سوانح نگاری کیا ہے؟
فن سوانح نگاری سے مراد کسی شخص کی سوانح عمری سرگزشت یا حالات زندگی تحریر کرنا ہے۔ سوانح سانحہ کی جمع ہے ۔ سانحہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ظاہر ہونے والا پیش آنے والا وقوعہ اور ماجرا کے ہیں ۔ عام استعمال میں ناپسندیدہ اور وحشت انگیز واقعہ کو سانحہ کہا جا تا ہے لیکن سوانح عمری اور سوانح نگاری کی اصطلاحات میں اس کے لغوی معنی کا اعتبار کیا گیا ہے ۔ چنانچہ سوانح عمری کا مطلب ہے واقعات حیات حالات زندگی یا زندگی کی سرگزشت جس میں اچھے برے نرم گرم تلخ وشیر میں ہر طرح کے واقعات شامل ہیں۔ سوانح نگاری کو انگریزی میں Biography کہتے ہیں ۔ Bio کے معنی حیات اور Graphy کے معنی نگاری ( لکھنا ) کے ہیں ۔ اس طرح Biography کا مطلب ہے ،۔ حیات نگاری یعنی روداد زندگی تحریر کرنا۔ کسی شخص کی سوانح عمری لکھنے کی دوصورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ کوئی شخص اپنی زندگی کے حالات یا آپ بیتی خود لکھے ۔اسے خود نوشت ( Autobiography ) کہتے ہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص کی زندگی کے حالات کوئی دوسرا شخص لکھے ۔اسے سوانح نگاری کہا جا تا ہے۔
سوانح کی اصطلاحی تعریف
سوانح عمری سے مراد ہے عمر عہد یا دور نسل اور ماحول جیسے اثر ڈالنے والے عوامل کے حوالے سے کسی شخص کی داخلی اور خارجی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں کا ایسا جامع مفصل اور معروضی مطالعہ جو اس کی زندگی کے ارتقا اور اس کے ظاہر و باطن کو روشنی میں لا کر اس کی ایک قدآ دم اور جیتی جاگتی تصویر پیش کرے ۔ سوانح ایک ایسی مکمل دستاویز ہے جس میں کسی انسان کی ولادت سے لے کر وفات تک کے تمام حالات و واقعات افکار و افعال وقت اور مقام کی صراحت کے ساتھ محفوظ ہوتے ہیں ۔ سوانح کے کینوس پر زماں ومکاں کے تناظر میں کسی انسان کی چلتی پھرتی متحرک تصویر اس طرح سرگرم فکر اور مصروف عمل نظر آتی ہے کہ اس کی سیرت و شخصیت اور سرگزشت کے تمام پہلو ہمارے سامنے آ جاتے ہیں ۔
سوانح عمری کے اولین نقوش
اردو زبان میں سوانح نگاری کے اولین نقوش اور دھندلے دھندلے خد و خال دکنی مثنویوں میں ملتے ہیں۔ اس دور میں مثنوی سب سے اہم اور مقبول صنف سخن کے طور پر ابھرتی رہی۔ چنانچہ دکنی شعراء نے بکثرت مثنویاں لکھیں۔جو مختلف موضوعات مثلا سیرت، مناقب، تاریخ، مذہب، تصوف اور عشق و عاشقی کے متعلق ہیں۔ ان میں تاریخی، منقبت اور رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں سے تعلق رکھنے والی مثنویوں میں سوانح نگاری کے کچھ عناصر پائے جاتے ہیں۔
سوانحی عناصر کے اعتبار سے فیروز گولکنڈوی کی مثنوی پرت نامہ ( 927 ھ )، حسن شوقی کی مثنویاں فتح نامہ شاہ نظام ( 927 ھ ) ، میز بانی نامه، عبدل بیجاپوری کی مثنوی ابراہیم نامہ ( 1021 ھ )، افضل گولکنڈوی کی مثنوی محی الدین نامہ ( 1050 ھ )، نصرتی بیجا پوری کی مثنویاں علی نامہ ( 1076 ھ )، تاریخ اسکندری ( 1083 ھ ) وغیرہ اہمیت کی حامل ہیں۔
شعرائے اردو کے تذکروں میں سوانح کے ابتدائی نقوش
ان مثنویوں کے علاوہ شعرائے اردو کے تذکروں میں بھی سوانحی اشارے ملتے ہیں۔ اردو شعراء کا سب سے پہلا تذکرہ میر کا "نکات الشعراء ” ہے۔ شعرا کے حالات کے اندراج کے اعتبار سے تذکر گزار ابراہیم ، گلشن ہند، گلستان سخن ، شمیم سخن اور خزینہ العلوم قابل ذکر ہیں۔
اردو میں سوانح نگاری کی ارتقائی تاریخ میں محمد حسین آزاد کی تصنیف "آب حیات” خاص اہمیت رکھتی ہے، محمد حسین آزاد نے "آب حیات” کے ذریعے تذکرہ نگاروں کو مرقع نگاری کی راہ دکھائی۔ انہوں نے اس کتاب میں شعراء اردو کے حالات اس طرح لکھے کہ ان کی زندگی کی بولتی تصویریں محفوظ ہو گئی ہیں۔
فن سوانح نگاری کے اس ارتقائی دور میں سرسید احمد خاں کی خدمات قابل تحسین ہیں، سرسید کی تین تصانیف "آثار الصنادید”، "خطبات احمد میر” اور "سیرت فریدی” میں سوانح نگاری کے واضح نقوش نظر آ تے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ باضابطہ سوانح نگاری کا نمونہ نہیں ہیں، اردو میں باقاعدہ سوانح نگاری کا آغاز حالی سے ہوتا ہے
اردو سوانح نگار کا ارتقاء عہد حالی و شبلی
اردو میں سوانح نگاری کا باقاعدہ آغاز حالی سے ہوتا ہے ۔ ان کے بعد شبلی کا نمبر آتا ہے ۔ اگرچہ ان مصنفین کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں میں بعض فنی و اصولی کمزوریاں پائی جاتی ہیں اس کے باوجود یہ اردو میں سوانح نگاری کے امام ہیں۔ ان دو عظیم ادیبوں نے مغربی اثرات کو قبول کرنے ہوئے اردو ادب میں اس صنف کا معیار بلند کیا۔ حالی اردو کے پہلے جد ید سوانح نگار ہیں۔ ان کی سوانحی تصانیف میں "حیات سعدی”، "یادگار غالب” اور "حیات جاوید” شامل ہیں ۔ حالی نے سوانح نگاری کو ایک خاص فن کے طور پر اپنایا اور اس کے واضح و جدید نقوش ابھارنے میں اہم کردار انجام دیا ۔
حالی کے معاصر شبلی نے بھی معیاری سوانح عمریاں لکھیں۔ یہ اردو کے دوسرے اہم سوانح نگار ہیں۔ ان کی سوانحی تصانیف میں "المامون”، "سیرت النعمان”، "الفاروق”، "الغزالی”، "سوانح مولانا روم” اور "سیرت النبی” شامل ہیں ۔ شبلی کی سوانح عمریوں میں تاریخی عنصر کا غلبہ نظر آ تا ہے ۔ حالی و شبلی سوانح نگاری کو ایک افادی اور اصلاحی صنف تصور کرتے تھے۔
حالی و شبلی کی تصانیف سے اردو میں سوانح نگاری کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ ان کے بہت سے ہم عصروں نے اس فن میں طبع آزمائی کی ۔ اس دور میں مرزا حیرت دہلوی نے متعدد سوانح عمریاں لکھیں جن میں "سیرت محمدی”، "حیات طیبہ” اور "حیات حمیدیہ” اہم ہیں ۔ "حیات طیبہ” حضرت اسماعیل شہید کی سوانح عمری ہے۔ عبدالرزاق کانپوری نے "البرامکہ” لکھی جواردو کی ایک ممتاز سوانح عمری ہے۔
احمد حسین اکبرآبادی نے چار سوانح عمریاں "حیات سعدی”، "حیات نورالدین محمود”، "حیات ذوق”، "حیات سلطان صلاح الدین” تصنیف کیں ۔ اس دور کے دیگر سوانح نگاروں میں فیروز الدین ڈسکوی ، منشی مجدالدین فوق ڈ پٹی نذیر احمد، مولوی ذکا اللہ، افتخار عالم اور قاضی محمد سلیمان منصور پوری اہم ہیں۔
اردو سوانح نگاری حالی و شبلی کے بعد سے 1947 تک
عہد حالی و شبلی کے بعد سے ہندوستان کو آزادی ملنے تک اردو میں متعدد سوانح عمریاں لکھی گئیں۔ شبلی کے حلقہ اثر سے تعلق رکھنے والے مصنفوں نے شبلی کے اندازِ سوانح نگاری کو جاری رکھا۔ ان میں سب سے اول سید سلیمان ندوی ہیں جنہوں نے "رحمت عالم”، "حیات امام مالک”، "سیرت عائشہ”، "حیات شبلی”، "سیرت النبی” ( آخری چار جلد میں) اور "عمر خیام” جیسی سوانحی تصانیف سے اردو کا دامن مالا مال کیا ۔ شبلی کے ایک اور شاگرد مولانا عبدالسلام ندوی نے”فقراۓ اسلام”، "سیرت عمر بن عبدالعزیز” اور "اقبال کامل” تین سوانح عمریاں لکھیں۔ اسی دور میں حبیب الرحمن خاں شیروانی نے متعد دسوانح عمریاں لکھیں جن میں "ذکر جمیل”، "تذکرہ بابر” اور "سیرت الصدیق” جیسی اہم سوانح عمریاں لکھیں۔ سلسلہ ندویہ کے اکرام اللہ ندوی نے "وقار حیات” کے نام سے نواب وقار الملک کی سوانح حیات لکھی۔
رئیس احمد جعفری نے تین اہم سوانح عمریاں "سیرت محمد علی”، "رند پارسا” اور "حیات محمد علی جناح” لکھیں ۔ حلقہ شبلی سے ہٹ کر بعض سوانح نگاروں نے جذباتی وافادی سوانح نگاری کے بجائے شخصیت نگاری اور حقیقت پسندی پر زور دیا ۔ ان میں غلام رسول مہر محمد اکرام اور قاضی عبدالغفارا ہم ہیں ۔مہر کی اہم سوائی تصنیف "غالب” ہے ۔ شیخ محمد اکرام نے’”شبلی نامہ” میں شبلی اور "غالب نامہ” میں غالب کی زندگی کا نئی جہت سے مطالعہ کیا۔ اس دور میں مالک رام نے "ذکر غالب” لکھی اور قاضی عبدالغفار نے نئے انداز میں "آثار جمال الدین افغانی” تصنیف کی۔
اردو سوانح نگاری آزادی کے بعد
آزادی کے بعد اردو میں سوانح نگاروں کی روایت ارتقا پذیر رہی۔ اس دور میں ایسی سوانح عمریاں لکھی گئیں جو ادبی اور فنی اعتبار سے شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان جدید سوانح نگاری کے روشن نقوش نظر آتے ہیں۔ آزادی کے بعد تحریر کی گئیں سوانح عمریاں فن سوانح نگاری کے اصول، موضوع، اسلوب اور مواد کی تحقیق و تنقید کے معیارات کی بڑی حد تک تکمیل کرتی ہیں۔ آزادی کے بعد عبد السلام ندوی نے دو سوانح عمریاں تصنیف کیں ۔ غلام رسول نے "سیرت سید احمد شہید” لکھی ۔ قاضی عبدالغفار نے’’آ ثارا بوالکلام آزاد‘ اور”حیات اجمل” لکھی جو نئے طرز کی سوانح عمریاں ہیں ۔ اسی دور میں صالحہ عابد حسین نے "یادگار حالی” لکھی۔ مشہور انشا پرداز اور صحافی مولا نا عبد الماجد دریابادی نے بھی اردو کے سوانحی ادب میں اپنی تصانیف "حکیم الامت نقوش تاثرات” اور "محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق” کے ذریعے وقیع اضافہ کیا۔عبدالمجید سالک نے”ذکر اقبال” لکھ کر سوانحی ذخیرے کے ساتھ اقبالیات میں بھی اہم اضافہ کیا ۔ آزادی کے بعد لکھی جانے والی اہم سوانح عمریوں میں "منٹو” ( ابوسعید قریشی ) ‘ ‘ "حیات سلیمان” ( شاہ معین الدین ندوی ) "حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی” ( سید محد میاں ) "صدیق اکبر” ( سعید احمد اکبر آبادی) اور "محسن انسانیت” ( نعیم صدیقی ) اہم اور قابل ذکر ہیں۔ آزادی کے بعد مذہبی سوانح عمریاں بھی لکھی گئیں لیکن مغربی رجحانات کے زیرعلمی ادبی اور ساجی سوانح عمریاں بھی کافی تعداد میں لکھی گئیں۔