سویڈن یورپ کا ایک آزاد ملک ہے۔ یہاں کا اظہار آزادی رائے کا قانون ہمیشہ چرچا میں رہتا ہے۔ 1970 میں اس ملک نے توہینِ مذھب قوانین کو ختم کردیا تھا۔ اس وقت سے اس ملک میں توہین مذھب اور آزادی اظہار رائے کے درمیان حد فاصل ختم ہوچکی ہے۔ اسی لئے کچھ عناصر کی جانب سے گاہے بگاہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین کرنا، طرح طرح کے کارٹون بناکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں گستاخی کرنا، نیز مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کو نذر آتش کرنا ایک معمول بن گیا ہے.
اس سال جنوری اور جون میں دو مرتبہ قرآن مجید کو نذرآتش کیا گیا، پولیس کے پاس مزید تین تازہ درخواستیں دو قرآن جلانے اور ایک تورات اور انجیل جلانے کی آکر رکھی ہوئی ہیں۔ امسال جون میں دوسری مرتبہ ایک عراقی نژاد عیسائی نے پولیس سے قرآن کو نذر آتش کرنے کی اجازت طلب کی، پولس نے نقض امن کا حوالہ دے کر اجازت دینے سے انکار کردیا لیکن اس عیسائی شخص نے سویڈن کی عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا۔ نہ جانے سچائی کیا ہے لیکن یہ بات مشہور ہے کہ فار رائٹ گروپ اس عراقی نژاد عیسائی کی پشت پناہی کی ہے کیونکہ بقول ان کے سویڈن کی NATO رکنیت کی راہ میں ترکی رکاوٹ بن رہا ہے۔ اگرچہ کہ اس عراقی نے اس کے محرک ہونے کا انکار کیا ہے اور یہ وجہ بتائی ہے کہ میرا نشانہ اسلام ہے نہ کہ نیٹو کے لئے سویڈن کی درخواست۔ بہرحال جو بھی بات ہو عدالت نے ملک کے قانون میں اس کی ممانعت نہ ہونے اور ہر شہری کو اظہار آزادی کا حق رکھنے کی دلیل دیتے ہوئے قرآن مجید کو جلانے کی اجازت دے دی۔ نتیجتاً اس عراقی نژاد عیسائی نے سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے 28 جون 2023 کو قرآن مجید کے کچھ اوراق کو نذر آتش کردیا۔ مقامی طور پر اور دنیا بھر میں بھی اس واقعہ کی شدید مذمت کی گئی، مسلمان ملکوں نے احتجاج درج کرایا اور جابجا عوامی مظاہرے بھی ہوئے۔
ان احتجاجوں، مذمتوں اور مظاہروں کے بیچ ایک شامی نژاد سویڈش مسلمان شہری “احمد علوش” نے سویڈن کی حکومت اور دنیا بھر کے حکمرانوں کو سبق سکھانے کے لئے ایک پلان ترتیب دیا اور اس کو عملی جامہ پہنایا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس شامی نژاد مسلمان سویڈش شہری نے پولس سے سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارت خانہ کے سامنے یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتابیں تورات اور انجیل کو جلانے کی اجازت (Permission) طلب کی۔ پولس کا اجازت نہ دینا دنیا میں سوال کھڑا کرسکتا تھا۔ پولیس اگر انکار کرتی تو وہ بھی عدالت جاتا اور عدالت کے پاس اس مسلمان کو اجازت دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔ انکار کرنے سے عدالت پر Double Standard کا ٹھپہ لگ جاتا۔ اس کی Credibility داؤ پر لگ جاتی کیونکہ یہ ایک مشہور اور حساس (Sensitive) مسئلہ تھا۔ دنیا جانتی تھی کہ اسی عدالت نے صرف دو ہفتہ قبل مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کو جلانے کی اجازت دی تھی اور قرآن کو جلایا بھی گیا تھا جس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے اندر شدید احتجاج ہوا تھا۔ چنانچہ پولس نے حکومت کی ایماء پر تورات اور انجیل کو بھی جلانے کی اجازت دیدی اور تاریخ اور وقت بھی مقرر کیا۔ ساتھ میں قید بھی لگادی کہ اس عمل کی تعمیل کے لئے اسرائیلی سفارت خانہ کے روبرو صرف تین افراد جمع ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ احمد علوش اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر 15 جولائی 2023 کو دوپہر ایک بجے اور کچھ منٹ پر اسرائیلی سفارت خانے کے روبرو حاضر ہوگیا۔ میڈیا کے نمائندے بھی جمع ہوگئے۔ سویڈن حکومت کی اجازت پر یہود ونصاری سخت حیران تھے۔ انہوں نے اس عمل کو روکنے کے لئے سویڈن حکومت اور پولس پر کافی دباؤ ڈالا لیکن وہ ناکام رہے۔ اس اجازت اور ہونے والے واقعہ نے انہیں درد وکرب میں مبتلا کردیا۔ ایک بتیس سالہ مسلم نوجوان نے اسرائیل کے صدر ، وزیر اعظم اور دیگر قائدین کو بے بس کردیا تھا۔ ان کی بے بسی اور بے چینی، بے قراری اور تڑپ عیاں تھی۔ ان کے سر شرم سے جھکے ہوئے تھے۔ اس سنسنی خیز ماحول اور دباؤ میں سب کی نگاہیں اس مسلمان نوجوان احمد علوش پر ٹکی تھیں۔
اس سویڈش مسلم نوجوان نے حسب پلاننگ حکومتی اجازت کے باوجود یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتابوں تورات اور بائبل جلانے کے اعلان پر عمل نہیں کرتا ہے۔ وہ اپنے ساتھ نہ تورات لے جاتا ہے اور نہ انجیل بس اپنے ساتھ ایک لائٹر لے جاتا ہے۔ احمد علوش نے اس Lighter کو ہوا میں لہراکر زمین پر پھینک دیتا ہے۔ سب حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ مسلمان ان مقدس کتابوں کو جلا کیوں نہیں رہا ہے۔ سب کے لئے یہ غیر متوقع بات تھی۔ اجازت پاکر بھی اس مسلمان نے ان کی مقدس کتابوں کو نہ جلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ سب کے دلوں میں بس ایک ہی سوال تھا کہ :
Why A Muslim protester in Sweden did not burn The Torah and Bible despite permission
سویڈن میں ایک مسلمان نے اجازت کے باوجود تورات اور بائبل کو کیوں نہیں جلایا؟
احمد علوش کا سب کے لئے یہ جواب تھا:
I never intended to burn the religious texts.
“It is against the Quran to burn and I will not burn. No one should do that,” he told the assembled media. “This is a response to the people who burn the Quran. I want to show that freedom of expression has limits that must be taken into account.”
میں نے کبھی بھی مذہبی کتابوں کو جلانے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ یہ عمل خود قرآن (کی تعلیمات) کے خلاف ہے کہ (مذھبی کتابوں کو) جلایا جائے (لہٰذا) میں نہیں جلاؤں گا۔ کسی کو بھی ایسا نہیں کرنا چاہئے، اس نے جمع میڈیا کو بتایا کہ "یہ ان لوگوں کا جواب ہے جو قرآن کو جلاتے ہیں۔ میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ آزادی اظہار کی حدود ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے”۔
احمد علوش آگے کہتا ہے:
“I want to show that we have to respect each other, we live in the same society. If I burn the Torah, another the Bible, another the Quran, there will be war here. What I wanted to show is that it’s not right to do it.”
“میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے، ہم ایک ہی معاشرے میں رہتے ہیں۔ اگر میں تورات، کوئی بائبل، کوئی اور قرآن جلائے تو یہاں جنگ شروع ہوجائے گی۔ بس میں جو بتانا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ ایسا کرنا درست نہیں ہے”۔
“مجھے میرا مذھب مذھبی کتابوں کو جلانے کی قطعا اجازت نہیں دیتا ہے، چاہے وہ کسی کے بھی مذھب کی کتابیں ہوں، میں بس یہ چاہتا تھا کہ اس سلسلہ میں ایک بحث کو وجود میں لاؤں”۔
احمد علوش دنیا کو ایک واضح پیغام دینا چاہتا تھا کہ بائبل اور تورات کو جلانے کے اعلان کے بعد عیسائیوں اور یہودیوں میں جس طرح سے بے چینی، بے قراری اور افراتفری پھیل گئی تھی اور وہ دکھ اور درد میں مبتلاء ہوگئے تھے بعینہ یہی صورت حال مسلمانوں کی بھی ہوتی ہے جب ان کے مقدسات کی توہین ہوتی ہے، ان کے قرآن کو نذرآتش کیا جاتا ہے۔
احمد کا کہنا تھا کہ وہ سویڈن اور ساری دنیا کو صرف یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ “مقدس کتابوں کو جلایا نہ جائے، یہ ایک اشتعال انگیز عمل ہے۔ سویڈن کا اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مقدس کتابوں کو جلانے کی اجازت دینا بلاشبہ ایک فتنہ انگیز عمل ہے”۔
اس سویڈش مسلمان کی اس حکمت عملی نے نہ صرف سویڈن کے حکمران بلکہ اسرائیل اور دیگر ممالک کے حکمرانوں کی بھی آنکھیں کھول دی ہیں۔ انہیں اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اس کے تدارک کے لئے اقدامات کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ سبھوں کی مقدس کتابوں کا یکساں احترام ہو، ان کی توہین کرنے والوں کی مذمت ہو اور اس فعل قبیح کے روک تھام کی ٹھوس تدبیر ہو۔
چنانچہ اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ نے کہا کہ:
“As the President of the State of Israel, I condemned the burning of the Quran, sacred to Muslims the world over, and I am now heartbroken that the same fate awaits a Jewish Bible, the eternal book of the Jewish people.”
” میں نے بحیثیت صدر قرآن جلانے کی مذمت کی ہے جو ساری دنیا کے مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے، اب میں دل سے ٹوٹا ہوا ہوں کہ یہودیوں کی ابدی کتاب، ایک یہودی بائبل کا بھی یہی انجام ہوگا”۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے ٹوئٹر پر لکھا کہ:
“The State of Israel takes very seriously this shameful decision that damages the Holy of Holies of the Jewish people. The sacred books of all religions must be respected.
” ریاست اسرائیل اس شرمناک فیصلے کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے، جس سے یہودیوں کے مقدسات کو نقصان پہنچا ہے، تمام مذاہب کی مقدس کتابوں کا احترام کیا جانا چاہیے”۔
اس واقعہ کے بعد سویڈن حکومت نے بھی قرآن جلانے کے عمل کو “Islamophobic Act ” قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے”۔
سویڈن کا آزادی اظہار کا قانون، سویڈن سمیت اسرائیل وغیرہ کے لئے بھی اب درد سر بن گیا ہے اور دنیا کے دوہرے معیار (Double Standard) پر کاری ضرب لگائی ہے، سویڈن کی حکومت کو اپنے 1970 کے توہین مذھب قانون کے بحالی کے لئے غور کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
بلاشبہ ایک مسلمان کے تورات اور انجیل کو جلانے کے اعلان اور حکومتی اجازت پاکر بھی نہ جلانے کے عمل نے اسلام اور مسلمانوں کے کردار کو بہت روشن کیا ہے۔ اسلام نے دوسرے مذاھب، ان کے معبودوں اور ان کے مقدسات کی توہین کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔
اسرائیل کا مشہور اخبار
“The Jerusalem post” اپنے 16 جولائی 2023 کی اشاعت میں فرنٹ پیج پر یہ سرخی لگانے پر مجبور ہوا ہے
” Burning Sacred Books is unacceptable, whether it be the Torah, Bible or Quran “
یعنی “مقدس کتابوں کو جلانا ناقابل قبول ہے، چاہے وہ تورات ہو، بائبل ہو یا قرآن”۔
میگنس رینسٹورپ سویڈش ڈیفنس یونیورسٹی میں سینٹر فار سوسائیٹل سیکیورٹی کے ایڈوائزر اور دہشت گردی کے موضوعات کے ماہر ہیں، وہ کہتے ہیں،” سویڈن کے لیے یہ ایک سنگین صورتِ حال ہے۔”
عالمی صہیونی تنظیم کے چیئرمین یاکوہیگول نے کہا کہ “تورات کو جلانے کی اجازت دینا ،آزادی اظہار نہیں بلکہ سام دشمنی ہے”۔
یورپین جیوش کانگریس نے بھی مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ “اشتعال انگیز، نسل پرستانہ، سام دشمنی اور بیمار کرنے والی حرکتوں کی کسی بھی مہذب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے”۔
اب عالمی صیہونی تنظیم اور یورپین جیوش کانگریس اور دنیا بھر کی لیڈر شپ کو عدل کا دامن تھام لینا چاہئے اور دوہرے معیار (Double Standard) سے توبہ کرنی چاہئے، بصورت دیگر ظلم ہوگا، سبکی ہوگی، مظلومین کے رد عمل میں اضافہ ہوگا، اور دنیا امن سے خالی ہوگی۔
اخبارات کے مطابق اس سلسلہ میں اقوام متحدہ (United Nations) کا اجلاس ہونے والا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ “آزادی اظہار رائے” کی حدود کو طے کرے، اس کی Definition کو متعین کرے اور توہین مذہب قوانین کو متعارف کرائے۔
31 جولائی 2023 کو او آئی سی (Organisation of Islamic Cooperation) نے اس سلسلہ میں اجلاس منعقد کرکے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور سویڈن حکومت کے پاس اپنا احتجاج درج کرایا اور اس کا مستقل حل نکالنے پر زور دیا ہے۔ OIC کو چاہئے کہ وہ صرف احتجاج ریکارڈ کرانے پر اکتفا نہ کرے بلکہ یونائیٹیڈ نیشنز کے پلیٹ فارم سے اس بابت قانون سازی کروائے۔ اب لوہا گرم ہے غیر بھی قرآن جلانے کی مذمت کرنے پر مجبور ہیں، لہٰذا موقع کا فائدہ اٹھایا جائے اور توہین مذاھب کے تدارک کے لئے مستقل حل تلاش کرلیا جائے تاکہ سبھوں کی مقدسات کی پامالی ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے۔