غالب کی خطوط نگاری : فنی خصوصیات

 مرزا اسد اللہ خاں غالب کا ذکرآتے ہی ہمارا ذہن وشعور  ان کی شاعرانہ عظمت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے لیکن غالب کے ساتھ یہ بڑی نا انصافی ہوگی کہ ہم ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شعری تخلیقات میں تلاش کریں اور ان کے نثری سرمایے کو نظر انداز کرد یں جواردونثر کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، اور یہ نثری سرمایہ ان کے خطوط کی شکل میں موجود ہے۔

غالب جب اردو نثر کے میدان میں آئے تو فورٹ ولیم کالج  کلکتہ، دلی کالج اور صحافت کی کوششوں سے اردو نثر ترقی کی کئی منزلیں لے کر چکی تھی۔ غالب نے مختلف موضوعات پر زندگی بھر فارسی زبان میں لکھایہاں تک کہ خطوط بھی فارسی میں لکھے لیکن آخری عمر میں جسمانی کمزوری کی وجہ سے ذہنی مشقت کے قابل نہ رہے تو انھوں نے اپنی مادری زبان اردو میں خطوط نگاری شروع کر دی، اردو  زبان میں خطوط نویسی کے لطف سے جب آشنا ہوئےتو پھر انہوں نے فارسی میں خط لکھنا تقریبا ترک ہی کر دیا۔

 غالب کے خطوط کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔عود ہندی ، اردوئےمعلی اور مکاتیب غالب ۔ غالب کے فاری خطوط میں مقفی ومسجع عبارت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اردو خطوط نگاری کو اہم مقام عطا کیا ہے ۔ ان کے خطوط ادبی حیثیت سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔غالب نے اپنے خطوط میں اپنی نجی زندگی کے حالات کو قلم بند کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کے خطوط کے مطالعے سے ان کی زندگی کے بعض پوشیدہ گوشوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو غالب کی خطوط نگاری میں مندرجہ ذیل اہم خوبیاں اور خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔

مروجہ القاب و آداب کے اختیار میں اختصار

اردوزبان میں غالب سے پہلے جو خطوط لکھے جاتے تھے ان میں طویل القاب و آداب کی بھرمار ہوتی تھی لیکن انہوں نے اپنے خطوط میں مروجہ طویل القاب و آداب کو نہایت مختصر کر دیا۔ مثلا بھائی ، برخوردار، میرمکرم ، میر مہدی ، بندہ پرور اور برادر وغیرہ۔

غالب کے خطوط کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ انہوں نے خطوط نگاری کرتے وقت اپنے کو غالب کر دیا ہے ۔ اس طرح کے خطوط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل غالب مکتوب نگار نہیں وہ کوئی اور شخص ہے ۔ مثلاً میر مہدی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

میرا پیارا مہدی آیا،آؤ بھائی مزاج تو اچھا ہے؟ یہ رام پور ہے دارا سرور ہے جو لطف یہاں ہے وہ اور کہاں ہے ۔

 لسانی خصوصیات

غالب نے اپنے خطوط میں اردو زبان وادب کے قواعد سے بھی بحث کی ہے اور کہیں کہیں قافیہ آرائی بھی ہے ۔ غالب کی قافیہ آرائی کی مثال مندرجہ ذیل ہے:

جوتمہارا ڈھنگ ہے وہی میرارنگ ہے بندہ بے ادب نہیں تحسین طلب نہیں۔

  انشاء پردازی کی جھلک

غالب نے اپنے خطوط میں جگہ جگہ ایسے جملے لکھے ہیں جو انشاء پردازی کے بہترین نمونے ہیں۔ ان کے خطوط کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے خط لکھتے وقت کہیں کہیں مناسبت سے اشعار کا اچھا استعمال بھی کیا ہے اس سلسلے میں چودھری عبدالغفور ، حاتم علی مہر کو لکھے گئے خطوط مثال کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں ۔

  شوخیٔ تحریر

غالب کے خطوط کی ایک اہم خصوصیت ان کی شوخی و ظرافت ہے ۔اردوخطوط نگاری میں غالب سے پہلے جو خطوط لکھے جاتے تھے اس میں شوخی وظرافت کم ہی دیکھنے کوملتی ہے، لیکن جب غالب نے خطوط نگاری کا آغاز کیا تو اس جانب توجہ دی اور اپنے خطوط میں شوخی و ظرافت کے اسلوب کو بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔ غالب کے خطوط پڑھنے کے بعد آدی تھوڑی دیر کے لئے اپنا غم بھول جا تا ہے۔ اس سلسلے میں مولا نا حالی لکھتے ہیں:

ظرافت مزاج میں اس قدر تھی کہ اگر ان کو حیوان ناطق کے بجائے ’’حیوان ظریف‘‘ کہا جاۓ تو بجا ہے۔ حسن بیان، حاضر جوابی اور بات میں بات پیدا کرنا ان کی خصوصیات میں سے شامل ہے۔

اسی طرح حامد حسن قادری غالب کی شوخی تحریر کے بارے میں اپنےخیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے:

 غالب کی سب سے بڑی خوبی جس نے بقول مولانا حالی کے ان کے مکاتیب کو ناول اور ڈرامہ سے زیادہ دلچسپ بنادیا ہے وہ ان کی شوخی تحریر ہے۔

منظر نگاری

غالب کے خطو میں منظر نگاری کی اہم خوبیاں پائی جاتی ہیں اس کا ثبوت  غالب کے خطوط کےمطالعے  سے مل جاتاہے ۔ غالب نے جو خطوط لکھے ہیں اس میں مناظر فطرت کی بھر پور عکاسی پائی جاتی ہے اور جگہ جگہ دلفریب ماحول کی منظر کشی بھی ملتی ہے۔

جب ہم مجموعۂ خطوط ’’عود ہندی‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ غالب نے اپنے خطوط میں جن اچھوتے مناظر کا تذکرہ کیا ہے اس کی مثال غالب سے قبل کے خطوط نگاروں کے یہاں نہیں ملتی ۔چناچہ میر مہدی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

صبح کا وقت ہے جاڑا خوب پڑتا ہے انگیٹھی سامنے رکھی ہے۔ دوحرف لکھتا ہوں،آگ تا پیا جاتا ہوں۔

تمثیل نگاری

غالب کے خطوط میں منظر نگاری کے ساتھ ساتھ تمثیل نگاری کی جھلک بھی پائی جاتی ہے۔ غالب کے خطوط میں تمثیل نگاری کی مثال مرزا علاؤ الدین کے نام لکھے اس خط میں ملتی ہے:

تیرہ برس حوالات میں رہا، ساتویں رجب سن ۱۲۲۵ہجری کو میرے  واسطے حکم دوام جبس صادر ہوا اور ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی اور دلی شہر کوزندان مقرر کیا اور مجھے اس زندان میں ڈال دیا نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا ، برسوں بعد جیل خانہ سے بھاگا تین برس بلادشرقیہ میں پھرتا رہا ، پایان کار مجھے کلکتہ سے پکڑ لائے اور پھر اس مجلس میں بیٹھادیا جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے دو ہتھکر یاں اوربڑھادیں۔

مذکورہ خط میں مرزا غالب نے قیام آگرہ کو حوالات سے تمثیل دی ہے۔ بیڑی سے مراد بیگم سے شادی ہے۔ بلا دشرقیہ سے مراد کلکتے کا سفر ہے ۔ ہتھکڑیوں سے مراد باقر علی خاں اور حسین علی خاں ہیں جو زین العابدین کے بیٹے تھے جن کی پرورش غالب کررہے تھے۔

  مذہبی بیگانگی

غالب کے یہاں مذہبی بیگانگی زندگی بھر رہی اور یہ مذہبی بیگانگی اور بے توجہی ان کی نثر نظم دونوں میں شوخی ظرافت کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ اپنے ایک خط میں وہ منشی نبی بخش کو لکھتے ہیں:

 یقین ہے کہ وہ اور آپ میرا عذر قبول کریں گے اور مجھ کو معاف رکھیں گے۔خدا نے مجھ پر روزہ نماز معاف کر دیا۔ کیا تم اور تفتہ ایک دیباچہ معاف نہیں کرو گے۔

  علمی وادبی مباحث

غالب کے خطوط میں جگہ جگہ علمی وادبی مباحث ملتے ہیں ۔انہوں نے اپنے خطوط میں بڑے بڑے علمی ، شعری اور ادبی مسئلوں کو حل کیا ہے اور اپنے زمانے میں شائع ہونے والی کتابوں کی غلطیوں کی جانب نشاندہی کی ہے اور اردو زبان وادب کےبارے میں بھی گفتگو کے میں جوبھی نکات زیر بحث تھے غالب نے ان تکتوں کو اپنے خطوط کے ذریعہ حل کر دیا ہے۔ غالب کے خطوط میں علمی وادبی مسائل کا بیان چودھری عبدالغفور اور مولوی عبدالرزاق شاکر کو لکھے گئے خطوط میں ملتاہے۔

مراسلہ بشکل مکالمہ

غالب نے اردو خطوط نگاری کو جو قابل فراموش چیز دی ہے وہ ہے ان کا مراسلہ کو مکالمہ بنانا۔ مرزا غالب خطوط نگاری کرتے وقت ہمیشہ اس بات کا دھیان دیتے تھے کہ جو بات لکھی جارہی ہے وہ مکتوب الیہ پڑھتے وقت ایسا محسوس کرے جیسے کہ خط لکھنے والا اور خط پڑھنے والا دونوں آمنے سامنے بیٹھ کر آپس میں گفتگو کر رہے ہیں ۔ مراسلہ کو مکالمہ بنانا غالب کے خطوط کی سب سے اہم اور نمایاں خوبی ہے۔ چنانچہ وہ اپنے ایک خط میں مرزا حاتم علی مہر کو لکھتے ہیں:

 میں نے خط لکھنے کا وہ ڈھنگ نکالا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنادیا ہے۔ ہزاروں کوس سے بزبان قلم با تیں کیا کرو اور ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔

 اسی طرح غالب میر مہدی مجروح کو ایک خط میں لکھتے ہیں جس میں مکالماتی انداز اختیار کرتے ہوئے ان سے کچھ اس طرح مخاطب ہوتے ہیں:

 اے جناب میرن صاحب ! حضرت آداب! کہو صاحب آج اجازت ہے میر مہدی کے خط کا جواب لکھنے کو؟ حضور کیا میں منع کرتا ہوں میں نے تو عرض کیا تھا کہ اب وہ تندرست ہو گئے ہیں۔

  ماحول کی عکاسی

 جب ہم مرزا غالب کے خطوط کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں اس زمانے کے حالات و واقعات کا بیان ملتا ہے۔ گویا کہ غالب نے اپنے خطوط میں دہلی اور دوسرےشہروں کے بسنے والے اپنے دوست احباب کے حالات و واقعات کو قلم بند کیا ہے جس کو پڑھنے سے غالب کے زمانے کے علمی وادبی حالات سماجی اور سیاسی واقعات کا پتہ ملتا

اس کے علاوہ غالب کی خطوط نگاری کی دیگر خصوصیات بھی ہیں جن کا احاطہ کرنا اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں لیکن مسلم حقیقت ہے کہ ان کے خطوط نے کئی اعتبار سے جدید نثر کو ایک نئی سمت عطا کی اور اسے ایک نئے انداز بیان سے ہمکنار کیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر احمد فاروقی لکھتے ہیں:

مرزا غالب نے صرف اردو شاعری ہی کو نیا رنگ و آہنگ نہیں دیا بلکہ اپنے خطوط کے ذریعہ جد ید اردو نثر کی بنیاد بھی اپنے با برکت ہاتھوں سے رکھی۔

اس میں شک نہیں ہے کہ غالب نے اپنے مکتوب نگاری کے ذریعہ اردونثر کو نئے انداز بیان اور نئی جہتوں سے روشناس کیا جس کا اعتراف تمام ارباب فن اور اہل قلم نے کیا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ:

 سرسید سے قبل اگر کوئی نثر لائق پیروی ہے تو وہ مرزا غالب کی نثر ہے۔

غالب کے خطوط میں مقفی ومسجع عبارتیں بھی پائی جاتی ہیں لیکن بقول مولانا حالی مقفٰی و مسجع عبارتیں اکثر وبیشتر  ان خطوط کی ہیں جن میں شوخی وظرافت مقصود ہوا کرتی تھی لیکن کبھی کبھار سنجیدہ خطوط میں بھی اس کی جھلک مل جاتی ہے ۔ چنانچہ میر مہدی مجروح کو ایک خط میں اس طرح مخاطب کرتے ہیں:

سید صاحب ! نہ تم مجرم نہ میں گنہگار ، تم مجبور میں لا چار،  لواب کہانی سنو، میری سرگزشت میری زبانی سنو، نواب مصطفی خان بہ معیادسات برس قید ہو گئے تھے سو ان کی تقصیر معاف ہوئی اور ان کو رہائی ملی….

واضح رہے کہ غالب نے خطوط نگاری کواپنا کار وباری وسیلہ بنایا اور مشغلۂ فن بھی اس سلسلے میں غالب کا ایک شعر ہے ۔

خط لکھیں  گے گرچہ مطلب کچھ نہ  ہو
 ہم تو ہیں عاشق  ہیں تمہارے  نام کے

 خلاصہ کلام

مختصر یہ ہے کہ غالب کے خطوط اردوزبان وادب کا قیمتی سرمایہ ہیں اور یہ خطوط اردونثر کی تشکیل جدید کا ایک اہم سلسلہ ہیں جواردونثر نگاری کو ایک نئی سمت اور نئی منزل کی طرف گامزن کرتے ہیں۔ بقول رشید احمد صدیقی:

اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا تو  میں بلا تکلف کہوں گا غالب اور تاج محل ۔

اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب کا مقام کس قدربلند ہے۔ غالب کے خطوط نے اردو نثر میں اضافہ کر کے اس کو  چار چاند لگا دیے۔ جدید اردو نثر در اصل غالب کے خطوط کی مرہون منت ہے۔

اشتراک کریں