ڈاکٹر سر محمد اقبال کی نظم گوئی

اوردو نظم کے ارتقاء میں علامہ اقبال خدمات

اوردو نظم کے ارتقاء میں علامہ اقبال کی خدمات نا قابل فراموش ہیں، انہوں نے عم عمری ہیں سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ داغ سے اصلاح لیتے تھے۔ لیکن ان کی شاعری کا رنگ داغ سے یکسر مختلف تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا تھا۔ لیکن ان کی نظموں کی تعدا غزلوں سے زیادہ ہے۔ ان کی شہرت بحیثیت نظم گو شاعر کے ہے۔ انہوں نے شاعری شروع کی تو ان کے سامنے مولانا الطاف حسین حالی، نظیر اکبر آبادی، محمد حسین آزاد، مولانا شبلی، اور اسماعیل میرٹھی کی نظمیں بطور نمونہ موجود تھیں ۔انہوں نے نہ صرف اس سلسلے کو آگے بڑھایا بلکہ اردو میں نظم نگاری کے وقار و معیار کو بلندی عطا کی۔ اقبال اردو کے اہم مفکر شاعر ہیں ۔انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعے دنیا کے سامنے اپنے مخصوص نظام فکر کو پیش کیا۔ ان کی نظموں میں رابط وتسلسل ہے ۔ مدلل اور مر بوط فلسفہ ہے ۔ ایک مخصوص انداز فکر ہے ۔اقبال کے مخاطب ہمیشہ وہ انسان رہے ہیں جو حرارت، یقین محکم، اور عمل پیہم سے خالی اور جمود اور تعطل کا شکار تھے۔ انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعہ ان کے مردہ دلوں میں زندگی کی روح بچھو نکلنے کی کوشش کی اور کامیاب زندگی گزارنے کا تصور پیش کیا۔ ان کی کچھ اہم نظمیں خضر راہ، مسجد قرطبہ، ساقی نامہ، ذوق وشوق، والدہ مرحومہ کی یاد میں، شمع و شاعر، ابلیس کی مجلس شوری، بچے کی دعا، ہمالہ، طلوع اسلام، شکوہ، جواب شکوہ، ماں کا خواب، پرندے کی فریاد، پہاڑ اور گلہری وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ان میں سے اکثر نظمیں اپنی فنی خوبیوں کی بلندی پر نظر آتی ہیں۔ ” ہمالہ ” اقبال کی پہلی مطبوعہ نظم ہے۔ اس نظم نے صاحب ذوق حلقے کو چونکا دیا تھا۔ اس نظم میں حسن فطرت، حب الوطنی کے ساتھ ساتھ ماضی کی باز یافت کا جذبہ بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ اقبال نے ہیت کو کبھی اہمیت نہیں دی ان کی غزلوں میں تسلسل اور نظموں میں رنگ تغزل کا رنگ ملتا ہے۔

اقبال کے پہلے شعری مجموعے "بانگ درا” میں حسن فطرت سے دلچسپی اور حب الوطنی کے جذبات نمایاں نظر آتے ہیں ۔ "بال جبرئیل” کی شاعری میں مفکرانہ پہلو نمایاں ہیں، "ضرب کلیم” اور "ارمغان حجاز” کی نظموں پر ڈرامائی انداز اور خطابت حاوی ہے۔

وطنی اور قومی شاعری میں انھوں نے حب الوطنی کے جذبات ابھارنے کی کوشش کی ہے یا قوم کو دعوت عمل دی ہے ۔ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، ترانۂ ملی، نیا شوالہ، وطنیت، خطاب بہ نوجوانان اسلام، ہلال عید، صداۓ درد، تصویر درد، آفتاب، ترانۂ بندی وغیرہ اس کی متعدد مثالیں ہیں۔ ان نظموں میں اقبال نے قوم کو اتحاد کا پیغام دیا۔ اور خبر دار کیا کہ اگر وہ متحد نہ رہیں گے تو پوری قوم کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا۔ اس زمانے میں اقبال نے بچوں کی نظمیں بھی کثرت سے لکھیں جن میں ایک مکڑی، ایک مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکرری، بچےکی دعا، ماں کا خواب، پرندے کی فریاد اور ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اہم ہیں ۔ ان میں بعض نظمیں مشہور شعرا ایمرسرن، ولیم کوپر، لانگ فیلو اور ٹینی سن کے خیالات سے متاثر ہو کر کھیں۔

شکوہ اقبال کی پہلی طویل نظم ہے جو انہوں نے 1911ء میں لکھی۔ اس نظم میں اقبال نے مسلمانوں کے دور عظمت و شوکت کا حال اور موجودہ زیورات کو نہایت فنکارانہ انداز میں پیش کیا۔ اردو کا شعری سرمایہ اس انداز بالکل نا آشنا تھا۔ بہ اس دور کے مسلمانوں کے دل کی آواز تھی۔ نظم شکوہ بے حد مقبول ہوئی، شکوہ کے ڈیڑھ سال بعدا قبال نے’’جواب شکوہ” لکھی۔ انھوں نے اللہ تعالی کی جانب سے مسلمانوں کو مخاطب کیا۔ یہ نظم بیانیہ انداز کی ہے۔ اس میں تاسف کا اظہار بھی ہے امید بھی بندھائی گئی۔ دعوت عمل بھی ہے۔ ان سب نے مل کر نظم کو منفرد بنادیا ہے۔ ڈرامائی رنگ نے اس کی تاثیر میں اضافہ کردیا ہے۔ کہیں کہیں طنزیہ انداز سیدھا دل میں اتر جاتا ہے۔ جیسے:

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

جواب شکوہ فکر و خیال کی ندرت کے ساتھ فنی اعتبار سے بھی ایک خوب صورت نظم ہے ۔ تاثر کی شدت اور جذبے کی گہرائی نظم کے ہر حصے میں موجود ہے نظم کا اختتام اس قد ر لاجواب ہے کہ اس کی مثال پوری شاعری میں نہیں ملتی :

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

سرکار دو عالم نے اقبال کی بے پناہ محبت ان کی دوسری نظموں میں جھلکتی ہے ۔ "شمع وشاعر” بھی ایک اہم نظم ہے ۔ اقبال نے رمز، کنایہ و علامت کا پیرا یہ اختیار کیا ہے۔ اقبال نے شاعری کی پرانی و روایتی علامتوں کو نئے معنی و مطالب عطا کیے ۔ اس نظم کا موضوع قومی انحطاط، مسلمانوں کا مقام، راہ عمل اور درخشاں مستقبل ہے۔ اقبال مسلمانوں کے انحطاط کا سبب ان کے انفرادی کردار کا خاتمہ، اخلاقی پستی سے ملی تن آسانی، موثر قیادت کا فقدان، آپسی نفاق و انتشار بتاتے ہیں ۔ اقبال مسلمانوں کو اس بات کا بھی احساس دلاتے ہیں کہ وہ ماضی میں کیا تھے اور اب کیا ہیں۔

غرض اقبال ایسے ہنر کی تخلیق کے قائل ہیں جسے حیات ابدی حاصل ہو جو دلوں میں ولولہ پیدا کرے ۔ وہ چمک دمک وخوب صورتی سے نہیں بلکہ تلاطم کے طرف دار ہیں ۔ وہ افسردگی کے نہیں امید افزا جد و جہد چاہتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ جب تک قو میں کوئی معجزہ نہیں دکھا تیں۔ دنیا میں ان کا نام نہیں ہوتا۔ جس طرح موسی نے اپنے عصا کے ذریعہ معجزے دکھائے تھے، اسی طرح قوم بھی اپنی مخفی صلاحیتوں کو پہچان کر عصا کی طرح منجزے دکھائے ۔ اقبال خودی کی پہچان حرکت ، عمل اور جدوجہد کا پیغام دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہنر کا مقصد بھی یہی پیغام ہو۔

اشتراک کریں