کسی بھی نظام فکر سے وابستہ حضرات اور اور کی ذہنی کاوشوں کو دبستان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
جب کسی خاص زمانہ میں مشابہ رجحانات، میلانات، انداز نظر، زاویه نگاہ کے باعث متعدد قلم کاروں کی تخلیقات میں تنوع کے باوجود خاص نوع کی تصوراتی وحدت بھی ملے تو گویا دبستان کی تشکیل ہوگئی اور اسی سے دبستان اور تحریک میں امتیاز کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ ہم نوا ادیبوں کی صرف ایک نسل تک محدود رہے تو یہ دبستان ہو گا لیکن اگر وقت گزرنے کے باوجود دبستان کے محرک تخلیقی رجحانات میں تسلسل برقرار رہے اور نئی نسل کے ادیب بھی ہم نوا ہو کر اس میں شامل ہوتے رہیں تو پھر یہ تحریک بن جاتی ہے، لہذا جب تک نیا ٹیلنٹ شامل ہوتا رہے گا تحریک فعال رہے گی۔ گویا دبستان گہرے پانی کی مانند محدود ہو تا ہے اور تحریک دریا کی مانند رواں دواں،
تنقید کیا ہے؟
”تنقید” عربی زبان کا لفظ ہے اور باب تفعیل سے تعلق رکھتا ہے ۔ تنقید کا مادہ ”نقد” (ن ق د) ہے۔ جس کا معنی ہے کھرے اور کھوٹے کی پہچان کر نا۔
تنقید ایک ایسی اصطلاح ہے جس میں کسی بھی شخص چیز یا پھر صنف کے منفی اور مثبت پہلو گنواۓ جاتے ہیں۔ دور جدید میں تنقید کو صرف نقص بیان کر نا تصور کیا جاتا ہے مگر ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔ کسی بھی شئ کی صرف خامیاں بیان کرنے کی اصطلاح ”تنقیص” کہلاتی ہے جس میں صرف اور صرف منفی پہلوؤں کو اجا گر کیا جاتا ہے ۔ تنقید کا قیام آج سے کئی سو سال پرانا ہے ۔ مغرب میں سب سے پہلے اس اصطلاح کو رواج ملا تھا انگریزی میں اسے Critism کہا جاتا ہے۔ اس کی بہت سی اقسام ہیں جنہیں دبستان بھی کہا جاتا ہے۔ تنقید کے ان دبستانوں میں سے چند کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:
مارکسی تنقید Marxist Criticism
یہ ایک تخلیقاتی اور جدلیاتی معیار کی بحث ہوتی ہے۔ جو کہ کارل مارکس کی طرف منسوب ہے۔ اس تحریک کا آغاز خاص طور پر ادبی مقاصد کے لئے نہ تھا، اس لحاظ سے یہ کسی حد تک نفسیاتی تنقید کے قریب ہوجاتی ہے۔
”مارکسی تنقید” میں ایک ناقد’ ادب، زندگی اور معاشرہ کے مادی ارتقاء میں شریک کار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ارتقاء کے مختلف مدارج کا عکس بھی پیش کرتا ہے۔ یعنی ادب کو امیر و غریب، حکمران و محکوم، سرمایہ دار و مزدور، کسان و زمیندار کی صورت میں پائی جانے والی طبقاتی کشمکش میں غریب اور پسے ہوئے طبقہ کا ساتھ اور اس کی طرفداری مقصود ہوتی ہے۔ میکسم گورکی کے کی رائے اور اس کا خیال ہے کہ:
’’ہماری تمام تصنیفات کا ہیرو مزدور ہونا چاہئے بالفاظ دیگر محنت کے عمل سے جنم لینے والا انسان‘‘۔
اس دبستان تنقید کے اہم شہسوار لینن، ماوزے تنگ، میکسم گورکی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، عزیز احمد وغیرہ ہیں۔
نفسیاتی تنقید Psychological Criticism
یہ ایک ایسا تنقیدی نظریہ ہے جسے آپ تخلیق اور لاشعوری محرکات کی طلسم کاری بھی کہہ سکتے ہیں۔ نفسیاتی تنقید کی اساس فرائڈ کا نظریہ لا شعور بنا پھر اس میں ایڈلر اور ژنگ کی تعلیمات سے مزید گہرائی پیدا کی گئی۔ اس تنقید میں اصناف ادب کے نفسیاتی محرکات کا سراغ، تخلیق کار کی شخصیت کی نفسی اساس کی دریافت اور نفسیاتی اصولوں کے سیاق وسباق میں مخصوص تخلیقی کاوشوں کی تشریح و توضیح اور پھر ان کے ادبی مرتبہ کا تعین شامل ہیں۔ ایچ سمرول نے ’’میڈنیس ان شیکیسپئر ٹریجڈی‘‘ میں شیکسپیئر کی یوں تشخیص کی کہ وہ مینک ڈیپریسیو تھا۔ یہ نیم دیوانگی کی وہ قسم ہے جس میں مریض پر خوشی اور پژمردگی کے دورے سے پڑتے ہیں۔ ایک وقت ضرورت سے زیادہ خوش تو دوسرے وقت غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ملتا ہے۔ بہت سے شعراء یوں غم اور خوشی کے درمیان پنڈولم کی طرح جھولتے رہتے ہیں۔
اس تنقید نے تو بڑے بڑے تخلیق کاروں کی جنسی بے راہ روی، خانگی ناچاقی، نشہ، جرم، ہم جنس پرستی، ذہنی امراض، افیونی ہونے وغیرہ کو بھی چھیڑا ہے اور اس سے نتائج برآمد کئے ہیں۔ مرزا ہادی رسوا اردو کا پہلا نفسیاتی نقاد ہے۔ جس نے ایک طوائف پر ناول ’’امراو جان ادا‘‘ لکھی ہے مرزا نے امریکہ سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی تھی اس تنقید کے مطابق کسی تخلیق کار کے ذاتی خطوط سے بھی اس کے لاشعور کو جانچا جا سکتا ہے جیسے شبلی کے خطوط عطیہ بیگم کے نام یا ’’شبلی کی حیات معاشقہ‘‘ سے شبلی کے جذباتی کشمکش کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
تاثراتی تنقید Impressionistic Criticism
یہ اصول نقد میں تاثرات کی تخلیق نو ہے۔ والٹر پیٹر کے نزدیک تاثراتی تنقید کو جمالیاتی تنقید کی غلو پسندی نے جنم دیا۔ اس کو امریکی نقاد جویل سپنگاراں نے جداگانہ دبستان کی شکل میں مشہور کرایا۔ بس جس نظم نے کسی نقاد کو متاثر کیا تو اس کے نزدیک وہ بہترین نظم ہے۔ اس تنقید کا خاصا یہ ہے کہ نقاد تاثرات اخذ کرتا ہے اور پھر ان تاثرات کو بیان کرتا ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر تاثراتی اور جمالیاتی تنقید کو مترادف سمجھا جاتا ہے حالانکہ دائرہ کار کے لحاظ سے جمالیاتی کے مقابلہ میں تاثراتی تنقید خاصی محدود ہے کہ اس میں صرف اور صرف تاثرات سے سروکار رکھا جا تا ہے جبکہ جمالیاتی تنقید کی اساس ایک باضابطہ فلسفیانہ نظام فکر پر استوار ہے۔
بحیثیت مجموعی تاثراتی تنقید کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں ادبی تنقید کے بنیادی مقصد یعنی ادب میں تعین قدر کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
اردو میں تاثراتی تنقید کے ضمن میں فراق گورکھپوری کی ’’اندازے‘‘ سب سے معروف تنقیدی کتاب ہے۔ اسی طرح محمد حسن عسکری بھی ’’انسان اور آدمی‘‘ میں تاثراتی تنقید کے بہت قریب نظر آتے ہیں۔ ان کے علاوہ ن۔ م۔ راشد بھی تاثراتی ذہن رکھتے ہیں۔
کلیم الدین احمد تاثراتی تنقید کو تنقید کے خانے سے باہر تسلیم کرتے ہیں، کہتے ہیں:
’’جو تاثراتی تنقید کو تنقید سمجھتا ہے وہ صحیح معوں میں نقاد نہیں ہو سکتا‘‘
جمالیاتی تنقید Aesthetical Criticism
یہ تخلیق میں حسن اور اسلوب میں حسن کاری کا مطالعہ ہے. ایک جرمن فلاسفر بام گارٹن نے سب سے پہلے 1737ء میں جمالیات کی اصطلاح وضع کی تھی۔ جمالیاتی تنقید کی اساس ان مظاہر حسن کے ادراک پر استوار سمجھی جانی چاہئے. جن کا ادبیات میں کسی نہ کسی ذریعہ سے اظہار کیا جاتا ہے اور جمالیاتی نقاد کے بموجب جن کی پرکھ میں ہی اصل فن پارہ کی شناخت مضمر ہے۔ تخلیق کار کی شعوری کاوش سے جب حسن کی صورت پذیری ہو، کسی مخصوص انداز سے اس کا اظہار ہو تو یہ جمالیاتی تخلیق ہوگی۔ والٹر پیٹر جمالیاتی تنقید کا اہم ترین علمبردار ہے۔
جمالیاتی تنقید، تنقید کے دیگر دبستانوں سے اس بنا پر ممتاز ہوجاتی ہے کہ اس میں حسن اور حسن کاری کے مطالعہ کو تنقید کی اساس ہی نہیں تصور کیا جاتا بلکہ ان کے علاوہ اور کسی چیز کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اسی لئے تو جمالیاتی نقاد ادبی تخلیقات میں حسن اور دلکشی پیدا کرنے والے خصائص کے تجزیہ اور مطالعہ کو اولین اور اساسی اہمیت دیتا ہے۔
جمالیاتی تنقید، تنقید کے دیگر دبستانوں سے بعض اساسی نوعیت کے اختلافات کی بنا پر یوں ممتاز ہوجاتی ہے کہ ایک تو اس میں تجزیاتی طریق کار کو بروئے کار نہیں لایا جاتا،اور دوسرے یہ فیصلہ تو صادر کرتی ہے لیکن یہ فیصلہ کسی اصول، لسانی قانون یا فنی ضابطہ پر استوار کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ نیاز فتح پوری کی تنقید کو اردو میں جمالیاتی تنقید کا سب سے اچھا نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عابد علی عابد بھی جمالیاتی تنقید کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔