اردو ادب میں غزل کے بعد مرثیے کی صنف کو بہت زیادہ عوامی مقبولیت حاصل رہی ۔ اردو میں مرثیہ دکن کے صوفیائے کرام کی سر پرستی میں پروان چڑھا ۔ اشرف بیابانی کی نوسر بار (1503ء) کو مرثیہ کا نقطہ آغاز سمجھا جا تا ہے۔ اس میں مرثیے کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔ اس کے بعد دکن میں شاہ برہان الدین جانم شاہ راجو نے بھی مرثییے لکھے۔ محد قلی قطب شاہ غواصی اور وجہی کے یہاں بھی مرثیے ملتے ہیں۔
شمالی ہند میں مرثیہ نگاری کا آغاز روشن علی کے’’ عاشور نامے سے ہوتا ہے ۔اس کے بعد فضل علی کی ’’ کر بل کتھا‘‘ کا نام آتا ہے جو نثر میں ہے ۔ شمالی ہند کے مرثیہ نگاروں میں مسکین، محب یکرنگ اور قائم وغیرہ نے بھی مرثیے لکھے۔ ان میں سب سے اہم نام محمد رفیع سودا کا ہے جنہوں نے اردو مرثیہ کو مسدس کی ہئیت عطا کی ۔
اٹھارویں صدی میں لکھے جانے والے مرثیے اپنے ارتقا کی ابتدائی مراحل کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ انیسویں صدی کا آغاز مریے کی ترقی کی نوید لاتا ہے اس زمانے میں جن لوگوں نے مر لکھے ان میں دلگیر فصیح، خلیق اور ضمیر کے نام اہمیت رکھتے ہیں یہ سبھی ادباء سودا کے ہمعصروں میں شمار ہوتے ہیں۔
ضمیر کے شاگرد دبیر اور خلیق کے فرزندانیس نے اردو مرثیے کو بام عروج پر پہنچایا۔ ان کے بعد میر انیس کے خانوادوں نے اس صنف کی آبیاری کی۔
دور جدید میں جوش، آل رضا، جمیل مظہری، انجم آفندی اور ڈاکٹر وحید اختر نے مرثیہ کا مقام بلند کیا اور مرثیہ کو صرف رونے رلانے کہ صنف سے نکال کر فکر و آگہی کے زاویے عطا کئے۔