مولانا حسین آزاد وہ پہلے تنقید نگار ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور سے اردو کو تنقید سے آشنا کیا، شعراء کے کلام کو تنقید کے اصولوں معیاروں اورکسوٹیوں پر پرکھا، تذکرہ اور تاریخ جیسے خشک و بے مزہ موضوع کو لے کر انشا پردازی کے قلم سے تمثیل کے انداز میں تنقیدی رائیں دیں اور تبصرے کئے۔
مولانا محمد حسین آزاد کے سامنے اردو میں تنقید کا کوئی قابل تقلید نمونہ نہیں تھا۔ اس لئے بحیثیت تنقید نگار انہیں خود ہی اپنی ذبانت مطالعہ اور فارسی و انگریزی کی تنقیدوں کا سہارا لیتے ہوئے سب کچھ کرنا پڑا۔ لیکن ان کی تحریروں کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مغرب سے استفادہ کے با وجود مشرقی اصول شعریات کو نظرانداز نہیں کیا۔ بلکہ مشرقی اصول نقد ہی ان کے ذہن میں معیار بنے
بات اس وقت کی ہے جب حالی کی مقدمہ شعر و شاعری کا کوئی وجود نہ تھا آزاد نے شاعری پر ایک لیکچر دیا اور کئی اہم مسائل پر روشنی ڈالی۔ یہ ۱۸۶۷ء کی بات ہے۔ اس لکچر کو ذہن میں رکھتے ہوئے آزاد کی مشہور کتاب ”آب حیات” کا مطالعہ کرنے والے کے سامنے آزاد کے تنقیدی خیالات واضح ہوجاتے ہیں۔ ان خیالات میں مشرق اور مغرب دونوں کی جھلک نظر آتی ہے۔مشرقی ادبیات کا مطالعہ انہوں نے براہ راست کیا تھا، مغربی نظریات سے بالواسطہ فیض اٹھایا تھا۔ اسی لیے ان کی تنقید میں بعض جگہ تضاد نظر آتا ہے۔ کبھی مشرق کی طرف جھکتے ہیں اور کبھی مغرب سے متاثر نظر آتے ہیں لیکن زیادہ رجحان مشرق ہی کی طرف ہے۔
مولانا نے شعراء کے کلام پر تنقیدی رائے دینے میں مشرقی معیارات کو کسوٹی اور نمونہ بنایا ہے۔ اور اسی پر ان کے کلام جنچا اور پرکھا ۔ وہ شعراء کے کلام کو اپنی باریک بینی سے جانچتے اور تولتے ہیں۔ اس کے بعد ان پر تنقیدی تبصرے انشاء پردازی کے قالب میں لکھے ہیں۔
ان کی تنقید کا ایک خاص انداز یہ بھی ہے کہ انہوں نے شاعروں کی شاعری پر تنقید کرنے کے قبل یا بعد ان کا موازنہ عربی فارسی یا انگریزی زبانوں کے باکمال استاد شعراء سے کیا ہے۔ کسی کسی کو تو ان سے ممتاز یا کم سے کم ان سے مماثلت بھی دی ہے۔ یہیں سے اردو ادب میں تقابلی مطالعہ کی بنیاد بھی پڑتی ہے۔ ایسی مثالیں ”آب حیات” میں بکثرت ہیں۔
شعر گوئی ان کے نزدیک کوئی شعوری عمل نہیں،کسی غیبی پراسرار قوت کی کارفرمائی ہے۔ فرماتے ہیں:
”شعر ایک پرتو روح القدس کا اور فیضان رحمت الہی کا ہے کے اہل دل کی طبعیت پر نزول کرتا ہے”۔
آزاد کے نزدیک شعر خیالی باتوں کا مجموعہ اور گلزار فصاحت کا پھول ہے۔
شعر کے تعلق ان کی رائے یہ بھی ہے کہ شعر میں لا یعنی باتیں نہیں ہوتیں، شعر علم کا عطر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شعر وہ قوت ہے جو کہ قوموں کی قسمت کو پلٹ دے۔ گویا وہ شبلی کی طرح شعر کی افادیت اور مقصدیت کے قائل ہیں۔ ممکن کے شبلی کی یہ فکر آزاد کے فکر کا ایک فیضان ہو، شعر کے تعلق سے یہ رائے کچھ تو مغربی نظریات سے آگاہی کا عطیہ ہے اور کچھ سرسید کے خیالات سے شناسائی کا نتیجہ ہے۔
اردو شاعری کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے جب وہ اس کی خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو یہاں بھی سر سید کے افکار کا عکس نظر آتا ہے۔ملاحظہ ہو:
"اردو شاعری چند بے موقع احاطوں میں گھر کر محبوس ہوگئی ہے۔ وہ کیا؟ مضامین عاشقانہ ہیں جس میں وصل کا کچھ لطف، بہت سے حسرت و ارمان اور اس سے زیادہ ہجر کا رونا۔شراب، ساقی، بہار، خزاں، فلک کی شکایت اور اقبال مندوں کی خوشامد ہے۔ یہ مطالب بھی خیالی ہوتے ہیں اور بعض واقعے ایسے پیچیدہ اور دور دور کے استعاروں میں ہوتے ہیں کہ عقل کام نہیں کرتی۔ وہ اسے خیال بندی اور نازک خیالی کہتے ہیں اور فخر کی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان محدود دائروں سے ذرا بھی نکلنا چاہیں تو قدم نہیں اٹھا سکتے”۔
اس عبارت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں وہ شعر و ادب میں زبردست تبدیلی کے خواہاں تھے اور رہنمائی کیلئے ان کی نظر بھی انگریزی ادب کی طرف اٹھتی تھی۔ کہتے ہیں:
"تمہارے بزرگ اور تم ہمیشہ سے نئے انداز کے موجد رہے ہو مگر نئے انداز کے خلعت و زیور جو آج کے مناسب حال ہیں وہ انگریزی صندوقوں میں بند ہیں اور ہمارے پہلو میں دھرے ہیں مگر ہمیں خبر نہیں۔ہاں ان صندوقوں کی کنجی ہمارے ہم وطن انگریزی دانوں کے پاس ہے”
آزاد کا ایک اور کارنامہ قابل ذکر ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کی اصلاح کے لیے صرف مشورے ہی نہیں دیے بلکہ لاہور میں ایک مجلسِ مشاعرہ کی بنیاد ڈال کر اس سلسلے میں عملی خدمات انجام دیں۔ اس محفل مشاعرہ نے بہت جلد نیچرل شاعری کا ایک مختصر سا ذخیرہ بطور نمونہ پیش کردیا۔ حالی نے بھی چند مشاعروں میں شرکت کی اور بعض نظمیں لکھیں۔ سرسید نے آزاد کی اس عملی کوشش کو بہت سراہا اور حوصلہ افزائی کی۔
کلیم الدین احمد نے لکھا ہے:
"آزاد میں تنقید کا مادّہ بالکل نہیں تھا”
یہ رائے تو مبنی بر حقیقت نہیں ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ آزاد کی عملی تنقید نقائص سے خالی نہیں۔ آزاد نکتہ داں اور سخن فہم تھے۔تنقید کی زبردست صلاحیت بھی رکھتے تھے مگر دو چیزوں نے ان کی تنقیدی صلاحیت کو زبردست نقصان پہنچایا۔ ایک تعصب و طرفداری اور دوسری انشاپردازی۔
آزاد کی جانبداری کا یہ حال ہے کہ ‘آب حیات‘ کے پہلے ایڈیشن میں مومن کو یکسر نظر انداز کر گئے۔ مگر دوسرے ایڈیشن میں آخر کار انہیں شامل کرنا ہی پڑا۔ ظاہر ہے اہل نظر نے اس صریخ ناانصافی پر آزاد کی گرفت کی ہوگی
۔غالب کی آزاد کے استاد ذوق سے چشمک تھی۔ لیکن انھیں نظر انداز کرنا تو آسان تھا نہیں ان کا ذکر کیا اور اس طرح کیا کے پہلی نظر میں تعریف معلوم ہوتی ہے مگر غور کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی شاعری کے عیب گنا رہے ہیں۔اسی کو ”ہجو ملیح” کہتے ہیں۔ کہیں کہیں فنکار کے فن کو موضوع بحث بناتے تو ہیں مگر اچانک ذتیات کی طرف نکل جاتے ہیں جبکہ تنقید میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہوتا ہے۔ آزاد اکثر موقعوں پر انصاف کرنے میں ناکام رہے۔
آزاد کی اندر دوسری خامی یہ ہے کہ کسی شاعر پر قلم اٹھانے سے قبل وہ کوئی مفروضہ قائم کر لیتے ہیں چاہے وہ شاعر کے حق میں ہو یا اس کے خلاف ہو، پھر اپنے جادو بیاں قلم کو تعصب یا جانبداری کی سیاہی سے تر کر لیتے ہیں اور بے تعصبی اور غیر جانبداری کی بوندوں کو خاک زمیں پر چھڑک کر خاک میں ملا دیتے ہیں، اس کے بعد جب زبان قلم کو انشاء پردازی کا چٹخارہ دلاتے ہیں تو زبان قلم ایسی چلتی ہے کہ گویا گل بوٹے تراش رہی ہو، تحقیق و تنقید کے سمندر میں غوطے لگا رہی ہو۔
انشاپردازی میں آزاد کو وہ کمال حاصل ہے کہ آج تک کوئی ان کے رتبے کو نہیں پہنچ سکا۔مولانا کی انشاپردازی کو دیکھ کر علامہ شبلی نے فرمایا تھا:
"وہ گپ بھی ہانک دے تو وحی معلوم ہوتی ہے”۔
آزاد سے تحقیقی غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ انہوں نے بعض ایسے واقعات قلم بند کردیے ہیں جنہیں تحقیق نے جھٹلا دیا مگر ان کے جادو نگار قلم نے جو کچھ لکھ دیا وہ دلوں سے محو نہ ہوسکا مگر یہ بھی تنقید کی خامی ہے خوبی نہیں۔ لیکن ان کوتاہیوں کے باوجود اردو تنقید میں مولانا محمد حسین ازاد کی نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔