خاکہ کیا ہے؟
خاکہ کے معنی کچا نقشہ، ڈھانچہ یا لکیروں کی مدد سے بنائی ہوئی تصویر کے ہیں، اور خاکہ کے لیے اردو میں مرقع، شخصی مرقع، چہرہ بشرہ، قلمی تصویر، جیتی جاگتی تصویر جیسی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ۔
یہ تمام اصطلاحیں حقیقی شخصیتوں پر لکھے گئے خاکوں کے لیے مستعمل رہی ہیں لیکن ان اصطلاحوں کے مقابلے میں خاکے کی اصطلاح حقیقی اور خیالی دونوں شخصیتوں کے لیے عام طور پر قبول کر لی گئی ۔
خاکہ کی اصطلاحی تعریف
ادبی اصطلاح میں خاکے سے مراد وہ تحریر ہے جس میں نہایت مختصر طور پر اشارے کنائے میں کسی شخصیت کا ناک نقشۂ عادات واطوار اور کردار کو سیدھے سادے انداز میں مبالغے کے بغیر اس طرح پیش کیا جائے کہ اس کی چلتی پھرتی تصویر سامنے آ جائے، صرف چلتی پھرتی تصویر ہی نہیں بلکہ جس کا خاکہ تحریر میں آتا ہے اس کے افکار و خیالات بھی ابھر کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
خاکہ کسی شخص سے وابستہ عقیدت احترام محبت دوستی دلچسپی اور یادوں کی ایک لفظی تصویر ہوتی ہے جو کسی جگہ نہایت بے ساختہ انداز میں شروع ہوتی اور غیر روایتی انداز میں کہیں ختم ہو جاتی ہے ۔ اس نکتے کوملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ خاکے میں شخصیت یا اس کے علمی ادبی یا سیاسی کارناموں کا جائزہ نہیں لیا جاتا۔
خاکہ نگاری جسے شخصیت نگاری کے نام سے بھی ہم جانا جاتاہے۔ ہر عہد، ہر ملک اور ہر زبان میں اس کے نمونے اور نقوش ملتے ہیں۔زندگی اور زمانے کے بدلتے ہوئے مزاج و میلان، نشیب و فراز ڈوبتی ابھرتی انسانی زندگی کے تمام رنگ و روپ خاکہ نگاری میں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں معاملہ معاشرتی و سماجی، علمی و ادبی ہو یاسیاسی، بڑی شخصیت ہو یا معمولی، عالم ہو یاجاہل،حکمراں ہو یا سماج کا ایک ادنیٰ انسان، مصنف کسی سے بھی متاثر ہوسکتا ہے اور کسی شخصیت کو موضوع و محور بناسکتا ہے۔ خاکہ ایک بے حد نازک فن ہے۔ یہاں قلم پر بے پناہ گرفت کے ساتھ ساتھ جرأ ت اور سلیقہ مندی بھی درکار ہے۔ تھوڑی سی لاپرواہی اور کوتاہی خاکہ کو مجروح کردیتی ہے۔ ایک ایک پہلو اور گوشے کو مصنف کو ملحوظ خاطررکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا کی مختلف زبانوں میں بے شمار خاکے لکھے گئے ،مگرشاہکار کا درجہ کم ہی کے حصے میں آیا۔
خاکہ کے فنّی لوازمات
خاکہ ایک ادبی صنف ہے۔ دوسری ادبی اصناف کی طرح اس کے بھی فنّی لوازمات ہیں جن کی پابندی کرنا خاکہ نگار کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ خاکہ کے فنّی لوازمات جسے ہم اس کے اجزائے ترکیبی بھی کہہ سکتے ہیں یہ ہیں۔ (1) اختصار، (2) وحدت تاثر، (3) کردارنگاری، (4) واقعہ نگاری، (5) منظرکشی، (6) زبان وبیان۔
اختصار:
خاکہ کا ایک اہم وصف ایجازواختصار ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ خاکہ میں کسی بھی شخص کی زندگی کے چند منفرد، انوکھے اوراہم واقعات کو فن کارانہ انداز میں بیان کر کے اس کے جیتے جاگتے کردار، اس کی سیرت کی جھلکیوں اور اہم خط وخال کو نمایاں کیاجائے۔ اختصار کا یہی وصف خاکے کو مرقع اور سوانح سے ممتاز کرتا ہے۔
وحدت تاثر:
خاکہ کا ایک اہم جز وحدت تاثر ہے۔ خاکہ میں اس کی بڑی اہمّیت ہے۔ یہاں وحدت تاثر سے مراد یہ ہے کہ خاکہ نگار شروع سے آخر تک فنی ہنرمندی سے واقعات کی کڑی سے کڑی ملائے اور ربط وتسلسل بنائے رکھے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خاکہ نگار تمہید، درمیانی حصے اور خاتمے کو اس خوبی سے ایک دوسرے میں پیوست کرے کہ ایک خاص تاثر شروع سے آخر تک قائم رہے۔
کردارنگاری:
کردارنگاری، فن خاکہ نگاری کا ایک لازمی جز ہے۔ خاکے کا موضوع کوئی نہ کوئی شخصیت ہوتی ہے۔ یہ شخصیت اپنی انفرادی خصوصیات رکھتی ہے۔ ان خصوصیات کو اجاگر کرنا ہی دراصل خاکہ نگاری کا اہم منصب ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے کردار، خاکے کا ایسا بنیادی جز ہے جس کے بغیر خاکے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔
واقعہ نگاری
خاکے کی تعمیر میں واقعات سے مدد لی جاتی ہے مگر خاکے میں واقعات کی بہتات نہیں ہونی چاہئے۔ کسی بھی شخصیت سے متعلق وہی اہم اور منفرد واقعات بیان کیے جانے چاہئیں جس سے موضوع کی شخصیت کے چھپے ہوئے گوشے سامنے آئیں اور اس کی انفرادیت نمایاں ہو۔ اس لیے خاکہ میں واقعات کا انتخاب، اس کے بعد ان میں ربط وتسلسل اور توازن کا سلیقہ بے حد ضروری ہے تاکہ قاری ان کے شامل ہونے سے الجھن محسوس نہ کرے۔ خاکے میں واقعات کو دلکش انداز میں بیان کیا جانا چاہئے کیوں کہ خاکے کی دلچسپی اور اثرانگیزی کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہوتا ہے کہ واقعات کو کس ڈھنگ سے بیان کیا گیا ہے۔ بیان ایسا ہونا چاہئے کہ پڑھنے والے کو واقعہ اپنی نظروں کے سامنے ہوتا ہوا دکھائی دے۔
منظرکشی
منظرکشی بھی خاکہ نگاری کا ایک اہم جز ہے۔ کسی چیز، کسی حالت یا کسی کیفیت کا بیان اس انداز سے کیا جائے کہ اس کی تصویر قاری کی آنکھوں کے سامنے پھر جائے، اس کا نام منظر کشی ہے۔ جیسے دریا کی روانی، جنگل کی ویرانی اور صبح کی شگفتگی وغیرہ کابیان اس طرح ہو کہ وہ منظر نظروں کے سامنے گھوم جائے اور مدت تک ذہن پر اس کا نقش رہے۔
زبان وبیان
ادب کی کوئی صنف ہو اس میں زبان وبیان کی اہمّیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی حال خاکے کا ہے۔ یہ بیانیہ نثری صنف ہے۔ اس میں زبان وبیان کی بڑی اہمّیت ہے۔ اسی کے سہارے خاکہ نگار کسی شخص کو چلتا پھرتا، ہنستا بولتا دکھاتا ہے۔ وہ واقعات میں جان پیدا کرنے اور کردار کو حرکت میں لانے اور احساس کے قابل بنانے کے لیے الفاظ ہی کا سہارا لیتا ہے۔ خاکہ نگار کواپنے بیان میں زور پیدا کرنے کے لیے موزوں الفاظ، حسین تشبیہات، دل کش استعارات اور دوسری صنعتوں سے مدد لینی پڑتی ہے تاکہ حقیقی شخصیت بھی اُبھر کر سامنے آئے اور خاکہ میں ادبی لطف وچاشنی بھی پیدا ہو۔
خاکہ اور سوانح یا سیرت میں فرق
خاکہ کسی شخصیت کی جھلک پیش کرتا ہے سوانح کسی کی زندگی کی تفصیلات پوری جزئیات کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔ خاکہ میں یہ گنجائش نہیں ہوتی کہ شخصیت کے علمی فتوحات اور دوسرے تمام کارناموں کا جائزہ پیش کیا جائے جب کہ سوانح میں اس کی پوری گنجائش موجود ہوتی ہے ۔ سوانح پوری طوالت اور تفصیل کے ساتھ مدوح کی شخصیت کو پیش کرتا ہے مگر خاکہ میں ایسی غیر ضروری تفصیلات کی گنجائش نہیں ہوتی۔
خاکہ نگاری کا ارتقاء
اردو ادب میں باضابطہ خاکہ نگاری کی ابتدا مرزا فرحت اللہ بیگ کی مشہور و معروف کتاب "نذیر احمد کی کہانی، کچھ ان کی کچھ میری زبانی” (1927) سے ہوتی ہے، مگر کچھ محققوں اور ناقدوں نے اس سے بھی قبل اس صنف کے نمونے اور نقوش تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
مرزا فرحت اللہ بیگ کے بعد جن ادیبوں نے خاکہ نگاری کی طرف توجہ دی ان میں مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی، خواجہ غلام الیدین مالک رام کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
خاکہ نگاری خا ایک بہترین نمونہ "چند ہمیں عصر” مولوی عبدالحق کے قلم کا مرہون منت ہے، اس میں مولوی صاحب نے مختلف بڑی شخصیات کے ناموں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی سماج کے دیگر محنت کش افراد کی بے پناہ دیانتداری اور فرض شناسی کو اپنا خراج تحسین پیش کیا ہے۔
رشید احمد صدیقی کے خاکہ نگاری کے مجموعوں میں "گنجہائے گرانمایہ”، "ہم نفسان رفتہ” اور ذاکر صاحب۔
اردو میں خاکہ نگاری کی ابتدا باضابطہ طور پرجیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں ’’نذیراحمد کی کہانی کچھ ان کی اور کچھ میری زبانی‘‘، ’’دلی کا ایک یادگار مشاعرہ‘‘ اور ’’ایک وصیت کی تعمیل‘‘ وغیرہ سے ہوئی۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کے بعد جو خاکہ نگار سامنے آئے ان میں خواجہ حسن نظامی، آغا حیدر حسن، مولوی عبدالحق، شاہد احمد دہلوی، اشرف صبوحی، رشید احمد صدیقی، سردار دیوان سنگھ مفتون، جوش ملیح آبادی، خواجہ محمد شفیع دہلوی، مرزا محمود بیگ، مالک رام، منٹو، عصمت چغتائی، شوکت تھانوی، محمد طفیل، سید اعجاز حسن، کنھیالال کپور، شورش کاشمیری، فکرتونسوی، چراغ حسن حسرت، خواجہ غلام السیدین، مجید لاہوری، عبدالمجید سالک، کرشن چندر، ظ۔ انصاری، حامد جلال، احمد بشیر اور قرۃ العین حیدر وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ خواجہ احمد فاروقی، خلیق انجم، اسلم پرویز، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید ضمیر جعفری اور قدرت اللہ شہاب وغیرہ نے بھی عمدہ خاکے لکھے ہیں۔ عصرحاضر کے نمائندہ اور ممتاز خاکہ نگار مجتبیٰ حسین ہیں۔ ان کے علاوہ جن ادیبوں نے اس فن کووسعت دی ان میں انتظار حسین، یوسف ناظم، عابد سہیل اور اقبال متین وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔ آج بھی اردو میں خاکہ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ صنف عصرِ حاضر میں بھی جس طرح ترقی کے منازل طے کررہی ہے، وہ اس کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ خاکہ نگاری کی بڑھتی مقبولیت اور اس کی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی تامُّل نہیں کہ خاکہ یقیناََاُردو کی بے حد مقبول اور ترقی یافتہ صنف ہے اور یہ اُردو نثر کی آبرو بھی ہے۔
اردو خاکہ نگاری آج ترقی کی کئی منزلیں طے کرچکی ہے۔ جس کی ابتدا ءمرزا فرحت اللہ بیگ سے ہوئی اور دیکھتے دیکھتے اردو خاکہ نگاری کی جدید تاریخ میں کئی ایسے اہم خاکہ نگار ابھر کر سامنے آئے، جنہوںنے اس صنف کو ایک نئی تازگی و توانائی، دلکشی و شگفتگی اور ادبی وقار و معیار بخشا۔ 1970کے بعد صنف خاکہ کی طرح دوسری اصناف سے تعلق رکھنے والے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے بھی خاکہ نگاری کے باب میں کئی اضافے کیے۔ آج اردو کے رسائل و جرائد میں بھی کثرت سے خاکے شائع ہورہے ہیں اور دلچسپی سے پڑھے جارہے ہیں۔