور استحصال کے جو انتہائی شرمناک مناظر اور ظلم و ستم کی وحشت ناک اور دل دہلادینے والی کہانیاں موجود ہیں، جسے کوئی بھی مہذب، شائستہ اور باشعور انسان سننے کی بھی تاب نہیں رکھتا، اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے۔ لیکن ہاں یہ ضرور کہیں گے کہ آج عورت کی عزت، وقار، حقوق اور مساوات کی جو بات کی جاتی ہے وہ صرف اور صرف اسلام کی دین ہے۔ یہ اسلام ہی کی دَین ہے کہ جس نے حجاب کی شکل میں عورتوں کو عفت وعصمت کی چادرعطا فرمائی اور بے حیائی وبے شرمی کے تمام دروازوں کو بند کردیا، جس کے ذریعہ نفس وشیطان کے بچاریوں کی ناپاک نظروں اور ہوس پرستوں کی ہوسناکیوں پر لگام کَسی گئی اور عورتوں کے تحفظ کا مکمل سامان فراہم کیا گیا، لیکن ہر دور میں حجاب لوگوں کی نظروں میں کھٹکتا رہا، چادر عفت کو تار تار کرنے، بے حیائی وعیاشی کو فروغ دینے کی کوشش مغرب نے ہمیشہ کی، کبھی حقوق نسواں کے نام پر، کبھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کے نام پر تو کبھی مساوات مردوزن کے نام پر برقعہ وحجاب کو ٹارگٹ کیا جاتا رہا، اسی قسم کی ایک ناپاک کوشش ابھی چند مہینوں قبل ریاست کرناٹک کے اڈپی کالج پھر کندا پور کے گورنمنٹ کالج میں کی گئی کہ جہاں مسلم باحجاب لڑکیوں کو کالج میں داخل ہونے سے روک دیا گیا، لیکن بھلا ہو وہاں کی باحجاب، عزت دار، باہمت لڑکیوں کا کہ انہوں نے کلاس کے باہر ہونا تو گوارا کیا لیکن اسلامی شناخت ، عزت وعفت کی محافظ چادر کو نکالنا گوارا نہیں کیا۔ یہ اور اس قسم کے واقعات کوئی نئے نہیں ہیں، بلکہ ہردور میں حجاب دشمنوں کی نظروں میں کھٹکتا رہا اور اس پر پابندی لگانی کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ہے ۔
یہاں اس کے سیاسی پس منظر پر گفتگو کرنے کا محل نہیں ہے بلکہ اسلام میں حجاب کی اہمیت اور ناموسِ خواتین کے تحفظ میں حجاب کے غیر معمولی کردار پر ہلکی سی روشنی ڈالیں گے۔
پردہ کے دلائل قرآن و سنت میں
پردہ وحجاب کے متعلق قرآن مجید میں سات آیات اور احادیث میں ستر روایات موجود ہیں جس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پردہ اسلامی تہذیب کا حصہ ہے، اور یہ حجاب ناموسِ نسواں کے تحفظ کا ضامن ہے،
جن آیات میں پردے کے احکامات تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ان میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ مسلم خواتین اپنی عفت اور پاکدامنی کی خاطر زیادہ تر اوقات اپنی خانگی ذمہ داریوں میں مصروف رہیں اگر گھروں سے باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو آرائش زیبائش سے حد درجہ پرہیز کرتے ہوئے تمام حدود کی رعایت کے ساتھ گھروں سے باہر نکل سکتی ہیں۔
قرآن میں پردے کے لئے کئی الفاظ استعمال ہوئے ہیں سورہ احزاب آیت نمبر ۵۳ میں اس کے لئے حجاب کے لفظ کا استعمال ہوا ہے :
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ
جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو۔ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے کامل پاکیزگی یہی ہے،
سورہ احزاب آیت ۵۹ میں ارشاد ہے:
یا ایھاالنَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.
اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتیں سے کہہ دو کہ وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی، اور اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے۔
یہ آیت کریمہ پردہ کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیات میں بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لئے کہ اس آیت میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بتلادیا گیا ہے کہ پردہ کے حکم میں چہرہ کا ڈھانکنا بھی شامل ہے، پردہ حجاب سے الگ نہیں ہے بلکہ اسی کا حصہ ہے، اس آیت کا حکم صرف ازواج مطہرات یا بنات رسول ﷺ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام مسلمان عورتوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے ۔اس میں بنیادی طور پر ”جلباب“ کا لفظ آیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے بہ قول ”جلباب“ اس چادر کوکہاجاتاہے جواوپرسے لے کر نیچے تک پورے جسم کو چھپائے ۔(روح المعانی: ۱۱/۲۶۴)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
أمر الله نساء المؤمنين إذا خرجن من بيوتهن في حاجة أن يغطين وجوههن من فوق رءوسهن بالجلابيب ويبدين عينا واحدة.
یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنین کی عورتوں کو یہ حکم فرمایا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو چادروں کے ذریعے اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے ڈھانپ لیں اور صرف ایک آنکھ کھولیں۔
حضرت ام سلمہ ؓفرماتی ہیں کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی توانصار کی خواتین اپنے گھروں سے اس طرح نکلیں کہ گویا ان کے سر اس طرح بے حرکت تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور ان کے اوپر کالا کپڑاتھا، جس کو وہ پہنی ہوئی تھیں۔ (فتح القدیر: ۴/۳۵۲)
سورہ نور آیت ۳۱ میں ارشاد ہے
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ﻇاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ﻇاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنےظاہر نہ کریں۔ حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اور حضرت میمونہؓ نبی ﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ اسی اثناء میں حضرت ابن ام مکتومؓ آگئے، یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ حجاب کا حکم نازل ہوچکا تھا نبی ﷺ نے فرمایا:
"احتجبا منه”
ان سے پردہ کرو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ یہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی پہچان سکتے ہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا:
"أوعمياوان أنتما؟ أولستما تبصرانه؟”
تو کیا تم دونوں بھی نابیناہو؟ کیا تم دونوں انہیں نہیں دیکھ رہی ہو؟۔ أبوداود: ۴۱۱۲، والترمذي: ۲۷۷۸،مسند احمد:۲۵۳۷۰
اس حدیث سے اندازہ لگائیے کہ عورتوں کا نامحرم بینا مردوں سے حجاب کرنا کتنا ضروری ہے، آپ ﷺ تو نابینا مرد سے بھی پردہ کرنے کے اہتمام کی تلقین فرمارہے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ
كُنَّ نِسَاءُ الْمُؤْمِنَاتِ يَشْهَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ ثُمَّ يَنْقَلِبْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ حِينَ يَقْضِينَ الصَّلَاةَ لَا يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنْ الْغَلَسِ
مومن عورتیں فجرکی نماز نبی ﷺ کے ساتھ پڑھا کرتی تھیں پھر اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی (اپنے گھروں کو) واپس لوٹتی تھیں کہ انہیں کوئی بھی نہیں پہچانتا تھا۔ (مسلم:۱۴۵۷)
اس حدیث سے معلوم ہوتا کہ صحابیات چہرہ کو حجاب سے ڈھانکنے کا اس قدر اہتمام فرماتی کہ لوگ ان کو پہچان نہ پاتے۔
اس کے علاوہ بے شمار روایات موجود ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرات صحابیہ کا معمول پورے جسم کا پردہ کرنا تھا ،چہرہ بھی لوگوں کے نزدیک پردہ میں داخل تھا۔
عہد نبوی میں ازواج مطہرات وصحابیات کس قدر پردے کا اہتمام کرتی تھیں اس کا انداز و اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جس کو امام ابوداؤد نے اپنی کتاب ’’سنن ابی داؤد کتاب الجھاد میں بیان کیا ہے کہ ام خلاد نامی ایک صحابی جن کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہو گیا تھا وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لئے اس حال میں پہونچیں کہ ان کے چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی ، بعض صحابہ نے تعجانہ انداز میں کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب پڑھی ہے جب کہ ایک ماں کو اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر سن کرتن بدن کا ہوش نہیں رہتا تو وہ خاتون بولیں”لأن ارزا ولدى فلن ارزا أحبائي ‘‘ یعنی میں نے بیٹا تو کھویا ہے اپنی حیا نہیں۔
جس وقت آپ ﷺ! نے عورتوں کو حکم دیا کہ وہ بھی عید گاہوں میں جائیں تو وہ کہنے لگیں کہ اے اللہ کے رسول ہم میں سے بعض کے پاس چادر نہیں ہوتی۔ تو حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس چادر نہ ہو اسے کوئی دوسری بہن چادر دے دے۔ گویا آپ ﷺ نے عورتوں کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ چادر اوڑھے بغیر عیدگاہ تک بھی جائیں۔ حالاںکہ وہاں جانے کا حکم مردو عورت سب کو ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ایسے کام کے لیے جس کی اجازت شرع نے دی ہے بغیر چادر اوڑھے باہر نکلنے کو ممنوع قرار دیا تو ایسے کاموں کے لیے بغیر چادر اوڑھے باہر نکلنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے جن کا نہ شرع میں حکم ہے اور نہ ہی ان کی کوئی ضرورت ہے بلکہ بے مقصد بازاروں، ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں گھومنا پھرنا، مردوں کے ساتھ خلط ملط رکھنا اور تماش بینی کرنا یہ سب بے حیائی، فحاشی اور جنسی بے راہ روی کو بڑھاوا دینے اور فساد فی الارض بننے کا ذریعہ ہیں۔
خلاصہ کلام
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حجاب بے شمار برائیوں اور بے حیائی کے انگنت کاموں سے بچاتا ہے ، اہل مغرب کی تقلید میں نام نہاد روشن خیال لوگ اس کو معیوب سمجھتے ہیں اور اس کوخواتین کے لئے قید اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں،حالاں کہ تعلیم میں پردہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، حجاب کبھی بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت نہیں ہوا، باحجاب خواتین کی ایک طویل فہرست ہے کہ جنہوں نے پردہ میں رہ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ملک وقوم کے نام کو روشن کیااور آج بھی نمایاں عہدوں پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وقتی پابندیوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمت وحوصلہ کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔