لسان العصر اکبر الٰہ آبادی تخلیقی جوہر سے مزین عظیم شاعر،انشاء پرداز،اصولوں اور روایتوں کے محافظ دنیاوی علوم سے آشنا ،قوم کے سچے نبّاض اور مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے تہذیبی وثقافتی اقدار کے ایک نمایاں استعارہ اور علامت تھے ۔
مشہور محقق عبدالماجد دریابادی اکبرنامہ میں لکھتے ہیں:
’’ان کی ذات ایک طرف شوخی و زندہ دلی اور دوسری طرف حکمت اور روحانیت کاایک حیرت انگیز مجموعہ تھی۔۔۔۔ ان کا سب کچھ بلکہ خود ان کا وجود حکمت و معرفت کے سانچے میں ڈھل گیا تھا ، ان کی گفتگو جامع تھی ادب و حکمت اور شوخی و ظرافت کی،ان کی صحبت ایک زندہ درسگاہ تھی۔‘‘(۱)
اکبر کو خوش طبعی اور ظرافت، قدرت کی طرف سے عطا ہوئی تھی اس ودیعتِ الٰہی کے سبب ان کی شخصیت کی تعمیر میںچار چاند لگ گیا تھا، سیاسی سماجی و معاشرتی کوئی بھی مسئلہ ہواس کی تہہ تک پہنچ کراسے لفظی ہیر پھیراور اپنی شوخ تقریر و تحریر کے ذریعے اس انداز سے بیان کرتے کہ وہ ایک دلچسپ لطیفہ بن جاتاجو سب کے لئے قابلِ قبول بھی ہوتا۔
نثرہویا نظم اکبر کو ہر دو اصناف میں امتیاز و کمال حاصل تھا لیکن بنیادی طور پر شاعری غالب تھی لہذا زیادہ مناسب ہے کہ اوّلاً اسی تعلق سے گفتگو کی جائے۔ اکبر کے کلام کا سرمایہ غزل ، متفرق اشعار، رباعیات ، قطعات اور چند مختصر مثنویوں پر مشتمل ہے، ان میں سب سے زیادہ حصہ غزلوں کا ہے، انہوں نے اپنی شاعری کوقدیم روایات کی پابند بنا کر بھی اپنے منفرد لہجے سے ایک الگ رخ عطا کیا ہے جیسا کہ سیدحسن اکبر اپنی مرتب کردہ کتاب اشعارِ اکبر میں لکھتے ہیں:
’’اکبر نے شاعری کی ابتدا اردوشاعری کی قدیم روایات کے ماتحت کی ، ان میں وہ سب موضوعات اور وہ سب خصوصیات ملتی ہیں جواس کا ورثہ ہیں لیکن اکبر کی فطری زندہ دلی اور خوش طبعی نے بہت جلد قدیم خاکے میں ایک نیا رنگ بھرنا شروع کردیااور اردو شاعری میں ایک جدید اسلوبِ بیانی کا اضافہ ہونے لگا۔‘‘ (۲)
اکبر کی شاعری میں طنز و ظرافت کے ساتھ ساتھ عشق و تغزل کی رعنائیاں بھی ہیں اور فلسفہ اخلاق و معاشرت کے مضامین بھی ، ان جملہ عوامل کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ان کی شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(۱) طنزیہ و مزاحیہ شاعری (۲) سنجیدہ شاعری
اکبر کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری
اکبر کے عہد میں ہندوستانی معاشرے میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں، تہذیب کی ایک بساط اٹھ رہی تھی تو دوسری طرف اس کی جگہ پہ ایک ایسا نیا کلچر اپنا رنگ جما رہا تھاجو ہندوستانی مزاج کے بالکل برعکس تھا،ایک طرف اس وقت کی استعماری طاقتوں کے جبر و استحصال پر اکبر غمگین تھے تو دوسری طرف شعر و شاعری کے مزاج میں بھی افراتفری کا ماحول بنا ہوا تھا۔ ہندوستان نہ صرف سیاسی اعتبار سے بلکہ تہذیبی اعتبار سے بھی سامراجیت کا غلام بنتا جارہا تھا ۔
ایسے وقت میں اکبر نے حالات کی نزاکت کوسمجھا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے طنزیہ مضامین اور طنزیہ شاعری کے ذریعے اس وقت کے اخلاقی ،سیاسی و سماجی مسئلوں کو سلجھانے کا بیڑہ اپنے سر لے لیا اور طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں انفرادی شان پیدا کر لی اور خاصے مقبول بھی ہوئے،انہوں نے اپنے طنز و مزاح کا ہدف تہذیبِ نو،سرسید اور ان کی تحریک،حکومتِ وقت اور وقت کی سیاسی تحریکوں کو بنایا، انہوں نے اپنی شاعری میں ترقی کے جدید معیارات اور مغربی تحریک کے غلط تصورات پر کھل کر وار کیا ہے۔
ابتدا میں اکبر یہ سمجھتے تھے کہ سرسید مغربی تہذیب اور انگریزی تعلیم کی وکالت انگریزوں کی خوشامد اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں لیکن جب علی گڑھ گئے اوروہاں ان کی ملاقات سرسید سے ہوئی،آپسی تبادلہء خیال سے ساری غلط فہمی تو دور ہوگئی لیکن سرسید کی تحریک سے جو غلط اثرات مرتب ہو رہے تھے ان پر کڑی تنقید کی:
پانو کو بہت جھٹکا پٹکا زنجیر کے آگے کچھ نہ چلی
تدبیر بہت کی اے اکبر تقدیر کے آگے کچھ نہ چلی
یورپ نے دکھا کر رنگ اپناسید کو مرید بنا ہی لیا
سب پیروں سے وہ بچ نکلے اس پیر کے آگے کچھ نہ چلی
اکبر مغربی کلچر اور حکومت دونوں کے شدید مخالف تھے مخالفت کی اصل وجہ ہے ہندوستانیوں کے تئیں برطانوی حکومت کی بدنیتی ۔۔۔۔ حکومت کی طرف سے جملہ اقدامات بظاہر تو عوام کی بھلائی کے نام پر ہو رہے تھے مگر اس کی تہہ میں برطانوی حکومت کے استحکام کا مقصد پنہا ںتھا ، مگر تأثر یہ دیا جاتا تھا کہ سب ہندوستانیوں کوترقی یافتہ اقوام کے دوش بدوش چلانے کے لئے ہیں، چند مصلحین بشمول سرسید احمد خان اگرچہ برطانوی حکمتِ عملی کو سمجھتے تھے تاہم بطورِ مجبوری ان کے ساتھ تعاون کرنے کا مشورہ دیتے تھے ، اکبر سرسید کی اس سوچ کے کلی مخالف نہ تھے، قوم جدید تعلیم سے آراستہ ہو اکبر بھی چاہتے تھے مگر طریقۂ تعلیم کے خلاف تھے ،ان کے خیال میں یہ تعلیم ہندوستانیوں کو عارضی فائدہ تو پہونچا سکتی ہے مگر آخر کار سخت مضر ثابت ہوگی:
تعلیمِ جدید سے ہوا کیا حاصل
ہاں کفر کے ساتھ جنگ جوئی نہ رہی
تہذیب نو سے متاثر ہوکر آزادیٔ نسواں کا بھی مسئلہ اٹھا جو اس وقت کا بہت اہم مسئلہ تھا، اکبر نے اس کی بھرپور مخالفت کی ۔ رہا معاملہ عورتوں کی تعلیم کا تو اکبر اس کے بھی کلی مخالف نہ تھے بلکہ طرزِتعلیم کے مخالف تھے ، ان کا خیال تھا کی ہندوستانی عورت کو اگرمغربی طرز پر تعلیم دی گئی اور اسے اس طرح کی آزادی دی گئی تو وہ اپنا ہندوستانی مزاج کھو دیگی اور اپنی عصمت وعفت کی حفاظت نہ کر سکے گی۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتون خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
اکبر نے اپنے طنزومزاح سے معاشرے کی اصلاح کا کام لیا اور ہر قسم کی سیاسی،سماجی،نظریات کی کمیوں کو اپنا ہدف بنایا اور انھیں جہاں بھی بے اعتدالی اور کجی نظر آئی طنزیہ ومزاحیہ انداز میں لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا۔
اکبر کی سنجیدہ شاعری
اکبر کی شہرت طنزو مزاح کے شاعر کی حیثیت سے ہوئی ہے۔ان کی سنجیدہ شاعری کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔اگر ان کی کلیات کا مطالعہ کیا جائے تو ان کا سنجیدہ کلام اسلوب ومعنی دونوں لحاظ سے منفرد رنگ رکھتا ہے۔
اکبر کا مزاج چونکہ ابتدا ہی سے عارفانہ تھا اس لئے ان کی سنجیدہ شاعری میں اس مزاج کی مکمل جھلک نظر آتی ہے اور ان کا صوفیانہ کلام ان کے مزاج کی سچی عکاسی کرتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ایک صورت سرمدی ہے جس کا اتنا جوش ہے
ورنہ ہر ذرہ ازل سے تا ابد خاموش ہے
حقیقت کیا میری ہستی کی ایک ذرے سے بھی کم ہوں
تعجب اس پہ آتا ہے کہ میں بھی جزو عالم ہوں
آئے گی تجھ کو نظر صانع عالم کی جھلک
سامنے کچھ نہ رکھ آئینۂ فطرت کے سوا
تصوف میں اخلاق کو بڑی اہمیت حاصل ہے تصوف کا اصل مقصد ہے روح کی پاکیزگی، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تک کہ بندہ کے اندر حسن عمل اور نیک اخلاق کا عنصر موجود نہ ہو۔اکبر کی شخصیت کو ان کی شاعری کے تناظر میں ایک معلم اخلاق ،ایک ناصح اور ایک واعظ کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
رضائے حق پہ راضی رہ یہ حرف آرزوکیسا
خدا خالق خدا مالک خداکا حکم تو کیسا
جو اہل دنیا کا رخ کروگے سکون خاطر کبھی نہ ہوگا
شریک غفلت بہت ملیں گے شریک عبرت کوئی نہ ہوگا
معرفت وموعظت کے ساتھ ساتھ اکبر کی شاعری میں حسن وعشق کے عناصر کا بھی بڑا کیف پرور بیان ملتا ہے۔ اکبر کا دردمند دل اور جدت پسند طبیعت نے اس رنگ تغزل کو بھی ایک نیا رخ دیا:
زخمی نہ ہوا تھا دل ایسا سینے میں کھٹک دن رات نہ تھی
پہلے بھی ہوئے تھے کچھ صدمے روئے تھے مگر یہ بات نہ تھی
تشبیہ تیرے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
اکبر کی غزلیات کا اگر مجموعی طور پر مطالعہ کیا جائے تو اس میں دو رنگ نظر آتے ہیں۔ایک توبالکل ابتدائی اور روایتی انداز کی غزلیں جس میں زبان کا لطف مکالماتی انداز میں ہے:
جب کہا میں نے کہ پیار آتا ہے تم پر
ہنس کے کہنے لگے آپ کو آتا کیا ہے
اس کے بعد وہ غزلیں جس میں اعلی قسم کا تغزل ہے،برجستگی ہے،عشق کی رعنائیاں بھی ہیں،تصوف کی چاشنی بھی جو غزل کی سبھی لوازمات کو پورا کرتی ہیں۔جس کی بدولت اردو شاعری میںاکبر بلند مقام پر فائز نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بعض نقادوں نے کہا ہے :
’’اکبر صرف غزل گوئی تک خود کو محدود رکھتے تو ان کا شمار چوٹی کے شعراء میں ہوتا۔‘‘
اکبر کی نثر نگاری
اکبر کا خصوصی امتیاز و شاعری ہے مگر انھوں نے نثر نگاری میں بھی اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔گوکہ ان کی نظر میں کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے مگر انھوں نے بہت سے چھوٹے بڑے سنجیدہ مضامین قلمبند فرمائے جو اودھ پنچ نامی اخبار میں شائع ہوئے تھے۔نیز اسی طرح اردو ادب کے مشاہیر کے نام بہت سے خطوط بھی لکھے جو بعد میں مجموعے کی شکل میں شائع ہوئے۔
مکاتیبِ اکبر کے مرتب محبوب علی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’ اکبر مرحوم نظم ونثردونوں میدانوں کے مرد تھے ۔ وہ جیسے شاعر تھے ویسے ہی انشاء پرداز،جتنی بہتر نظم لکھتے تھے اتنی ہی اعلیٰ نثر،وہ الٰہ آباد کی طرح دونوں دریاؤں کا سنگم تھے ان پر اودھ اور الٰہ آبادجس قدر فخر و مباہات کرے بجا و درست ہے،، (۳)
سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے ان کے بعض تنقیدی مضامین فرضی نام سے بھی چھپے۔جس کا تذکرہ انھوں نے عبدالماجد دریابادی کو لکھے خطوط میں کیا ہے۔ ابتدائی دور کے اکثر خطوط تلف ہوگئے تھے، ان کے خطوط کے مجموعوں میں زیادہ تر آخری زمانے کے خطوط شامل ہیں، ان خطوط میں کمزوری و ضعیفی کے تذکرے ، نو عمر بیٹے کے انتقال کا صدمہ مختلف امراض میں گرفتار ایک غمگین اور افسردہ دل انسان کی شخصیت جھلکتی ہے۔ان کے خطوط میں وہ شگفتگی نہیں جو ان کی شاعری میں ہے۔لیکن اکبر کے خطوط کی خوبی یہ ہے کہ ان میں سادگی ہے تصنع بالکل نہیں ہے۔انھیں بہت زیادہ خطوط لکھنے کا شوق نہ تھا اور نہ ہی وہ غالب کی طرح کثیر الاحباب تھے۔اپنے خطوط میں کہیں کہیں انھوں نے زبان وبیان ،شعرو ادب کے مسائل پر بحث کی ہے اپنے خطوط میں موسم اور ماحول کی عکاسی بالکل فطری انداز میں کرتے ہیں۔اکبر کے خطوط کا ایک بڑا خاصہ یہ ہے کہ ان کی مدد سے ان کے کلام کی تاریخوں کے تعین میں بڑی مدد ملتی ہے۔اور دوسرے یہ کہ ان میں اپنے اشعار کا پس منظر اور علامتوں کی تشریح بھی کرتے ہیں۔جس سے ان کی شاعری کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ خطوط کے کچھ نمونے ملاحظہ ہوں:۔
غالب کی طرح اکبر بھی آموں کے بہت شوقین تھے کسی دوست نے انہیں آم بھیجنے کا وعدہ کیا مگر نبھا نہ سکے، اس وعدہ خلافی پر اکبر کی ڈر سے آم تو آم انہیں خط لکھنا بھی چھوڑ دیا، اکبر سارا ماجرا سمجھ گئے اپنے اس دوست کے عزیز کو لکھا :
’’ شبیر حسن صاحب کے آموں کے نسبت جو سوال آپ نے کیا ہے میں اس ہمدردی کا تہِ دل سے قدر شناس اور شکر گزار ہوا۔۔۔۔۔آم کیسے؟ انھوں نے خط بھی نہیں لکھا لکھنئو میں تو اسٹیشن تک زحمت گوارہ فرمائی ، خیر آم نہ بھیجتے خط تو لکھتے ، شاید کہہ دیں کہ کوئل کو قبض تھا ، آم شیریں نہ ہوئے اس سبب سے آم نہ بھیجے گئے،، (۴)
اب ملاحظہ کیجئے اکبر کے خطوط کے چند ایسے جملے جو ان کی زندگی سے بیزاری ، تمنائے مرگ اور شدائد برداری کے رجحانات کے آئینہ دار ہیں:
’’ زندگی ہے (جس کا میں زیادہ شائق نہیں ہوں) تو کبھی ملنا ہوگا‘‘ (۵)
’’ توانائی نہیں ہے۔ احباب کا تقاضہ مجبور کرتا ہے ورنہ چاہتا ہوں کہ مفقود الخبر رہوں‘‘ (۶)
’’ اگرچہ مشتاقِ زندگی نہیں رہا لیکن تکلیف سے بہرحال پناہ مانگتا ہوں‘‘ (۷)
’’ آپ خیریت پوچھتے ہیں اتنا نہیں کہ اپنے مصائب و ترددات بیان کروں ، آپ سے مدد لوں ۔ پاؤں کے نیچے آگ ہے اورآگے اندھیرا۔ کھڑا رہوں تو پاؤں جلتا ہے ، آگے بڑھوں تو نہیں معلوم کہاں جاپڑوں ‘‘ (۸)
غرض یہ خطوط غالب کے مکاتیب جتنے اہم نہ سہی ۔ پھر بھی اکبر کی شخصیت، تعلقات، کلام کے پس منظر اور نثر کے روشن اسلوب کے وجود سے ان کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔
اکبر نے بہت سے لوگوں کی کتابوں پر دیباچے بھی رقم فرمائے ہیں جو بہت سی کتابوں اور رسالوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔انھوں نے جوش ملیح آبادی کے پہلے مجموعۂ نطم ونثر پر دیباچہ لکھا ہے۔
اودھ پنچ میں جو مضامین شائع ہوئے ہیں وہ زیادہ تر مزاحیہ ہیں جس میں کسی بھی سیاسی اور سماجی واقعہ پر مزاحیہ یا طنزیہ انداز میں اظہار خیال کی گیا ہے ۔اپنے ایک مضمون میں سرسید پر طنز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
’’لوگ سچ کہتے ہیں کہ حضرت خضر کی عمر بڑی ہے مدت دراز سے سید صاحب اپنی تخلیق کی تلوار سے مذہبی چیزوں کو ملک عدم کی طرف کھٹا کھٹ بھیج رہے ہیں لیکن اب تک حضرت خضر بچے ہوئے ہیں‘‘
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اکبر کی فنّی خوبیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ جنوری ۱۸۷۷ء میں اودھ پنچ کے اجرا کے ساتھ ہی اکبر نے اس میں مضمون لکھنے شروع کر دیئے تھے ۔ یہ مضامین کیا ہین ؟ انہیں کسی ایک صنفِ نثر سے متعلق کرنا مشکل ہے ، کوئی نثرپارہ انشائیہ ہے، کوئی سنجیدہ مضمون،کوئی مکالمہ، کوئی مکتوب۔۔۔۔اور بعض نثرپارے مختلف اصناف کا مجموعہ ہیں،، (۹)
یہ وہ زمانہ تھا کہ اردو میں فورٹ ولیم کالج کی نثر وجود میں آچکی تھی۔اودھ پنچ کے نثر نگار قدیم نثر کے دلدادہ تھے۔اکبر کی نثر کا جہاں تک تعلق ہے اسے ان دونوں کا امتزاج کہا جاسکتاہے۔اکبر کی نثری تصانیف بہت کم ہیں مگر جو ہیں ان میں تنوع ہے۔اور وہ ایک بہترین نثر کا نمونہ ہیں۔
حوالہ جات:
(۱) اکبرنامہ یا اکبرمیری نظر میں ۔۔۔۔۔عبدالماجد دریابادی۔۔۔۔۔ادارہ فروغ اردو لکھنؤ ص۹
(۲) اشعارِ اکبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید حسن۔۔۔۔۔۔۔۔کتاب منزل پٹنہ ص۱۱
(۳) مکاتیبِ اکبر۔۔۔۔۔۔۔۔سیداکبرحسین اکبرالٰہ ابادی دائرہ ادبیہ لکھنئو ص۱۰
(۴) ایضاً ص ۱۶۷
(۵) رقعاتِ اکبر ص۱۵ بنام سید سلیمان ندوی،
(۶) ایضاً ص۲۸
(۷) ایضاً ص۵۸ بنام سید افتخار حسین،
(۸) ایضاً ص۱۲۷
(۹) اکبر الٰہ آبادی ۔۔۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ص۳۸۳
(۱۰) کلیاتِ اکبر الٰہ آبادی سیداکبرحسین اکبرالٰہ ابادی یونین پریس دہلی
(۱۱) اکبر الٰہ آبادی کے لطیفے نادم سیتاپوری نسیم بک ڈپو ، لکھنئو
(۱۲) اکبر الٰہ آبادی : ایک سیاسی و سماجی مطالعہ افصح ظفر عرشیہ پبلیکیشنز ، دہلی