تنقید کیا ہے ؟
لغوی اعتبار سے کھڑے اور کھوٹے کی پرکھ کا نام تنقید ہے۔ ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں ایک کھرا اور دوسرا کھوٹا، بسا اوقات چیزوں کا کھراپن فوری طور پر نظر آجاتا ہے جبکہ کھوٹا کافی پرکھ اور جانچ کے بعد سامنے آتا ہے لیکن جس کی نگاہ تیز ہوتی ہے وہ ان دونوں پہلوؤں کو بہ یک نظر دیکھ لیتا ہے۔
آل احمد سرور تنقید کے سلسلے میں لکھتے ہیں :
” تنقید کا نام فیصلہ ہے ۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ کر دیتی ہے ۔ تنقید وضاحت ہے ۔ تجزیہ ہے ۔ تنقید قدریں متعین کرتی ہے ۔ادب اور زندگی کو ایک پیمانہ دیتی ہے ۔ تنقید انصاف کرتی ہے ۔ ادنی اور اعلی، جھوٹ اور سچ، پست اور بلند کا مقام قائم کرتی ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( تنقید کیا ہے، ص: 199 )
تنقید کے اصطلاحی تعریف
اصطلاحی معنوں میں تنقید اس تجزیاتی عمل کا نام ہے جس کے تحت کسی فن پارے کی تشریح وتوضیح کرنے کے علاوہ اس کی قدر و قیمت متعین کی جاتی ہے۔ کسی غزل ، نظم افسانہ ڈراما ناول یا کسی ادبی تخلیق کا مطالعہ کر کے اس کی خوبیوں اور خامیوں کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرتے ہوئے فن پارے اور فن کار کے مقام کا تعین کر یں تو اس عمل کو تنقید یا ادبی تنقید کہا جا تا ہے۔
تنقید کا مقصد کیا ہے؟
نقید کا کام فن کو سنورنا اور فنکار کی رہنمائی و اصلاح کرتا ہو تا ہے۔ نقاد آرٹسٹ میں تخلیق کا بہتر شعور اور آرٹ سے دلچسپی لینے والوں کو اپنے تجربات سے متاثر کر کے لذت اندوزی کا صحیح ذوق پیدا کرتا ہے، تنقید کا مقصد تعمیر ہوتا ہے۔ نقاد بیجا نکتہ چینی کے ذریعہ مصنف اور اس کی تصنیف کی بے قدری نہیں کرتا اسے آرٹ سے لچسپی ہوتی ہے اور آرٹسٹ سے ہمدردی ، وہ نقائص سے آشنا کر کے آرٹسٹ کو سیدھے راستے پر لگاتا ہے اور یہی تنقید کا اساسی مقصد ہے۔
تنقید اور تخلیق میں کیا فرق ہے؟
تنقید اور تخلیق میں گہرا رشتہ ہے لیکن تنقید تخلیق کے پیچھے ہی نظر آتی ہے۔ تخلیق کرتے وقت ساتھ ساتھ تنقید بھی ہوتی رہتی ہے۔ اچھے ناقدین نقاد کے ساتھ ساتھ تخلیقی فن کار بھی ہوتے ہیں۔ محمد حسین آزاد اور علامہ اقبال کے ایسے مسودات ملے ہیں جن میں انھوں نے اسلوب کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنانے کی کوشش میں خوب کانٹ چھانٹ کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق و تنقید ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
تنقید کی دو اہم قسمیں ہیں نظریاتی تنقید اور عملی تنقید
نظریاتی تنقید
تنقید کی اس قسم میں فن اور ادب کے تعلق سے کوئی خیال یا نظریہ پیش کیا جا تا ہے کہ فن یا فن کار یا شعر و ادب کو کیسا ہونا چاہئے اور کیسا نہیں ہونا چاہئے ؟ وغیرہ۔
جیسے مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی تصنیف ”مقدمہ شعر و شاعری” میں لکھا ہے کہ غزل کو کیسا ہونا چاہئے اور کیسا نہیں ہونا چاہئے ؟ یا یہ کہ اردو میں کون سی صنف سخن سب سے زیادہ کارآمد ہے اور کون سی صنف بے کار ہے؟ یا یہ کہ شعر کے لیے وزن کی ضرورت ہے یا نہیں؟ قافیہ کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ وغیرہ۔
ڈاکٹر عبارت بریلوی نے لکھا ہے کہ:
”نظری تنقید میں اصولوں کی بحث ہوتی ہے یعنی اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ادب اور آرٹ کیا ہیں؟ ان کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے؟ ان کا حسن کاری سے کیا تعلق ہے ؟ ان کو زندگی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے یانہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( حمیدی زاویے، ص: 63 )
چنانچہ شعر وادب کے مسائل کی تفہیم کے بعد ان کے حل سمجھانے اور اصولوں کی شکل میں نئی تجویزیں پیش کرنے کو نظر پاتی تنقید کہتے ہیں۔
عملی تنقید
کسی نظر یہ یا اصول نقد کے پیش نظر کسی فن پارہ کو پرکھنے کامل عملی تنقید کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر کارل مارکس کے نظریہ ادب کے پیش نظر کسی افسانہ، ناول، ڈرامے یا شعری تصنیف کا تجزیہ کرنے کا نام عملی تنقید ہے۔
مقدمہ شعر و شاعری میں حالی نے شاعری کے تعلق سے جو نظریات پیش کیے ہیں ان کو بنیاد بنا کر انہوں نے اردو کی اصناف شاعری پر عملی تنقید کی ہے۔
مولا ناشیلی کی تصنیف ’’موازنہ انیس و دبیر” عملی تنقید کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے نہایت سلجھے ہوئے انداز میں عملی تنقید کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے:
”عملی تنقید اس کو کہتے ہیں جس میں کوئی نقاد بنائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں کسی وقت کے ادب اور آرٹ کے کسی مخصوص شاہکار کو دیکھتا ہے پرکھتا ہے اور ان کا جائزہ لیتا ہے۔ یعنی وہ ان پر تنقیدی نظر ڈالتا ہے”۔
( تنقیدی زاویے میں 68 ) ۔
بہ الفاظ دیگر کسی فن پارہ کی خوبیوں اور خامیوں کو کسی مخصوص نظریہ کے تحت جانچنے اور پرکھنے کا نام عملی تنقید ہے۔
تنقید کی اہمیت
تنقید کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے یہ ایک ایسی چیز ہے جو صحیح اور غلط راستوں کے درمیان تفریق کرنے میں انسان کی مدد کرتی ہے۔
تنقید کی اہمیت کے سلسلے میں ٹی۔ ایس – ایلیٹ کا،قول قابل ذکر ہے وہ کہتے ہیں کہ:
”تنقید ہماری زندگی کے لئے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس”۔
آل احمد سرور تنقید کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
”اچھی تنقید صرف معلومات ہی فراہم نہیں کرتی بلکہ وہ سب خام کرتی ہے جو ایک مؤرخ، ماہر نفسیات، ایک شاعر اور ایک پیغمبر کرتا ہے۔”
ادبی تنقید
ادبی تنقید سے مراد کسی ادبی تحریر یا فن پارے کے بارے میں چھان بین کرنا یا ادبی تجزیہ کرنا ہے۔ چونکہ ادب اور زندگی کا گہرا تعلق ہے اور ادب بھی زندگی کی طرح جامد نہیں بلکہ ارتقا پذیر ہوتا ہے۔ اس لیے مختلف علاقوں، زبانوں اور زمانوں میں ادبی تنقید کی تعریف میں بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہ آئی ہو لیکن کہیں کہیں کوئی تبد یلی ضرور محسوس ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تنقید وہ تحریر ہے جو ادب کو پر کھنے اس کی خوبیوں اور خرابیوں کو جانچنے کے تعلق سے لکھی جاتی ہے۔ یہ بات غلط نہیں لیکن پورے طور پر درست بھی نہیں ہے اس لیے کہ تنقید صرف ادب کی جانچ پرکھ اور اس کی اچھائیوں اور برائیوں کی نشاند ہی کر نے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ادب کی ترجمانی بھی ہے تفسیر بھی، تشریح بھی اور تجز یہ بھی۔ تنقید اس سے آگے بھی ہے وہ ادب کی رہنمائی بھی کرتی ہے ادب کو ایک سمت بھی دیتی ہے۔
اردو ادب میں تنقید کی روایت اور اس کے ابتدائی نقوش
اردو میں تنقید کی روایت کسی نہ کسی صورت میں ابتدا سے رہی ہے۔ اس غلطی نہی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ اردو کے قدیم اور کلاسیکی شاعروں کے یہاں ہجر و وصال اور لب و رخسار کی باتوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ہر دور میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق تنقید کا اپنا دائرہ رہا ہے۔ اشعار، مشاعرے، تقریظ، اساتذہ کی اصلاح، خطوط وغیرہ سے ان ادوار کے تنقیدی مزاج کا اندازہ ہوتا ہے۔
دکن میں ملا وجہی نے ”قطب مشتری” میں اچھے شعرا و شاعری کی خصوصیات بیان کی ہیں ۔ابن نشاطی نے بھی اس طرف توجہ دی۔سودا، میر، ناسخ، انشاء، غالب، میر حسن اور اقبال وغیرہ نے بھی اپنے اشعار میں شاعری کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
”مشاعرے” تنقیدی مزاج کی جلوہ نمائی میں اہم حصہ ادا کرتے ہیں۔ مشاعرہ میں کلام سناتے ہوئے کہیں کوئی فنی یا ادبی نقص پایا جائے تو اس کی اصلاح کر دینا اس کی اچھی مثال ہے۔ شاعری میں استادی شادگری کا سلسلہ ان دنوں کم ہے لیکن کبھی یہ باتیں اہمیت رکھتی تھیں۔ شاگردوں کے کلام پر اصلاح سے اساتذہ کے تنقیدی مزاج اور رویہ پر روشنی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں بیشتر شاعرایسے گزرے ہیں جنہوں نے اساتذہ کی حیثیت سے اپنے شاگردوں کی تربیت کی۔ ان کے کردار کوفراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح ”تذکرے” بھی خاصے اہمیت ہے۔ تذکرہ نگاروں نے جس شاعر کے بارے میں جتنا مواد ملا اسے قلمبند کیا۔ ان کے اشعار بھی جیسے اور جتنے ملے انہیں حوالۂ قرطاس کیا نیز ان کی زندگی کے بارے میں معلومات بھی جمع کیں۔ بعدازاں ایسے تذکرے غنیمت ثابت ہوئے کیونکہ ان کی بنیاد پرتحقیق ہوئی اور شاعروں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات میسر و دسیاب ہوئیں۔ تذکرہ نگاروں نے ان شاعروں کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہوۓ اپنے تنقیدی ذہن کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ اردو میں ایسے کئی تذکرے ہیں جن کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
”تقریظوں” سے بھی لکھنے والوں کے تنقیدی مزاج کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے۔ تقریظ میں عموما تحسین وستائش ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی اس سے تنقید کے ارتقا کی تفہیم میں مدد ضرور ملتی ہے۔ اس سلسلے میں غالب کی تقریظیں اہمیت رکھتی ہیں۔
اسی طرح بہت سارے ادباء و شعراء کے ”خطوط” بھی ملتے ہیں، ان خطوط میں شاعروں نے افہام وتفہیم یا استفسارات کے لئے خطوط لکھے اور ان خطوط خطوط میں شعر و شاعری کے نکتوں کی صراحت کی۔
اردو میں مشرقی شعریات اور تاثراتی تنقید کے اظہارات آج بھی ملتے ہیں لیکن پہلے اس کا بازار گرم تھا۔ ہمارے ہاں ایسے کئی تنقید نگار ہیں جن کے نقطہ نظر سے اگرچہ کہ کلی اتفاق نہ ہو لیکن ان کے قلم کی عظمت کو سب سلام کرتے ہیں۔
محمد حسین آزاد ان میں سے ایک ہیں، ’’آب حیات‘‘ ان کی مایۂ ناز کتاب ہے ۔ آزاد شاعری کو وہبی چیز مجھتے ہیں، انہوں نے شاعری کو روح القدس اور فیضان رحمت الہی کہا ہے۔ وہ شاعری کا رشتہ اخلاقیات سے جوڑتے ہیں اور انداز بیان، صفائی کلام، برجستگی، فصاحت، بلاغت، اسلوب اور لفظی محاسن پر نظر رکھتے ہیں۔
مولانا الطاف حسین حالی بھی شاعری کو عطیہ الہی قرار دیتے ہیں، حالی کی زندگی میں جو سادگی، سچائی، راستی اور انسان دوستی پائی جاتی ہے وہی ان کے ادب اور تنقید میں بھی موجود ہے۔ حالی نے اگرچہ کہ کچھ مغربی حوالوں سے بھی کام لیا ہے لیکن ان کی اساس مشرقی شعریات ہے۔اور ’’مقدمہ شعروشاعری’‘ مشرقی شعریات کی اساس پر اردو میں تنقید کی پہلی کتاب ہے۔
شبلی نے تاثراتی تنقید کی بنیادوں کو استوار کیا ۔ وہ ادب کی اخلاقی قدروں پر زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک الفاظ’ معانی پر فوقیت رکھتے ہیں۔ ان کی تنقید’ فصاحت، بلاغت، روز مرہ محاورہ، تشبیہ، استعارہ، منظر نگاری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری سے تعلو رکھتی ہے۔
ابتدائی تنقید نگاروں کی فہرست میں ایک اور نام ہے عبدالرحمن بجنوری کا، انہوں نے ابتدا ہی سے قومی عظمت کے احساس کو اپنے دل میں جگہ دی۔ انہوں نے جو زمانہ مغرب میں گزارا اس وقت انہوں نے مغرب کو قریب سے دیکھا۔ مغرب کے کھوکھلے پن، اس کی سطحیت اور وہاں کے استحصالی نظام کا انہوں نے تجزیہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہندوستان ایسا تہی دست اور تہی دامن نہیں کہ ہم احساس کمتری کا شکار ہوں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے تجربات احساسات اور تاثرات کو ’’محاسن کلام غالب’‘ کی صورت میں پیش کیا ۔ وہ مغرب سے مرعوب ہوئے بغیر مشرق کے پرستار رہے۔ بجنوری کے ’’محاسن کلام غالب” کو تاثراتی تنقید کے زمرہ میں رکھا جاسکتا ہے۔ اگر چہ بعض لوگ ’’ محاسن کلام غالب ‘‘ کو تنقید ہی نہیں مانتے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ”محاسن کلام غالب‘‘ سے بجنوری کا غالب سے عشق نہیں، مشرقیت سے جنون ظاہر ہوتا ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔
اردو میں جدید تنقید کا آغاز حالی کے ”مقدمہ شعروشاعری” (1893ء) سے کیا جاتا ہے۔ ان کے بعد فراق گورکھپوری، آل احد سرور، مجنون گورکھپوری، احتشام حسین، علی سردار جعفری، عزیز احمد، محمد حسن عسکری، سلیم احمد، عابد علی عابد، محمد احسن فاروقی ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے نقاد بھی ہیں۔ اسی طرح فیض، انتظار حسین، شمس الرحمان فاروقی، ساقی فاروقی،آغا سہیل، جیلانی کامران، انیس ناگی، سجاد باقر رضوی، عرش صدیقی، احمد ندیم قاسمی، وحید قریشی، مشفق خواجہ اور سید قدرت نقوی ادیب، شاعر اور نقاد ہیں۔
اگر چہ اقبال نے تنقید پر باقاعدہ کتاب نہیں لکھی لیکن ان کی شاعری، خطوط اور مقالات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اعلی تنقیدی شعور کے مالک تھے۔