عام طور پر طنز و مزاح کو ادب کی ایک صنف سمجھا جاتا ہے لیکن یہ وسیلہ اظہار ہے جس کی اپنی کوئی بیت نہیں ۔ نظم ونثر کی تمام اصناف میں پائی جاتی ہے ۔ یہ دونوں الفاظ عام طور پر ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں لیکن ان کے معنی مقصد اور طرز بیان میں نازک سافرق ہوتا ہے۔
"طنز” فرد اور سماج کی کمزوری، تضاد، توہم، ظلم جبر، فرسودہ خیالی اور بدصورتیوں گرفت کرتا ہے۔طنز کا مقصد فر داور معاشرے کی اصلاح ہوتا ہے یا ایک طرح سے سرجری کا عمل ہوتا ہے ۔ "مزاح” زندگی کی ناہمواریوں کے ہم دردانہ شعور کا نام ہے، ایسامذاق ہے جو بلندی کی طرف ابھرتا ہے، جس میں نفسیات، ندرت، ستھرا پن پایا جا تا ہے۔ طنز ومزاح کی مختلف قسمیں ہیں جیسے ہنزل، تمسخر، استہزا، تضحیک نوک جھونک، پھکر ، لعن طعن سب وشتم، ملیح، مذمت اور پیروڈی وغیرہ ۔
اردونثر میں طنز ومزاح کے ابتدائی نقوش داستانوں میں ملتے ہیں۔ فقرہ بازی، الھڑ پن، عیاری جیسے غیر معیاری لطائف اور فحش قصوں سے ہماری داستانیں بھری پڑی ہیں لیکن یہ ساری چیز معیاری ظرافت کی تعریف پر پورانہیں اترتیں ۔ معیاری ظرافت کی بنیاد غالب نے اپنے خطوط کے ذریعہ رکھی۔ غالب نے طنز ومزاح کا اعلی معیار قائم کیا ۔ نذیراحمد کے ناول توبتہ النصوح کا کردار مرزا ظاہردار بیگ ایک یادگار مزاحیہ کردار ہے ۔
طنز ومزاح کے فروغ میں "اودھ پنچ” کی خدمات اہم ہیں ۔ گو کہ اس کے مزاح کا معیار غالب سے مختلف تھا لیکن پہلی بار ایک اخبار نے بھر پور طنز بہ انداز اختیار کیا تھا۔ اور "اودھ پنچ” کے ایڈیٹر سجاد حسین خود اچھے لکھنے والے تھے ۔ان کی تصانیف "حاجی بغلول”، "طرح دار لونڈی” اور "احمق الدین” کو کافی شہرت ملی۔ رتن ناتھ سرشار نے "فسانہ آزاد” "اودھ پنج” اخبار میں قسط وار شائع کیا۔ انھوں نے اردو ادب کو "خوجی” کا لازوال کردار دیا۔ اودھ پنچ کے بعد سے تقسیم ہند تک لکھنے والوں میں مہدی افادی ، محفوظ علی بدایونی، خواجہ حسن نظامی، قاضی عبدالغفار اور ملا رموزی شامل ہیں۔ سلطان حیدر جوش نے بھی اس دور میں لکھا۔ ملا رموزی کی "گلابی ارد” کو کافی شہرت حاصل ہوئی ۔ مولا نا ظفر علی خاں غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک نے فکاہی کے کالم لکھے ۔ سید حبیب چراغ حسن حسرت نے بھی فکاہیہ کالم لکھے۔حاجی لق لق، عبد الماجد دریا بادی، سید سلیمان ندوی صحافتی مزاح کی روشن مثالیں ہیں۔
انگریزی ادب سے جن مزاح نگاروں نے استفادہ کیا ان میں مرزا عظیم بیگ چغتائی، شفیق الرحمن اور شوکت تھانوی کے نام نمایاں ہیں۔
آزادی سے قبل لکھنے والوں میں مرزا فرحت اللہ بیگ، سید احمد شاہ، بخاری پطرس، امتیاز علی تاج، رشید احمد صدیقی، کنھیالال کپور اور کرشن چندرو غیرہ شامل ہیں ۔ رشید احمد صدیقی ، کرشن چندر فکر تونسوی وغیرہ نے آزادی کے بعد بھی خوب لکھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد وہاں جو مزاح نگار ابھرے ان میں ابراہیم جلیس ، ابن انشاء، کرنل محمد خاں، مشتاق احمد یوسفی، سید ضمیر جعفری، طاہر مسعود، محمد خالد اختر اور عطالحق قاسمی شامل ہیں ۔ان میں سب سے روشن نام مشتاق احمد یوسفی کا ہے۔
اردو طنز و مزاح کے فروغ میں زندہ دلان حیدرآباد اور ماہنامہ شگوفہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ شگوفہ برصغیر کا واحد رسالہ ہے جو طنز یہ ومزاحیدادب کی ترجمانی کرتا ہے جس کے ایڈیٹر ڈاکٹر مصطفی کمال ہیں ۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں مزاح لکھنے والوں میں یوسف ناظم، رشید قر یشی، بھارت چند کھنہ، تریندر لوتھر، مجتبی حسین، مسیح انجم، پرویز اللہ مہدی، عاتق شاہ، دلیپ سنگھ، فیاض احمدفیضی، ڈاکٹر عابد معز، عباس متقی، وجاہت علی سندیلوی، برق آشیانوی وغیرہ شامل ہیں ۔ ان میں مجتبی حسین کو خصوصی مقام حاصل ہے۔
خواتین مزاح نگاروں میں شفیقہ فرحت، حبیب ضیاء، لئیق صلاح، حلیمہ فردوس وغیرہ شامل ہیں ۔
اردوطنز ومزاح میں فرحت اللہ بیگ، پطرس، رشید احمد صدیقی، مشتاق احمد یوسفی، یوسف ناظم اورمجتبی حسین کی خدمات بے حد اہم ہیں ۔