آدم و حوا علیہما السلام کو اس سرزمین میں جب بسایا گیا ہوگا تو زندگی کی گزر بسر کے لیے ان دونوں کو کیا کیا جتن کرنا پڑا ہوگا،کوئی چیز بھی تو یہاں نہیں رہی ہوگی، سر چھپانے کے لیے سائبان، تن ڈھانکنے کا سامان ، کھانے پینے کے لیے غلہ اناج، پھر ان کا پکوان ، سب کچھ انہیں کو ایجاد کرنا پڑا ہوگا، زندگی کی ضرورتیں جیسے جیسے بڑھتی رہی ہوں گی ’’ ضرورت ایجاد کی ماں‘‘ کے اصول کے تحت سب کا حل تلاش کرتے رہے ہوں گے۔
سب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ زمین آج جیسی ہے کل ہرگز ایسی نہیں رہی ہوگی، یہاں بسنے والے انسانوں نے مختلف اور متنوع وسائل حیات سے اسے مالا مال کیا ہوگا۔ رہنے بسنے والوں کو تخلیق ،تعمیر ، ایجاد اور اختراع کے لیے زمین و دماغ کی ایک ایک صلاحیت کو کھنگال کر نچوڑ نا پڑاہوگا، ورنہ یہ دنیا بڑی بنجر ، اجاڑ اور ایسی سنسان اور ویران ہوتی کہ انسان حیوان سے زیادہ مختلف نہ ہوتا۔
لاکھوں سال پہلے کی داستان بیان کرنے کے لیے تاریخی دستاویز کہاں ڈھونڈیں، اللہ کی سچی کتاب قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے، جس میں ابتدائے آفرینش سے زوال دنیا تک کے قابل ذکر واقعات اور حادثات کہیں اشاروں ، کنایوں میں تو کہیں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں کہ انبیاء ورسل نے دنیائے انسانیت کو آخرت کی فوز وفلاح کی تبلیغ ہی نہیں دنیا میں خوشگوار اور آرام وراحت کی زندگی کے اسباب و وسائل بھی فراہم کیے۔ ان کے ایک ہاتھ میں کتاب ہدایت ہوتی تھی تو دوسرے ہاتھ میں ایجاد واختراع کا کوئی نہ کوئی کمال اور ہنر موجودرہتا تھا۔ وہ سعادت دارین کے داعی اور مناد ہوا کرتے تھے۔
اسلام اللہ کا پسند کیا ہوا اور نازل کیا ہوا دین ہے۔ اس دین کے علمبردار ،محافظ ومجاہد اور مومن ومسلم کو وہ دونوں جہانوں میں کامیاب و کامران ، قائد وحکمران ، سر بلند اور نیک نام ،مکرم و محترم، اخلاق و آداب سے متصف علم کا خوگر، عمل کا پیکر ، عمدہ لباس و پوشاک سے آراستہ و پیراستہ دیکھنا پسند کرتا ہے۔ یہ جوگیوں اورسنیاسیوں کا مذہب نہیں ہے، انسان کا خالق جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ، دینا کے ہر گوشے میں حسن و کمال کو دیکھنا پسند فرماتا ہے:
ولقد زينا السماء الدنيا بمصابيح ـ (الملک:۵)
اور ہم نے آسمان دنیا کو روشن چراغوں سے مزین کر دیا ہے‘‘۔۔۔
خذوا زينتكم عند كل مسجد (الاعراف:۳۱)
’’مسجدوں اور نماز کے لیے بھی زیب وزینت کا اہتمام کرو۔۔۔
ولكم فيهـا جـمـال حيـن تـريـحـون وحين تسرحون۔ (انحل: ۶)
’’جانوروں کو چراگاہ سے واپس لیجاتے لاتے ہوے بھی خوشگوار منظر کو پیش نظر رکھو‘‘۔ ۔ ۔
اللہ تعالی نے خوش حالی عطا کی ہے تو وہ اس کے نتائج جوتوں کپڑوں، سواریوں اور طرز رہائش میں دیکھنا پسند کرتا ہے ۔ رب العالمین نے کائنات کی ہر چیز اس لیے پیدا کی کہ وہ انسان کے کام آۓ اور انسان اپنی راحت و آرام کے لیے اسے قابو میں کر کے کام میں لاۓ ، فائدے اٹھاۓ اور اس کے استعمال سے تشکر و امتنان کی تسبیح بیان کر تا رہے۔(الج ۲۵ لقمان:۲۰۔ الجاثیہ:۱۳)
اب یہ انسان کا کام تھا کہ اللہ کی دی ہوی عقل ، اس کی بخشی ہوی صلاحیت کو بروئے کار لا کر غور وفکر ، بحث ونظر سے تسخیر کائنات کے فریضے کو انجام دے اور ہر ایک چیز کا صحیح استعمال دیانت کے ساتھ کرے۔ تا کہ وہ اس کے خالق ورازق کی پہچان کا باعث بنے اور وہ ان سب سے بھر پور مستفید ہوتے ہوئے مالک کی مرضی کے مطابق شکر واحسان اور جذبۂ امتنان سے معمور ومسرور ہوکر دن رات اس کی اطاعت و عبادت میں مصروف ومشغول رہے:
کـلـوامـن رزق ربكم واشكروالہ بلدة طيبة ورب غفور (سبا:۱۵)
’’اپنے رب کا دیا ہوا ) رزق کھاؤ اور اس کا شکر بجالاؤ ،عمدہ اور پاکیزہ شہر ہے اور رب ہے معاف کرنے والا‘‘۔
خالق اپنی مخلوق کے اندر ساری خوبیوں اور کمالات کو دیکھنا چاہتا ہے۔ باعزت رکھنے کے لیے ، ذلت کے تمام کام اور راستوں سے بچا کر رکھنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ صحتمند رکھنے کے لیے امراض و علل سے پناہ مانگنے کاحکم دیتا ہے۔ پاکیزگی کو اس کے دل ودماغ ، جسم ولباس ، مال و دولت ،گھر اور ماحول میں دیکھنے کے لیے ہر قسم کی گندگی سے دور رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ کھانے پینے کے لیے ، اوڑھنے بچھونے کے لیے، سننے دیکھنے ،سونگھنے چکھنے غرض سب میں پاکیز گی اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ صاف صاف اعلان کرتا ہے :
ويحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث۔ (الاعراف:۱۵۷)
’’اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لیے حلال بتلاۓ ہیں اور گندی چیزوں کو ( بدستور ) ان پر حرام فرماتے ہیں‘‘۔
کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کی پاکیزہ چیزوں کو حرام کا فتوی دینے والوں کی کڑی مذمت کرتا ہے اور انہیں سخت الفاظ میں ڈانٹ پلاتا ہے:
قل من خرم زينة الله التي اخرج لعباده والطيبات من الرزق (الاعراف:۳۲)
’’ آپ فرمائیے کہ اللہ کے پیدا کیے ہوے کپڑوں کو ، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے‘‘۔
سکون و آرام اور الفت ومحبت کی زندگی کے لیے انتظام فرماتا ہے:
ومن آياته أن خلق لكم من انفسكم ازواجا لتسكنوا إليها وجعل بينكم مودة ورحمة۔ (الروم:۲۱)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری جنس کی بیبیاں بنائیں ، تا کہ تم کو ان کے پاس آرام ملے اور تم میاں بیوی میں محبت و ہمدردی پیدا کی‘‘۔۔۔۔۔
خوف و ہراس ، بدامنی اور بے چینی کی زندگی سے نجات دلانے کا وعدہ کرتا ہے:
الا ان أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون۔ (یونس:۲۲ )
’’ آگاہ رہو!بیشک اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف لاحق ہوگانہ کوئی غم‘‘۔
بات سے بات نکلتی جارہی ہے اور میں جو کہنا چاہتا ہوں اس کا سراہاتھ سے پھسلتا جارہا ہے۔اس لیے تحریر ادھوری چھوڑ کر موضوع کو پھر سنبھالتا ہوں۔ اللہ کے رسولوں نے اس کے بندوں کو صرف عقیدہ و عمل، عبادات ومعاملات اور اخلاق ہی نہیں دیے، زمانے کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور انسان کی ضرورتوں کی تکمیل میں اپنی صلاحیتوں کو بروۓ کار لانے کے لیے اپنا خون پسینہ نچوڑ دیا۔
آدم علیہ السلام نے زندگی کی جوں توں گاڑی کھینچنے کی بنیا در کھ دی،نوح علیہ السلام نے کشتی بنا کر (جسے جہاز کہنا بہتر ہوگا ، کیونکہ اس میں انسانوں کے ساتھ دنیا جہاں کے جانوروں کی ایک ایک ، دودو جوڑیوں کی سمائی بھی ہورہی تھی) خشکی کے سفر سے ایک قدم بڑھا کر پانی کا سفر یعنی تسخیر بحر کاراستہ کھول دیا۔
ابراہیم علیہ السلام نے وادی غیر ذی زرع کے ویرانے کوپھل اور میوے کے درختوں کی دعا کر کے انسانوں کے دلوں کو اس کی طرف ایسا مائل کر دیا کہ آج بھی دنیا حیران وششدر ہے کہ وادي فاران کے بے آب و گیا میدان کیسے’’ام القری‘‘ بن گئے اور چاردانگ عالم کے مسلمانوں کے دل کی دھڑکن کیوں کر بن گئے ۔
ملک مصر میں یوسف علیہ السلام کی وقعت ہی کیا ہوسکتی ہے ، جب کہ بازاروں میں آپ کی قیمت چند کھوٹے سکوں سے زائد نہیں تھی۔ گو کہ بادشاہ کے محل میں پلے، بڑھے، پھر بھی قید خانوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں جانا پڑا۔ بے بنیادالزام کا بوجھ سر پر اٹھائے رہے،زنداں میں آنے والے ہر انسان کے آگے دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے جاتے ہیں مگر سننے اور قبول کرنے والے کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔اللہ تعالی نے دوسرے انبیاء کی طرح آپ کو بھی خوابوں کی تعبیر کا علم دیا تھا۔ بادشاہ مصر کا ایک خواب آپ کو سنایا گیا تو اس کی تعبیر میں آنے والے شدید قحط کا آپ کو علم ہو گیا۔ پورا مصر اور اطراف واکناف کے بے شمار شہر اس خشک سالی کی لپیٹ میں آنے والے تھے۔ پھر آپ اللہ کے فضل و کرم سے علم زراعت کی طرف متوجہ ہوے اور اس موضوع کے ایک ایک جزء کا احاطہ کرلیا۔ عزیز مصر آپ سے متاثر ہو کر پڑھ پیش کش کر نا چا ہا تو بلا تامل درخواست رکھ دی کہ مجھے زراعت کی وزارت سونپ دی جاۓ ، میں زرعی سائنس Agric Scince کاعلم رکھتا ہوں۔حفاظت اور دیانت کے ساتھ اس کام کو انجام دے کر آنے والے قحط کا حسن تدبیر کے ساتھ سامنا کرسکتا ہوں:
اجعلنى على خزائن الأرض إنى حفيظ عليم (يوسف:۵۵)
عزیز مصر، آنے والے قحط کے تصور سے لرزہ براندام تھا ، یہ کیا کرتا زراعت ہی نہیں تخت و تاج اور حکومت وسلطنت آپ کے حوالے کر کے گمنام ہو گیا۔ ساٹھ ستر سال پہلے دنیا کے بیشتر ممالک قحط اور خشک سالی کی زد میں بار بار آتے اور لاکھوں انسان بھوک اور فاقے سے ایڑیاں رگڑ کر دم توڑ دیتے تھے۔
مغربی اقوام اور ملک جاپان نے زرعی سائنس میں ایسی پیش قدمی کی کہ آج اس کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ جاپان کے اس احسان کو دنیا دعا دیتی ہے ، حالانکہ اس کے اصل موجد اور مسیحا یوسف علیہ السلام ہیں ، اور یہ مسلمان بھی کم ہی جانتے ہیں ۔
موسیٰ علیہ السلام ملک مصر میں رسول بنا کر بھیجے جاتے ہیں ۔طلسماتی زمین میں جادو کا چرچہ اور جادوگروں کا شہرہ ہے۔ یہاں صرف زبانی دعوت سے غلبہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ لوہا کاٹنے کے لیے لوہا ہی درکار ہوتا ہے ۔ اللہ کی مدد سے جادوگروں کے چیلنج کو قبول کیا اور ان کا مقابلہ انہی کے ہتھیار سے کر کے سب کو مات کر دیا۔ جادوگر فرعون کی دھمکیوں ، لالچ اور ترغیبات کو پاۓ حقارت سے ٹھکرا کر حق وصداقت کے پیغام کے آگے سجدہ ریز ہو گئے اور اعلان اسلام کر دیا۔
داؤد اور سلیمان علیھما السلام دونوں باپ بیٹے پیغمبر ہیں ۔ دنیاۓ انسانیت پر رشد و ہدایت کے پیغام کے ساتھ ان دونوں کے اس قد راحسانات ہیں کہ شمار کر نے والی زبانیں تھک جائیں ۔ ان کی بعثت ایسے دور میں ہوئی کہ ان کے اطراف واکناف میں ظلم وعدوان ، فتنہ وفساد قتل وخونریزی ،استبداداور غلامی کا بازار گرم تھا۔ یہ بات گزر چکی ہے کہ انبیاء ماحول اور معاشرے کے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں ۔ انسانی ضرورتوں اور احتیاجات کی تکمیل میں اپنی صلاحیتوں کو جھونک دیتے ہیں ۔عوام کو صرف اخروی نجات کا پیغام ہی نہیں دیتے بلکہ دنیا کے مظالم اور جور واستبداد سے نکالنے کا اہم فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔موجوداشیاء کا استعمال سکھاتے ہیں اور جوموجود نہ ہواس کی ایجاد سے اپنے متبعین کو مالا مال کرتے ہیں ۔ان دونوں کی ایجادات واختراعات کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ، اختصار کے ساتھ میری زبانی نہیں بلکہ وقت کے نامور مفکرین مفسرین کی تفاسیر کا ایک ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
”حضرت داؤد علیہ السلام نے لوہے کو پگھلانے اور اس سے نہایت بار یک کڑیوں کی زرہیں بنانے کے فن کو اتنی ترقی دی کہ لوہے کی زر ہیں ایسی ڈھیلی ڈھالی بنے لگیں کہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی کپڑے کی بنائی گئی ہیں۔لوہے سے ایسےلباس تیار کر لینا اس کے بغیر ممکن نہیں تھا کہ اللہ تعالی نے داؤ دعلیہ السلام پرلو ہے کو پگھلانے کی ایسی اعلی سائنس کا انکشاف فرمایا جس کی اولیت کا سہرا انہی کے سر ہے۔ اپنی اس ایجاد سے انہوں نے دفاعی اسلحے میں ایک نہایت بیش قیمت اضافہ کیا جس سے ان کی فوجی قوت ان کے حریفوں کے مقابل بہت بڑھ گئی ۔۔۔۔ حضرت داؤد الﷺﷺ کو اللہ تعالی نے جس طرح لوہے کے استعمال کا نہایت اعلی فنی علم عطا فرمایا، جس سے انہوں نے اپنی بری، بحری بیڑے کو اس قد رترقی دی کہ ان کے جہاز مہینوں کا سفر بے روک ٹوک جاری رکھتے‘‘۔ ( تد برقر آن ،مولانا امین احسن اصلاحی ۔۳۰۱،۳۰۰٫۲)
جس وقت تک آتشیں اسلحے ایجاد نہیں ہوتے تھے جنگ میں حفاظت کا بڑا ذریعہ آہنی لباس کا استعمال تھا، یعنی زرہ کا۔آیت نمبر : ۸۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت داؤد نے اس صنعت کو بہت فروغ دیا تھا اور اس میں طرح طرح کی نئی ایجادات کی تھیں ۔ تاریخی آثار سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ (ترجمان القرآن ،مولانا ابوالکلام آزاد۔۷۱۲٫۴ )۔۔۔
قدیم عہدوں میں حضرت سلیمان علیہ السلام پہلے شخص ہیں جنہوں نے جہازوں سے اس طرح کام لینا شروع کیا کہ ہندوستانی اور مغربی جزائر تک بحری آمد ورفت کا منظم سلسلہ قائم ہو گیا۔تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تجارتی بیڑ ا وقت کا سب سے زیادہ طاقتور بیڑا تھا،بحر احمر میں اس کا مرکز ترسیس (Tarshish ) تھا جوخلیج عقبہ میں واقع تھا اور بحر متوسط میں صور یانہ (Tyre) کی بندرگاہیں تھیں ۔ ( حوالہ سابق ص:۷۱۴ )
’’موجودہ زمانے کی تاریخی واثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوہے کی استعمال کا دور (Iron_Age) ۱۲۰۰، اور ۰۰۰ قبل مسیح کے درمیان شروع ہوا ہے اور یہی حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ ہے۔ فلسطین کے جنوب میں ادوم کا علاقہ خام لوہے Iron ore کی دولت سے مالا مال ہے، اور حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوی ہیں ان میں بکثرت ایسی جگہوں پر آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں ۔ عقبہ اورایلہ سے متصل حضرت سلیمان اللہ کی بندرگاہ عصیون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ کیا گیا ہے کہ اس میں بعض وہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی Blast Fun nace میں استعمال ہوتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن ،مولانا ابوالاعلی مودودی۔۱۷۲،۱۷۵٫۳)
واسلنا له عين القطر (سباء:۱۲) کی تفسیر میں مولا نا اصلاحی رقمطراز ہیں : تانبے کوتمد نی ترقی میں جو دخل حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔ اس عہد کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں تانبے کی بہت بڑی مقدار برآمد ہوئی اور اس کو انہوں نے اپنی تمدنی اور تعمیری ترقیوں میں نہایت خوبی کے ساتھ استعمال کیا۔( تد برقر آن ،مولانا امین احسن اصلاحی:۶،۳۰۰٫)
ان آیتوں کے اختتام میں اللہ تعالی نے فرمایا: واعـمـلـواصـالـحا ، اني بماتعملون بصير – مولانا اصلاحی نے کیسی بصیرت افروز اور سبق آموز تفسیر تحریر فرمائی ہے:واعملوا صالحا ۔ اس ٹکڑے میں اس فن کو زیادہ ترقی دینے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے حوصلہ افزائی فرمائی گئی ہے ۔ اور انـی بـمـا تعملون بصیر میں اخلاقی تقاضا بیان ہورہا ہے کہ اس کو پا کر بہک نہ جانا اور اس کو زمین میں فساد کا ذریعہ نہ بنانا ،اس بات کو برابر یا درکھنا کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔(حوالہ سابق)
سلیمانعلیہ السلام کے شیش محل کی زیب وزینت اور شان وشوکت کے بارے میں کیا کہنا۔صرف اس کے فرش کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ وہ فن شیشہ گری کی مہارت کا ایک شاہکار تھا۔ ایسا صاف شفاف کہ محلوں میں رہنے والی ملکہ سبا کو پانی کا دھوکہ ہو گیا اور اس نے اپنے شلوار کے پائینچے اونچے کر لیے۔
اسلام محلوں میں رہنے، قالینوں پر چلنے صوفوں پر بیٹھنے ،شبستانوں میں سونے ، ہواؤں میں اڑنے اور فضاؤں، خلاؤں میں سیر و تفریح کرنے سے نہیں روکتا۔ اس کا مطالبہ بس اتنا ہے کہ مخلوق اپنے کو پہچانے ، اس کے فرمان کے آگے سر تسلیم خم کر کے اپلی عبدیت کے اظہار میں کسی قسم کے نشہ غرور اور تکبر کو راہ نہ دے۔ اپنے علم وفن، مال و ہنر ، ذہانت و فطانت ، دولت و ثروت صمت و طاقت عمر و اقتدار اور حکومت وسلطنت کو اللہ کی امانت جان کر ، مان کر کسی چھوٹی سی چھوٹی خیانت کا بھی ارتکا ب نہ کر ے ۔ اللہ کی مرضی اور اس کے حکم کے مطابق ان امانتوں کو بروئے کار لائے ۔ اس کی ترجمانی اکبرالہ آبادی نے یوں کی ہے :
تم شوق سے کالج میں پڑھو، پارک میں پھولو
جائز ہے غبااروں میں اڑ و، چرخ پہ جھولو
پر ایک سخن بندۂ عا جز کا ر ہے یا د
اللہ کو او را پنی حقیقت کو نہ بھولو
عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی معجزانہ شخصیت سے دنیا کو وہ سب دیا جس سے دنیا محروم تھی ۔ علاج معالجہ ،دوا دارو کے میدان میں حیرت انگیز اور نا قابل یقین کارنامے انجام دیے ۔
اور ہمارے پیارے رسول صل اللہ عیہ وسلم جو خاتم النبین تھے، جو کچھ کسر اگلے پچھلے انبیاء ورسل سے رہ گئی تھی اس کی تکمیل فرمادی۔شاعر کو کہنا پڑا :
حسن یوسف، دم عیسی ید بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنها داری
آپ ﷺ پر نازل کیے جانے والے قرآن نے زمین کے سینے کے تمام خزانوں کا اتہ پتہ بتادیا۔ ان کی کھوج اور دریافت کی صورتیں اور شکلیں اشاروں کنایوں میں بتا کر غور وفکر ، بحث ونظر اور تد بر وفکر کی دعوت ہر ہر صفحہ میں پیش کر دی۔ قوموں کے عروج وزوال کے اسباب ولل اور محرکات ومؤئیدات کو عالمی نقشے کی تصویر کی شکل میں نگاہوں کے سامنے بچھا کر سب کچھ آشکار کر دیا: مافرطنا في الكتاب من شئ (الانعام:۳۸)
پیغمبر اسلام نے امت کو ایجاد واختراع کی راہ میں لگانے کی خاطر تلاش وانکشاف کی موقع بموقع تعلیم دی ’’ حکمت کو متاع گم گشتہ قرار دیا‘‘، کوئی بات آج سمجھ میں نہ آۓ وہ کل سمجھ لی جاۓ گی ، اس کا اشارہ دیا۔’’جوسہولتیں آج حاصل نہیں ہیں وہ کل حاصل ہو جائیں گی‘‘ اس کی پیشین گوئی فرمائی۔ دواعلاج کے بارے میں حکم دیا تحقیق و تلاش کا سفر جاری رکھو، کامیابی ضرور ہاتھ آۓ گی ، کیونکہ اللہ نے مرض سے پہلے اس کی دوا پیدا کر دی ہے‘‘۔
قرآن نے وقت کی مشہور سواریوں کا تذکرہ کر کے آئندہ وجود میں آنے والی سواریوں کی طرف اشارہ کر دیا:
والخيل والبغال والحمير لتركبوها وزينة ويخلق مالاتعلمون (اخل:۸)
دوراول کے مسلمانوں نے قرآن وحدیث کی تعلیمات کو بغور پڑھا، بخوبی سمجھا اور اس کے ہرحکم کے تعمیل میں اپنے آپ کو جس کام کے لائق جانا اس میں اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو جھونک دیا۔ اللہ کے حکم سے انہوں نے اپنے اپنے کام کا بیڑا اٹھایا تھا۔ اس کے نام سے یقین وایمان کے ساتھ قدم اٹھاۓ ، کامیابی کا انہیں یقین تھا ، جو جس میدان میں گیا بہا مراد و شادکام ہوا۔
پہلی صدی ہجری میں اسلام کے احکام وفرامین کی تشریح وتفصیل سے فراغت حاصل کی ۔ دوسری صدی کے نصف سے دنیا جہاں کے علوم وفنون سے مہارت حاصل کی اور ایجاد واختراع کے میدانوں میں قدم رکھا تو بڑھتے ہی چلے گئے ۔کارناموں اور کارہائے نمایاں سے خود مغربی دنیا کو انگشت بدنداں کر دیا۔
آج کتنے لوگ جانتے ہوں گے کہ دوسری صدی ہجری میں خلیفہ ہارون رشید نے فرانس کے بادشاہ شارلیمان کی خدمت میں چابی سے چلنے والی پنج وقت بتانے والی گھڑی بھیجی تو وہ اہل فرانس کے لیے ایک نا قابل فہم عجو بہ بن گئی ۔ دانشور بوجھ نہ سکے تو مذہبی پیشوابلاۓ گئے ۔ دنوں اور مہینوں کے غور وخوض کے بعد اسے کوئی طلسماتی خطرہ بتا کر توڑ پھوڑ کر دفنادیا گیا۔ ایک دور وہ تھا اور آج سوئیس کو سب سے عمدہ گھڑیوں کا مرکز ہونے کا فخر حاصل ہے
ع وہ زمانہ کیا ہوا جب میری آہ میں اثر تھا
یورپ کو آج علم طب میں امامت اور قیادت کا مرتبہ حاصل ہے ۔ مگر مسلمان کو بھی نہیں معلوم کہ یورپ وامریکہ کے پاس علوم طب کا جو ذ خیرہ ہے اس کا مصدر ومرجع اس دور کے مسلمانوں کا عطیہ اور صدقہ ہے۔ ہر مرض کا علاج مسلمانوں کا دریافت کردہ ہے۔ نفسیاتی علاج کی سن گن بھی مغربی اطباءکونہیں تھی ۔ کوئی نا قابل فہم مرض ہوتا تو وہ لوگ ایسے مریض کو آسیب ، جن اور جادو کا شکار سمجھ کر ہاتھ پیر زنجیروں سے جکڑ کر اندھیرے کمروں میں بند کر کے اناب شناب منتروں کا ورد شروع کر دیتے تھے۔ایسے مریض مسلم ملکوں میں لاۓ جاتے تو نفسیاتی طریقوں سے ان کا شافی و کافی علاج ہو جا تا تھا۔ابوبکر زکریا ، رازی ، نے اس طریقہ علاج سے پیچیدہ سے پیچیدہ نفسیاتی امراض میں مبتلا لوگوں کو صحت یاب کر کے اپنا نام تاریخ طب میں امام فن اور اس طریقہ علاج کا باوا آدم کہلانے کا استحقاق پایا۔
طب قدیم کا ذکر آتا ہے تو طبی دنیا شیخ بوعلی سینا کی مہارت ولیاقت کوعظمت واحترام سے سلام کرتی ہے۔شیخ کی دو کتابیں القانون۱۸ جلدوں میں اورالشفاء بارہ جلدوں میں ترقی یافتہ دنیا کی تمام زندہ زبانوں میں مترجم ہیں ۔اور جد یدطب کی رہنمائی میں مقبول ومسلم ہیں ۔ ایک مسیحی مصنف ڈاکٹرولیم آسلر ‘‘شہادت دیتا ہے کہ شیخ کی یہ دونوں کتابیں طبی دنیا کی بائیبل ہیں‘‘۔
ایک طب ہی کی بات نہیں ، انسانیت کونفع پہنچانے والا کوئی بھی علم اور فن ایسا نہیں تھا جس کی ایجاد واختراع میں اور انہیں عروج واقبال سے ہمکنار کرنے میں مسلمانوں نے کوئی کورکسر چھوڑی ہو۔ آثار قدیمہ کا علم ہو یا ارضیات کا ، فلکیات کا ہو یا فضاؤں اور خلاؤں کا ، تاریخ ہو یا جغرافیہ کا ، زمینوں کی مسافتیں ہوں یا کوہ پیمائی کا ، سب میں ان کا عمل دخل تھا اور ان کی تحقیقات کا بڑا وزن تھا۔ آج جدید سائنس کے جو علوم یو نیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں ان میں بالکل نئی نئی جو دریافتیں ہیں ان کو چھوڑ کر کوئی بھی ایسا میدان نہیں ملے گا جو مسلمانوں کے نام، کام اور نشان سے خالی ہو۔ بہت سارے علوم وفنون تو ان کے موجد ین کے ناموں سے ہی موسوم ہیں۔ ابوعبداللہ محمد بن موسی خوارزمی (۱۸۲۔۲۳۲) ریاضیات و فلکیات کا پہلا محقق ومصنف تھا۔کارل بروکلمان، نیلینو جابر بن حیان ( ۱۲۳۔۱۸۴) نے حساب اور کیمسٹری کے مواد میں اتنا کچھ دیا کہ ہر آنے والا آج تک اس کی اس موضوع پر لکھی ہوی درجنوں کتابوں کا خوشہ چین ہے۔
موسی بن شاکر کے بیٹے محمد احمد اور حسن فلکیات میکانیکا ہندسہ اور فیر یالوجی کے فنون میں دوسری صدی ہجری میں ایسے محیر العقول کارنامہ انجام دیے جو آج کے دور میں بھی مشکل نظر آتے ہیں ۔
دوران خون کی تحقیق کا سہرا علاءالدین ابن نفیس کے سر ہے ۔مؤرخ طب میجر لکھتا ہے:
’’ابن النفیس نے اپنی شرح قانون شیخ کے تشریحی حصے میں رٹوی دوران خون یا دوران صغیر کو بیان کر دیا اور یہ وضاحت سروے ٹس اور کولمبس دونوں سے دوصدی سے زائد پہلے کی ہے۔ ( تاریخ طب، مصنفہ میجر ص: ۲۴۷)
یہ ا ہم اور قابل یادگار مشاہدات صدیوں تک مغربی دنیا کے لیے نامعلوم رہا۔(ص:۴۸۹)
مفردات ادویه پرابن البیطار کی کتاب’’الجامع‘‘ اہل یورپ کے نزدیک ’’یادگار مینار‘‘ کہلاتی ہے۔ میں مختصر مقالے میں کتنے فنون اور کتنے موجد ین کی بات سمیٹ سکتا ہوں۔خوارزمی کی صرف ایک تصنیف کتاب الصنائع میں 100 صنعتوں کا ذکر ہے۔ ابن العوام کی فن زراعت کی کتاب میں 585 نباتات کی تفصیل ہے ۔ حکم ابن ہاشم کی ایجاداس کا مصنوعی چاندنخشب ایک سو مربع میل کو رات بھر منور کرتا تھا۔عباس بن فرناس نے ہوا میں اڑنے کے فن پر تحقیق کی اور بڑی کامیابی کے بعد تجربہ کی راہ میں جان قربان کر بیٹھا۔
موجد ین کے نام اور ان کی کتابیں بے شمار ہیں ، بعض بعض کی تصانیف کا لاطینی زبانوں میں ہیں تیں بارترجمہ ہو چکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خائن مترجمین نے اصل مصنفین کی جگہ اپنوں کے نام تحریر کر لیے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برطانیکا نے جابر بن حیان کی مشہور کتاب کا مصنف کسی انگریز کو بنادیا۔ ابن الجزار کی کتاب ’’زادالمسافر‘‘پرسلر نوکالج کے پرنسپل قسطیطین نے اپنا نام لکھ دیا۔۔۔ ع
لہولگا کے شہیدوں میں ہو گئے داخل
مسلمانوں کی ایجادات میں سرفہرست بارود، قطب نما، کمپاس، الکحل ، عینک، چیچک کا ٹیکہ ،کلاک اور گھڑیاں ، جنگی اسلحہ سمندری جہاز ، بحری بیڑا، طیارہ، پل، کرین، شیشہ گری، قالین بافی ، چمڑے کی صنعت، فانوس اور صابون ، کاغذ کی صنعت میں حیرت انگیز مہارت ( کاغذ کی صنعت کو مسلمانوں نے بہت پھیلایا اوترقی دی ، البتہ اس کے موجد چینی ہیں ) ، اسلامی فن تعمیر کا ایک نیا رنگ ڈھنگ اور نرالی شان ، لباس کے اقسام وانواع اور سلائی کڑھائی ، کی جدت طرازیاں وغیرہ وغیرہ ۔ تفصیل بڑی طویل ہے۔
فرانس کا حقیقت پسندمورخ ’’موسیولیبان‘‘ تمدن عرب میں لکھتا ہے:
یورپ میں پندرہو میں صدی تک کوئی ایسا مصنف نہیں تھا جو عربوں کا ناقل یا شاگردنہ رہا ہو اور یہ بھی اس نے اعتراف کیا ہے کہ اگر عربوں کے علوم وفنون نہ ہوتے تو آج کی ترقی ابھی ظاہر نہیں ہوئی ہوتی۔
ان سطور کے مطالعے کے بعد ضرور آپ کے دل میں یہ خیال آۓ گا کہ سب صحیح مگر آج تحقیقات وایجادات کا یہ میدان اتناویران اور مسلمان سے خالی کیوں ہے؟ اور خصوصا مادر وطن ہندوستان کو انہوں نے کیا دیا ؟ آپ کا خیال اور سوال بالکل صحیح ہے لیکن جواب سننے کے لیے جگر کو ڈرا تھام لیجیے کہ تلخ وترش حقائق کوحلق سے اتارنے میں تکلیف ہوسکتی ہے۔
چوتھی پانچویں صدی ہجری تک بھی ایجادات واختراعات کی دوڑ تیزی سے جاری تھی ، دنیا کو روز ایک نئی نعمت نصیب ہوتی تھی ۔ اسلام کی حقانیت اور قرآنی علوم کی صداقت آشکار ہوتی جارہی تھی کہ پتہ نہیں کہاں سے علم کی تقسیم کا فتوی یافتنہ صادر ہوا، ایک دنیوی علم کہلایا جس کے طالب دنیا دار اور مادہ پرست قرار دیے گئے ، دوسراد ینی علم جسے حاصل کرنے والے جنت کے راہ گیر، وارثین علم نبوت کہلائے گئے اور صرف ان کے سروں پر چونٹیوں اور مچھلیوں کی دعاؤں کو سایہ فگن کر دیا گیا۔ طالب علم دو حصوں میں بٹ گئے ، ایک دوسرے کے حریف بن کر صف آرا ہو گئے، ایک حسرت کے ساتھ دوسرے کی طرف دیکھتا ہے تو دوسرا ندامت کے ساتھ پہلے کی طرف نظر ڈالتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے اس تقسیم کے بعد مسلمانوں میں نظری ،فکری زوال آیا،اوران کی تحقیقی تخلیقی صلاحیتیں زنگ آلود ہوگئیں۔ مدارس کے نصاب سے زندہ علوم کو کان پکڑ کر رخصت کر دیا گیا اور یہی مدارس اسلام کے قلعے کہلانے کا حق اپنے پاس محفوظ کر لیے ۔
مولانامحمدتقی امینی لکھتے ہیں :
سب سے پہلی بات تعلیمی میدان میں قدیم وجدید کی کشمکش ہے۔اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے میں اس کشمکش نے عرصے سے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے کہ ہر قدیم چیز دین بن گئی جو محمود ہے اور ہر جد ید چیز دنیا بن گئی جو مذموم ہے۔ منطق وقدیم فلسفہ دین ہے ، سائنس اور جد ید فلسفہ دنیا ہے، تیراندازی و بنوٹ دین ہے اور این، سی، سی ،وفوجی تربیت دنیا ہے۔عبادت واخلاق کی تعلیم دین ہے اور ریسرچ وتحقیق کی تلقین دنیا ہے ۔غرض جس پر قدامت کی چھاپ ہو وہ سب دین ہے اور جدت کی جس پر مہرلگی ہو وہ سب دنیا ہے ۔ نہایت ددکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ تصور مسلمانوں کو زندہ رہنے کے قابل بھی نہیں بناسکتا، لامحالہ ان کومسجد و مدرسہ کی چہار دیواری میں محدود ہونا پڑے گا اور پھر بھی ان کی عزت و ناموں کا سودا ہوتا رہے گا۔
اسلام نے امت مسلمہ کو ایک مقام و منصب عطا کیا ہے ، جس کے پیش نظر اس نے دوقسم کے علم کی طرف رہنمائی کی ہے۔ ایک وہ علم جس کا تعلق وحی الہی سے ہے اور دوسراوہ علم جس کا تعلق عقل انسانی سےہے۔قرآن کی پہلی وحی یہ تھی :
اقرأ باسم ربك الذي خلق، خلق الإنسان من علق ، إقرأ وربك الاكرم ، الذى علم بالقلم ، علم الإنسان مالم يعلم۔ (العلق)
اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا، انسان کو جمے ہوے خون سے پیدا کیا، آپ پڑھیے آپ کا رب نہایت کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا،انسان کو وہ سکھایا جو جانتانہ تھا۔
یہ سب سے پہلی آیت ہے جس میں یہ حقیقت ظاہر کی گئی ہے کہ انسان کی پیدائش جس مادہ سے ہوی اس کے اعتبار سے اگر چہ وہ کسی عز وشرف کا مستحق نہیں ہے لیکن علم کی بدولت وہ ترقی کی ہر منزل پر پا سکتا ہے۔ دوسری جگہ ہے:
وعلم آدم الأسماء كلها۔ (البقرۃ)
’’اور اللہ نے آدم کوکل’’الاسماء‘‘ سکھاۓ‘‘ مفسرین کے بیان کے مطابق’الاسـمـاء‘‘ سے مراد اشیاء کی ذات، ان کے خواص علم کے اصول ، صفتوں کے قوانین اور آلات کی کیفیات وغیرہ ہیں‘‘۔( تفسیر بیضاوی تفسیر کبیر )
ظاہر ہے کہ انہیں پر ریسرچ اور تحقیق کر کے موجودہ علم وفن کے مختلف شعبے قائم ہوئے ہیں ۔ پھرعلم سے مرادعلم تفصیلی نہیں علم اجمالی ہے (تفسیر مظہری:۵٫۴) جس سے صلاحیت کی طرف نشاندہی ہے ، جو پیدائش ہی کے وقت انسان کے اندر رکھ دی گئی تھی ، پھر انسان کی غیر محد ودخواہشوں اور ضرورتوں کے تحت مختلف علوم وفنون کی شکل میں یہ صلاحیت ظاہر ہوتی رہی۔
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح علم وحی کی تفصیلات بیان کیں اسی طرح عقلی علوم کی چیزوں سے استفادہ کر کے رہنمائی بھی کی ۔شاید آپ کو تعجب ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے بنفس نفیس اپنے زمانے کے جدید ترین قوت وطاقت کے آلات استعمال فرماۓ ، وہ یہ تھے :
دبـابـہ : یہ خاص قسم کی گاڑی تھی جو تیر سے حفاظت کے لیے موٹا چمڑہ منڈھ کر بنائی جاتی اور قلعہ شکنی کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔(سیرت لابن هشام، فصل ذکر تعليم اهل الطائف )
ضبـر : لکڑی پر کھال منڈھ کر چھتری کی طرح بنائی جاتی ، جس کے ذریعے پیٹھ کی تیر سے حفاظت ہوتی تھی۔(حوالہ سابق)
منجنیق : یہ ایک قسم کی مشین تھی جس کے ذریعے وزنی پتھر دشمنوں پر برساۓ جاتے تھےاور قلع شکنی کا کام لیا جا تا تھا۔ (لسان العرب )
حسك : سے ایک خاردار گھاس ( گوکھرو) کی شکل کا ہتھیار تھا ، جس کو قلعہ اور لشکر کے چاروں طرف بکھیر کر راستہ کومخدوش کیا جا تا تھا۔( القاموس المحیط )
رسول اللہ ﷺ نے ان آلات کو برآمد کر کے غزوہ طائف میں استعمال فرمایا۔ (امتـاع الاسماع حصن الطائف، لتقی الدین احمد بن علی مقریزی)
جس منجنیق کو رسول اللہ ﷺ نے استعمال کیا تھا اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ۔ بعض کے نزدیک وہ باہر سے منگائی گئی تھی اور بعض کے نزدیک حضرت سلمان فارسی نے اسے بنایا تھا۔ (حوالہ سابق) طائف فتح ہونے کے بعد۹ہجری میں عروہ بن مسعود ثقفی اورغیلان بن سلمہ ثقفی نے اسلام قبول کیا ، اور ’جرش‘‘ جا ر مذکورہ بالا ایجادات میں مہارت حاصل کی ۔ (سیرت ابن ہشام،جلد۳، ذکرغزوة الطائف)
’’جرش‘‘ دمشق کے مضافات میں ایک شہر تھا، جو اس وقت کی دوسری بڑی طاقت (رومن امپائر) کے قبضہ میں تھا، اس میں ہتھیاروں کا بڑا کارخانہ تھا۔ شرجیل بن حسنہ نے حضرت عمر کے زمانے میں اسے فتح کیا تھا۔(امتاع الاسماع نظر رسول الله ﷺ بالعرج، حاشیه:۳۲۲)
جرش فتح ہونے کے بعد ہتھیارسازی کا کارخانہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو انہوں نے اسے اور زیادہ ترقی دی۔
رسول اللہ ﷺ کے اس طرز عمل کی تفصیل سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہونا چاہیے، بلکہ غلط فہمی کو دورکرنے کے لیے تفصیل ذکر کی گئی ہے۔ وہ یہ کہ مذہب کے غلط تصور نے ایک بڑے طبقے میں یہ خیال عام کر دیا ہے کہ صرف مروجہ مذہبی مراسم واعمال کی پابندی سے وہ سب کچھ مل جاۓ گا جس کو دنیا والے انتھک جد و جہد اور محنت وقربانی سے حاصل کرتے ہیں، حالانکہ یہ بات قدرت کے قانون عدل کے خلاف ہے۔ جب تک اس خیال کی اصلاح نہ ہوگی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کی طرف توجہ نہ ہوگی‘‘۔ (اسلام اور جد ید دور کے مسائل ،ص:۳۱۲، تا۳۱۲)
کائنات کے اسرار ورموز سے واقفیت اور دنیوی امور کوحل کرنے اور آسان بنانے کے کاموں کو دنیاداری اور احت طلبی کا نام دے کر علم کوتقسیم کر دیا اور علماء کے خطاب کو بھی انہیں لوگوں کے سر باندھ دیا جو عقائد ،حلال وحرام ،طہارت اور نماز روزے کے مسائل واحکام سے واقفیت رکھتے ہیں، حالانکہ قرآن میں علم اور علماء کے الفاظ وسیع دائرے کو محیط ہیں۔سورۂ فاطر میں نباتات، جمادات، زمین اور پہاڑ سے متعلق علوم کے تذکرے کے بعد انـمـايخشى الله من عباده العلماء کا فرمان ہے۔اور اس کی تفسیر میں مولا تا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
”علماء کا لفظ یہاں اصطلاحی مفہوم میں نہیں بلکہ اپنے حقیقی مفہوم میں ہے۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جومحض ظاہر پرست ہوتے ہیں محسوسات سے آگے نہ ان کو کچھ نظر آتا ہے اور نہ اس سے آگے وہ کچھ دیکھنے کی کوشش ہی کرتے ہیں ۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جن کے اندرظاہر سے باطن اور مجاز سے حقیقت تک پہنچنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور جو اپنے بطن وفرج کی مطلوبیت سے زیادہ اہمیت اپنی عقل وروح کے مطالبات کو دیتے ہیں، درحقیقت یہی لوگ ہیں جو انسانیت کے گل سرسبد اوور علماء کے لقب کے اصل مستحق ہیں اور یہی لوگ ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے بنتے ہیں اور اللہ کے رسولوں کی دعوت ان کو اپیل کرتی ہے۔ (تدبرقرآن:۳۷۷/۲)
مسلم حکومتوں نے بھی اس تفریق تقسیم کے بعد حلال وحرام والے علم ہی کی سر پرستی کو کارثواب جان کر تسخیر کائنات کے علوم کو تضییع اوقات اور بے کار سمجھ لیا، نتیجہ یہ ہوا کہ موجد ین و مختر عین کی ہمت افزائی سے دست بردار ہو گئے۔
اپنے دعوی کی دلیل میں اس نا قابل فراموش واقعے کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں ۔ حسن بن حسن ابن الھیثم (متوفی: 1039ء ) بصرہ کا ایک عبقری عالم تھا۔ مصر کی طغیانی اور خشک سالی کا تذکرہ سن کر کہتا ہے کہ میں اگر مصر میں ہوتا تو دریاۓ نیل پر ایک بند ( آج کی اصطلاح میں ڈیم باندھ دیتا۔ بارش کی کثرت میں وہ بند پانی روکنے کا کام کرتا اور خشکی کے دنوں میں وہ جمع شدہ پانی سے سیرابی کا کام دیتا۔سارا تخمین مصارف ماہرین اور مزدوروں کی تعداد کے ساتھ پیش کر دیا۔ حکومت نے معذرت کر دی کہ ایک مفروضے پراتنا بڑ ارسک لینا دانشمندی کے خلاف ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں ’’اسوان ڈیم‘‘ کے نام سے دیوار بنی تو عالم عرب کے اخبارات نے اس کو’’ابن الھیشم کے خواب کی تعبیر‘‘ بتایا۔
دنیا کے کام رکنے والے نہیں ہوتے ، یہاں زندگی کا پہیہ پیہمم رواں اور دواں رہتا ہے۔ مسلم حکومتوں نے بحث وتحقیق کی سر پرستی سے ہاتھ اٹھاۓ تو مغربی اقوام کو آگے آنا پڑا۔ یہی تاریخ ہے امت مسلمہ کے زوال اور اقوام یورپ کے عروج کی ۔ایک طرف ابن الھیشم کے مدلل منصوبے کی ناقدری کی گئی۔ دوسری طرف ’’ کرستوفر کولمبس‘‘ (۱۴۹۲ء) نے’’دیوانہ خواب دیکھ رہا ہے خیال میں‘‘، ارادہ ظاہر کیا کہ وہ یورپ سے ہندوستان مختصر ترین راستے سے پہنچنے کے بارے میں سوچ رہا ہے، اسے مدد دی جاۓ۔اعلان کے ساتھ سبھی حکومتوں نے جہاز فراہم کر دیا،خزانوں کے منہ کھول دیے،اور سیکڑوں معاونین فراہم کر دیے، کولمبس موت وحیات کی کشمکش میں سب کو لے کر بھٹکتارہا،منزل کیا ملتی’’امریکہ‘‘ مل گیا جو آج ساری دنیا کے لیے در دسر اورفتنہ وفساد کا سرخیل دسر دار بنا ہوا ہے۔
ایجادات واختراع اور عروج واقبال کے لیے حکومتوں کی سر پرستی اور سمجھ دار اہل علم کے مشورے، دعائیں،رہنمائی اور نیک نیتی بہت ضروری ہے۔ ورنہ امت کے لائق جوانوں کو زمانے کا ہر برانام تخریب کاری کا الزام اور دہشت گردی کا اتہام سہتے رہنا پڑے گا اور پوری قوم پر بدنامی کا ایسا دھبہ لگ جاۓ گا کہ اس کے نام اور کام سے ہر شخص پناہ طلب کرے گا۔
میں اپنی تحریر کی تلخیص دولفظوں میں کرنا چاہوں تو عرض کروں گا کہ ہمیں انبیائے سابقین اور سلف صالحین کی سیرتوں کو سامنے رکھ کر دعوت وتبلیغ کے ساتھ ملک کی مادی ضرورتوں کی تکمیل کی خاطر مدارس کے نصاب اور نو جوانوں کے ذہن میں ہر نفع بخش علم کے حصول اور خدمت خلق کو دینی فریضہ اور باعث اجر وثواب ثابت کرنا ضروری ہے۔ تبھی اس ملک میں ہماراوجودمعتبر اور محترم ہوگا اور ہماری دعوت اور آواز بااثر ہوگی اور ہمیں نظر انداز کرنے کی کسی کو جرات اور ہمت نہیں ہوگی۔
کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی