تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور اس کے بقا کے لئے ایک لازمی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے اندر نہ صرف یہ کہ قوم کی تعمیر اور اس کی ترقی مضمر ہے بلکہ قوم کے احساس و شعور کو جلا بخشنے کی قوت بھی پنہاں ہےچنانچہ جن قوموں نے تعلیم پر خصوصی توجہ دی اور اس کے لئے مناسب منصوبہ بندی کی وہ ترقی کی منزلیں سر کرتی چلی گئیں لیکن جیسے ہی علمی انحطاط کا شکار ہوئیں ان کا شیرازہ منتشرہو گیا۔
مسلم قوم خود اس تلخ تجربے سے گزر چکی ہے ، مسلمانوں نے جب تک تعلیم کی حقیقت کو ملحوظ نظر رکھا دنیا کے منظر نامے پر چھا ئے رہے اور دنیا علم کی روشنی سے معمور ہو تی گئی لیکن جوں ہی اس سلسلے میں غفلت کے شکار ہوئے ان کے عروج کا ستارہ غروب ہوتا چلا گیا۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی شرح خواندگی کا ریکارڈ اس امر پر شاہدہیں کہ کسی قوم کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کس قدر اہم مقام رکھتی ہے۔ دنیا میں بالادستی قائم رکھنے والے ممالک امریکہ، لندن، آسٹریلیا، کناڈا، فرانس، جرمنی وغیرہ کی جہاں شرح خواندگی 99 فیصد ہے، وہیں ناروے، روس، قزاقستان نے تو بالترتیب 100 فیصد، 99.6 فیصد، 99.5 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ اپنی دور اندیشی کا مظاہرہ کر کے تعلیمی میدان میں اپنا ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے۔
تعلیم کے تئیں ان ممالک میں موجود بیداری جو نہ صرف انھیں داخلی بلکہ خارجی طور پر بھی مضبوط بناتی ہے،۔
ہمارے ملک کی شرح خواندگی میں اگرچہ کہ پچھلے رکارڈ کے مقابلے کچھ اضافہ ہوا ہے لیکن مجموعی طور ابھی بھی مزید توجہ کی ضرورت ہے خصوصاً پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کی تعلیمی صورتِ حال اب بھی ناگفتہ بہ ہے بنظرِعمیق اگر دیکھا جائے تو خواتین اس شعبہ میں مردوں سے بہت پیچھے نظر آتی ہیں تعلیم کے تعلق سے مزید لاپروائی اور بے توجہی حد درجہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لئے عوامخصوصاً اقلیتوں و پچھڑی بردری کو منصوبہ بند انداز سے تعلیم کی طرف قدم بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ ماہرین تعلیم، دانشوروں اور سیاسی و سماجی رہنماؤں کو بھی اس سلسلے میں مشعل راہ کا کردار نبھانا چاہئے تاکہ شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہو اور تعلیم کا معیار بھی زیادہ سے زیادہ بلند ہو سکے ،عصر حاضر میں علم کی فراہمی کے لئے اسکول و کالجز کی شکل میں جو تعلیمی نظام قائم ہےاس نظام کی مضبوطی و پائیداری ہی ملک و سماج کے مستقبل کی ضمانت ہے۔ آزاد ی کے بعد ہندوستان کی تعمیر نو کا روڈمیپ تیار کرنے کے لئے جو پلاننگ کمیشن تشکیل دیا گیا تھا اس نے اپنی سفارشات کے مقدمے میں بڑی اہم بات کہی تھی۔
’’ہندوستان کی تقدیر کا منصوبہ کلاس روم کی چہار دیواری کے اندر طے کیا جارہا ہے‘‘۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج تعلیم کی اہمیت کو ہر سطح پر محسوس کیا جارہا ہے ۔ بلکہ مبالغہ نہ ہو گا اگر یہ کہا جائے کہ روٹی ‘ کپڑا اورمکان کی بنیادی ضروریات میں اب ’تعلیم ‘ کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تعلیم جس قدر عام ہوئی ہے اسی قدر معیار تعلیم میں گراوٹ بھی آئی ہے یہاں تک کہ تعلیم کے بنیادی تصورات اور اس کے مقاصد بھی مفقود ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ ہر قسم کے تعلیمی اداروں کی کثرت کے باوجود خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں۔ ان سے خواندگی میں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن تعلیمی معیارات دن بدن مائلِ رو بہ زوال ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ہر قسم کے ہر ممکن سر ٹیفکیٹ، ڈپلومے، اور ڈگریاں تو بڑے ہی منظم طریقے سے دی جاری رہی ہیں لیکن ان اداروں سے فہم وفراست رکھنے والے ایسے علمی ماہرین تیار نہیں ہو پا رہے ہیں جو انسانیت کی رہنمائی کے لئے مطلوب ہیں ، اس کی بنیادی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ موجود دور میں تعلیم انسانیت کی فلاح و بہبودی کا سر چشمہ ہونے کے بجائے ایک تجارت بن چکی ہے ایک طرف درجہ اطفال سے لیکر اعلی تعلیمی سطح تک نجی تعلیمی اداروں کی اجارہ داری سرپرستوں کی کمر توڑ رہی ہے تو دوسری طرف سرکاری اداروں کے گرتے تعلیمی معیار کے سبب لوگوں کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے، لہذا اب وقت آگیا ہے کہ اربابِ حل و عقد و شائقینِ علم و دانش بیدار ہوں اس کی طرف ریاستی اور ملکی سطح پر خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ مزید لاپرواہی اور بے توجہی حد درجہ مضر ثابت ہو سکتی ہے۔اس سلسلے میں درج ذیل نکات کو مدنظر رکھا جا سکتا ہے:
اس وقت ایک ایسے نئے تعلیمی مزاج کی ضرورت ہے جوسیاسی اثرات سے بالکل آزاد ہو نہ کسی سیاسی پارٹی کے زیرِ اثر ہو اور نہ کسی حکومت کے دباؤ میں۔
.1تعلیم میں اخلاقی عناصر کی شمولیت بطورِ لازمی ہو، جس کا مقصد نئی نسل کی ذہنی اور اخلاقی تربیت ہو، اس مقصد کے لئے پوری فراخ دلی کے ساتھ ان اخلاقی اور روحانی شخصیتوں کاتعارف ہو جن کی اخلاقی بلندی، پاکیزہ نفسی، روحانیت اور انسان دوستی ایک مسلم حقیقت ہو خواہ وہ شخصیات کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں
.2مسلم اداروں، مکاتب، مدارس وغیرہ میں انفارمیشن ٹکنالوجی سنٹر کا قیام کیا جانا چاہئے، کیونکہ اس کے بغیر ہم دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتے۔
.3ماہرین تعلیم، سیاسی و سماجی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ ایسے پروگراموں سے عوام کو روشناس کرائیں جو حکومت کے ذریعہ تعلیمی، اقتصادی و سماجی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔
.4مدارس کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ اسکول ، کالجز اور یونیورسٹیز قائم کی جائیں کیونکہ جہاں تک دینی تعلیم کی ضرورت پوری کرنے کا سوال ہے تو پورے ہندستان میں مکاتب کا جال بچھا ہواہے لیکن ہائر ایجوکیشن کیلئے مسلمانوں کے پاس اتنے بڑے ملک میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے علاوہ کوئی بھی ادارہ نہیں ہے جو انتہائی قابل افسوس ہے،
.5مدارس میں عصری موضوعات کو بطور مضمون پڑھانے کی ضرورت ہے ، مدارس کے ذمہ داران کو اس بات کاادراک ہونا چاہئے کہ مدرسہ کا ہر طالبعلم داعی نہیں بن سکتا اسلئےخواہشمند طلبہ کیلئے ‘ دعاۃ ‘ کاعلیحدہ کورس ہونا چاہئےاور یونیوسٹی جانے کیلئے خواہشمند طلبہ کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی ہونی چاہئے ۔
.6مدرسوں کی اسناد کو حکومت سے منظور کرانا چاہئے تاکہ سرکاری نوکریوں کے حصول میں آسانی ہو
.7 موجودہ زمانہ میں مدرسوں میں انگریزی اور ذرائع ابلاغ ( میڈیا )کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
.8لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم جو صرف امورخانہ داری تک منحصر نہ ہو پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ لڑکیوں کے مدرسوں کی طرح گرلس کالجز قائم کرنے کی شدید ضرورت ہے تبھی آنے والی نسلوں کی صحیح پرورش وپرداخت ممکن ہو سکتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہمیں یہ بات از بر کر لینی چاہئے کہ انسان کی زندگی میں تعلیم کا مقام بہت اونچا ہے۔ تعلٓیم ہی ہے جو ہماری طرز زندگی کے معیار کو اعلیٰ بنا سکتی ہے۔ ہمیں اگر خود کو مضبوط بنانا ہے تو تعلیم کو بطور ہتھیار اپنانا ہوگا۔ ہمارا یہ قدم نہ صرف ہمارے لئے ترقی کا باعث بنے گا، بلکہ ہمارے ساتھ ساتھ ہمارا ملک بھی ترقی کی راہ میں نئی منزلیں طے کر سکے گا۔
استفادہ:
۱۔نظام تعلیم کی اہمیت: از مولانا سید ابوالحسن علی الندوی ۲۔اسلامی نظام تعلیم: از سید ریاست علی ندوی |