تیرا زیور ہے حیاء ! دخترانِ امت کے نام۔۔۔۔

تیرا زیور ہے حیاء، دیکھ یہ زیور تو نہ بیچ
سر پہ اسلام کا لیبل تو لگا رہنے دے

سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ حیا کسے کہتے ہیں اور اس کی تعریف کیا ہے؟

حیاء کی تعریف

امام راغب اصفہانی اور امام بیضاوی حیا کی تعریف میں لکھتے ہیں:

إنقباض النفس عن القبيح مخافة الذم

یعنى مذمت اور بدنامی کے خوف سے خود کو غلط اور انسانیت و شرافت کے خلاف افعال و حرکات سے روک لینا حیا کہلاتا ہے

معلوم ہوا کہ حیا ایک ایسی کیفیت اور ایک ایسے جذبے کا نام ہے جو اس وقت ابھرتا اور پیدا ہوتا ہے جس وقت انسان کوئی ایسا کام کرنے لگے جس کے متعلق احساس ہو کہ وہ غلط ہے یا انسانیت و شرافت کے خلاف اور اس کے متصادم ہے،

حیاء کا یہ خاصہ مرد ہو یا عورت فطری طور پر دونوں کے اندر ودیعت شدہ ہے لیکن عورتوں کی ساخت کچھ اس نوعیت کی ہے کہ ان کے اندر یہ خصلت مردوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ اور بہت زیادہ ہے۔ گویا عورت اور حیاء کے مابین اس قدر گہرا اور اٹوٹ بندھن ہے کہ حیاء کو عورت کا لباس اور اس کا زیور کہا گیا ہے۔ حیاء کا یہ وصف مذہب اسلام کی نظر میں قابل تعریف بھی ہے اور لائق تحسین بھی۔ کہیں اسے الحياء كله خير کے پیرائے میں خیرِ کل کہا گیا ہے تو کہیں اسے الحياء شعبة من الإيمان کہہ کر اسے ایمان کا ایک شعبہ اور اس کی ایک شاخ کا درجہ دیا گیا ہے۔

بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ سے مروی ایک روایت ان الفاظ میں منقول ہے:

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أشد حیاءً من العذراء في خدرها

جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ گھر کے گوشے میں پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے.

اس حدیث کے ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس میں بظاہر تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل حیاء کا بیان ہے لیکن اشارةً توجہ اس امر کی طرف بھی دلائی گئی ہے کہ حیا عورت کا خاص وصف ہے۔

ایک عورت شرم و حیا کا پیکر ہوا کرتی ہے جو کہ عورت کا حقیقی حسن بھی ہے اور اس کی عفت و پاکدامنی کا جوہر بھی، اور اس کا یہ وصف اسلام کے عین موافق اور اس کا ہمنوا بھی۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ کی اسلام ہی عورت کی حیا کا سچا پاسبان، سچا محافظ اور ضامن ہے، اس کے سائے میں رہ کر ہی ایک عورت صحیح اور حقیقی طور پر حیاء کے زیور سے آراستہ رہ سکتی ہے۔

ایک عورت حیا دار عورت بن کر زندگی گزار سکے، اس کی عزت و ناموس پر کسی قسم کا کوئی حرف نہ آ سکے، اور ایک باوقار و باعزت فرد کی حیثیت سے وہ سماج و معاشرے کا ایک حصہ, اس سماج وہ معاشرے کے افراد کے لئے ایک اہم اور مثالی کردار بن سکے یہی اسلام کا منشا اور اس کا مقصد ہے، اس مقصد کے تحت مذہب اسلام دو ناحیوں اور دو پہلوں سے اپنی ہدایات اور اپنے احکامات نازل کرتا:

ایک تو یہ کہ وہ عورت کو خود مخاطب کرتا ہے اور اسے اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ کہ وہ اپنی زندگی کے شب و روز اس طرح گزارے کہ اس کی حیاء اور اس کے ناموس پر کسی قسم کا کوئی حرف نہ آسکے۔

دوسری طرف مردوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ان کی طرف سے کسی ایسے فعل و حرکت کا صدور نہ ہو جس سے ایک عورت کا وقار اور اس کی حیا مجروح ہو۔

چنانچہ اسلامی نقطۂ نظر سے عورت کے لئے ایک الگ دائرۂ کار متعین کیا گیا ہے اور اس کے لئے اس کے گھر کو اس کی اصل آماجگاہ متعین کرکے اسے یہ تعلیم دی گئی ہے :

وقرن في بيوتكن ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى

کہ تم اپنے گھروں کو ہی اپنے لئے لازم پکڑلو اور دور جاہلیت کی طرح اپنے حسن و جمال کی نمائش نہ کرتی پھرو

اس حکم سے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس شرم و حیا کی تم آمین ہو تو اس پر پورے طور پر باقی رہ سکتی ہو اسلام تمہیں اس کی ضمانت دے سکتا ہے، مگر اس کے لئے شرط لازمی ہے کہ بلاضرورت اپنے گھر سے باہر نہ نکلو،البتہ اگر شدید ضرورت کے تحت گھر سے نکلنا ہی پڑے، گھر سے نکلے بغیر کوئی چارہ نہ تو

یونین علیھن من جلابيبهن

اپنے اوپر دوپٹہ یا نقاب ڈال لیا کریں۔

عورتوں کو گھروں میں رہنے اور باہر نہ نکلنے کا تاکیدی حکم لگانے کے بعد اسلام مردوں کو ان الفاظ میں متنبہ کرتا ہے:

قل للمؤمنين يغضوا من ابصارهن ويحفظوا فروجهن ذلك أزكى لهم

اے بنی مومن مردوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ کام ان کے حق میں زیادہ پاکیزہ ہے۔

ایک طرف عورت کو اپنے گھروں میں سکونت اختیار کرنے اور بلا وجہ گھر سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت دی گئی تو دوسری طرف مردوں کو اس بات کی تلقین کی گئی:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ‎﴿النور:٢٧﴾‏

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔

کتاب وسنت میں اس طرح کے بہت سارے احکامات آپ کو نظر آئیں گے جس میں مرد اور عورت کو الگ الگ پیرائے میں الگ الگ انداز میں مخاطب کیا گیا ہے، مخاطب اگر عورت ہے تو مقصد یہ ہے کہ اس کے اندر شرم حیا کی جو فطری خصلت رکھی گئی ہے ایک عورت مکمل اس کی پاسداری کرے کا اظہار کرے اور پوری زندگی حیا کا ایک پیکر بن کر رہے۔ اپنے قول و فعل اور اپنے عمل سے کسی ایسے ردعمل کا اظہار نہ ہونے دے جس سے حیا پر حرف آئے اور شرم و حیا مجروح ہو۔

اور اگر مخاطب مرد ہے تو اس سے مقصود یہ ہے کہ پہلے تو وہ خود اخلاق کے پیرائے میں ڈھل کر زندگی گزارے اور اپنے رب کا مطیع اور فرماں بردار بندہ بن کر اپنے شب وروز گزارے اور ساتھ ساتھ اسے اس بات کا بھی بھر پور احساس ہو کہ ایک عورت جو معاشرے اور سماج کا اٹوٹ حصہ ہے وہ شرم وحیا کا پیکر ہوا کرتی ہے اسے اپنے کردار و عمل سے کبھی بھی اس کے ساتھ اس نوعیت کا معاملہ یا برتاؤ نہ کرے جس کے سبب عورت کی عزت و ناموس پر حرف آئےاور اس کی حیا مجروح ہو۔

یہ رہا عورت کی حیا اور اس کی بقا کے سلسلے میں اسلام کا نقطۂ نظر اور اس کا موقف۔

اب غور یہ کرنا ہے کہ آج ہمارا رویہ اور ہمارا رد عمل ان تعلیمات سے کتنا میل کھاتا ہے، اور کہاں تک ہم ان تعلیمات پر پورے اترتے ہیں؟؟

جب ہم اپنا اور اپنے آس پاس کا جائزہ لیتے ہیں اور موجودہ حالات کا اسلامی تعلیمات سے موازنہ کرتے ہیں تو رزلٹ دیکھ کر حد درجہ افسوس اور دکھ ہوتا ہے، کیونکہ حالات اسلامی مزاج کے سراسر مخالف اور منافی ہو چکے ہیں،

اسلام نے تو حیا کے فروغ اور اس سے متصف ہونے پر زور دیا تھا اور عریانیت پر زبردست قدغن اور روک لگائی تھی، لیکن ہماری زندگی میں آج شرم و حیا کے اس عظیم معیار کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں۔

عریانیت تو اس دور کا خطرناک فتنہ بن چکا ہے جس نے جذبات کی دنیا میں آگ لگا دی ہے، اور انسان کو شہوت کا دلدادہ اور ہوس کا نشانہ بنا دیا ہے،

عریانیت ایک ایسی حیا سوز حرکت ہے جس کو اسلامی حیا کسی حال میں برداشت نہیں کر سکتی۔

آخر اس بے حیائی کے اسباب کیا ہیں؟

عریانیت اور فحاشی کے فروغ کے وجوہات کیا ہیں؟

اور اس کے روک و سدِ باب کے لئے ہمیں کیا اقدام کرنے کی ضرورت ہے؟ آج ہمیں اس تعلق سے سوچنا اور غور کرنا ہوگا۔

بے حیائی و عریانیت کے فروغ اور اس کے پھیلاؤ کے جہاں بہت سارے اسباب و محرکات ہیں ان میں ان تین چیزوں کا رول سب سے زیادہ ہے:

بے حیائی کے پھیلاؤ اور اس کے فروغ میں کہیں نہ کہیں ایک بڑا رول ادا کرنے والے ہیں والدین اور سرپرست حضرات، کیونکہ تربیت کے سلسلے میں ان کی طرف سے حد درجہ کوتاہی و کسلممندی کا صدور ہو رہا ہے مغربی تہذیب و تمدن اور وہاں کے لباس و پوشاک اختیار کرنے کی مکمل چھوٹ اسلامی تہذیب و تمدن کی دیوار میں شگاف پیدا کر رہی ہے، ماڈرن لباس میں ملبوس ہو کر پارکوں اور سینما گھروں میں گھومنا باعثِ عزت و شرم سمجھا جانے لگا ہے، غیرت حجاب اور خلاف شرع عادات و اطوار پر کوئی روک ٹوک نہیں کرتا بلکہ سرپرست سمجھے جانے والے لوگ خود اسلام اور اسلامی تعلیمات سے حد درجہ بیزاری کا ثبوت دے رہے ہیں تو دوسروں کی اصلاح کا کیا سوال؟

بے حیائی کو فروغ دینے میں دوسرا رول خودغرض کلچر اور مغربی تہذیب کا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج سے چند سال قبل ایک مشرقی خاتون اپنی غیرت عصمت فروخت کرنے اور اپنی نسوانیت کو تار تار کرنے، عریانیت اور فحاشی کا لبادہ اوڑھنے کے لئے قطعات راضی نہیں تھی۔ لیکن آج مغربی تہذیب کے زیرِ اثر اس نے اپنی حیا کو مجروح کرکے اپنے لباس و پوشاک کو اس قدر تبدیل کر لیا ہے کہ جس میں نیم برہنہ نظر آرہی ہے۔

بے حیائی کو فروغ دینے میں تیسرا اور سب سے بڑا رول ہے میڈیا کا جس نے اخلاقی زوال کو عروج بخشا ہے فحش مناظر اور تصویروں کے ذریعے فحاشی، عریانیت، انارکی، آوارگی اور اخلاقی بحران کا ہوا دی ہے اور اگر کچھ بچ رہا تھا تو ہمارے قلمکار حضرات ادب کے نام پر شاعری، گیتوں غزلوں، افسانوں اور دیگر اصناف ادب کے روپ میں عورتوں کی شرم و حیا کا جنازہ نکال دیا ہے۔

ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوچکی ہوگی کہ حیا جوکہ عورت کا اصل زیور ہے جوکہ عورت کی عزت و ناموس اور اس کی عصمت کا حقیقی نگہبان بھی ہے اس اصلی اور قیمتی زیور کے بقا کی ضمانت اگر کوئی دے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے اور بس!

اشتراک کریں