پریم چند اردو و ہندی کے وہ پہلے ادیب و فنکار ہیں جن کی تحریروں میں حقیقت نگاری کا عنصر نمایاں اور غالب ہے، انھوں نے حقیقت نگاری کا جو تصور اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے وہ ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ تھا۔ قیام تحریک کے بعد یہی اس کی ہندوستانی شاخ کے میر کارواں بھی بنے تھے۔ اجتماعیت، اشتراکیت اور مقصدیت اس تحریک کے اساسی عناصر میں شامل تھے۔ جس کے ضمن میں بھوک، افلاس، غربت، سماجی پستی اور سیاسی غلامی جیسے مضامین کو انہوں نے اپنے ادبی میدان کا موضوع بنایا تھا۔۔ آئیے اس دعوے کی تصدیق ہم ان کے ایک افسانہ "اماوس کی رات” کے مطالعے سے کرتے ہیں۔
اماوس کی رات گاؤں کے ایک مذہبی پنڈت کی کہانی ہے جسے حسب منشاء عزت ثروت تو نہ مل سکی البتہ طلبِ جاہ و منصب کی شدید خواہش نے اس کے چہرے پر اپنے بھدے نقوش ضرور چھوڑ دئے تھے۔ بس انتطار، انتظار ہی رہا، نہ ہی اس کی زندگی کی محرومیاں ختم ہوئیں اور نہ ہی آسمانی مدد آئی، بالآخر آسانی آئی بھی تو اس وقت جب اس کی سب سے محبوب چیز چھن چکی تھی۔ اور وہ تھی اس کی پیاری بیوی۔
افسانے کا مرکزی کردار ہے پنڈت دیودت، جس کے گھر دیوالی کے شب بھی مایوسی کا اندھیرا چھایا ہوا ہوتا ہے۔ سارا گاؤں خوش ہے مگر پنڈت کے گھر بھوک و افلاس کا راج ہے۔ نہ ہی چراغوں میں تیل ہے اور نہ ہی پیٹ میں کھانا۔
اس کی بیوی گِرجا ادھ مری حالت میں بھی پنڈت سے دیپ جلانے کی خواہش ظاہر کرتی ہے جس پر پنڈت کو رونا آ جاتا ہے۔ ایک مرتا ہوا انسان اس کے اگے اپنی آخری خواہش کا اظہار کرتا ہے اور وہ اتنا مجبور و بے بس ہے کہ اپنی مرتی ہوئی بیوی کی آخری اور ادنٰی سی خواہش بھی پوری نہیں کر سکا اور آخر اس کی بڑھاپے کی ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ کر ملک عدم سدھار گئی۔
افسانے میں موجودہ سماج کی بے حسی دکھائی گئی ہے۔ ایک طرف بھوک سے انسان مر رہا ہے تو دوسری طرف لا لا شنکر داس کے روپ میں ایک ایسے حکیم کی منظر کشی کی گئی ہے جو پیسوں کا لالچی ہے وہ ”پیسے دو اور دوا لو“ والے فارمولے پر عمل کر کے مکمل بے حسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
افسانہ کے اس کردار میں انسانی سماج کا ایک سیاسی پہلو بھی نظر آتا ہے وہ یہ کہ آج کے دور میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اپنے فائدے کے بغیر کسی کی مدد نہیں کر تے۔ ہر کام میں ایک ذاتی مفاد پنہاں ہوتا ہے، جب پنڈت دیو دت حکیم کے پاس آتا ہے اور پیسے نہ ہونے کا عذر پیش کرتے ہوئے حکیم کو اپنی بیوی کے معالجے کے لئے لے جانے پر آمادہ کرنا چاہتا ہے مگر جانے سے انکار کر دینے کی صورت میں اس شرط پر اسے ساتھ چلنے کے لیے راضی کرلیتا ہے کہ ساری زندگی اس کی خدمت میں گزار دے گا۔
افسانے کے اس کردار سے سماج کو ایک آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کچھ انسان اتنے بے حس ہوتے ہیں کہ وہ کسی مرتے ہوئے انسان کو بھی بغیر مطلب کے نفع کا نہیں سوچ سکتے ۔ آج کل کے معاشرے کی یہی حقیقت جو اس افسانے میں دکھئئا گئی ہے۔
پریم چند چونکہ انسانی قدروں کی حفاظت کا درس دیتے ہیں اسی لیے انھوں نے اپنے بزرگوں کی روایات کو قائم رکھا جس کی مثال اپنے افسانے میں اس طرح دیتے ہیں کہ:
”خاندانی حشمت کی یادگار کچھ باقی تھی تو وہ ان رقعوں اور ہنڈیوں کا پلندا تھا جن کی سیاہی بھی حرف باطل کی طرح مٹ چکی تھی۔ پنڈت دیودت انھیں جان سے عزیز رکھتے تھے“۔
پریم چند کے زمانے میں چونکہ ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی اور پریم چند خود اس تحریک کے روح رواں تھے اسی لیے ’اماوس کی رات‘ افسانے میں ہمیں سرمایہ کاری کی بہترین مثال اس وقت ملتی ہے جب اپنے کام کو بہترین بنا کر پیش کرنے کے لیے حکیم لالہ شنکر داس اپنی دوا ’امرت بندو‘ کی اشتہار سازی میں حد درجہ غلو اور جھوٹ پر مبنی باتوں کا سہارا لیکر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہی سماج کا سچا ہمدرد اور خیر خواہ ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ کیسے ایک سرمایہ دار خریدار کی توجہ حاصل کرنے کی غرض سے اپنے اشتہاروں کے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتا ہے۔ اور انہیں اپنے چنگل میں پھنسانے کی کوشش میں کیا رہتا ہے۔
’اماوس کی رات‘ میں ہمیں جہاں ایک طرف منفی سماج کا عکس نظر آتا ہے جہاں لوگ بے حس ہیں اور کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں وہاں ہمیں ایسے انسان بھی نظر آتے ہیں جو احسان کا بدلہ ہر قیمت پر چکاتے ہیں اور یہ سماج کا ایک مثبت پہلو ہے۔
جب حکیم کی طرف سے مایوس ہو کر پنڈٹ دیودت گھر میں مایوس بیٹھا ہوتا ہے تبھی ایک جاگیردار اس سے دروازے پر دستک دیتا ہے اور اس کے پرکھوں کی لی ہوئی ایک خطیر رقم اس کے حوالے کرتا ہے قرض کی اس غیر متوقع رقم کی حصولیابی پر بے انتہا خوشی کے جذبات کے ساتھ اٹھتا ہے اور اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ بھگوان نے ہماری سن لی ہے اور اب تمہارا علاج ہو جائے گا اور تم بھلی چنگی ہو جاؤ گی۔ جوں ہی وہ اپنی بیوی کو ہلاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ تو چل بسی۔ اس کی ساری خوشی یہیں پر کافور ہوجاتی ہے
افسانے کے اختتام پر پنڈت حکیم جی کے پاس جاتا ہے اور نوٹوں کا پلندا ان کے آگے پٹک کر بولتا ”وید جی یہ پچھتر ہزار کے نوٹ لیں یہ آپ کا شکرانہ اور آپ کے فیس۔ آپ چل کر گرجا کو دیکھ لیں اسے کہیں کہ صرف ایک بار آنکھیں کھول لے۔
آخر میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان جب اچھے دنوں کے انتظار میں کٹھن راستوں پر چل کر منزل کے قریب پہنچتا ہے تو کبھی کبھی اسے اپنی سب سے قیمتی چیز کھو دینی پڑتی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ اسے اپنی قیمتی چیز کی بدولت ہی وہ منزل ملتی ہے۔ پھر ساری عمر کا پچھتاوا ساتھ رہ جاتا ہے۔
اس سارے منظر سے یہ بات سامنے آئی کہ انسان حالات کے سامنے بعض اوقات ہار جاتا ہے اور دنیاوی آسائش کے پیچھے اپنا دین دھرم قربان کر لیتا ہے۔
پریم چند نے دیہات کی صاف اور سیدھی سادی عوامی زندگی کا مطالعہ بڑے انہماک و استغراق کے ساتھ کیا ہے۔ ہندوستان کے دیہات اور ان کی پست حال زندگی کے مسائل شروع ہی سے ان کے پیش نظر رہے ہیں۔ خصوصاً کسانوں، مزدوروں، بے روزگاروں، نچلے اور بچھڑے ہوئے ہریجنوں کے دکھ درد کو انھوں نے بہت ہی قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ ان کے ذاتی مشاہدے اور تجربے میں صدیوں سے دبے کچلے کسانوں کی تکلیف و اذیت کا احساس واضح طور پر موجود ہے