نظیر اکبر آبادی کی نظم گوئی : ایک مطالعہ

تعارف

نظیر اکبر آبادی کا نام شیخ ولی محمد تھا۔ نظیر تخلص کرتے تھے۔ (1735-1740 کے عرصہ کے دوران دہلی میں پیدا ہو‎ئے۔ آپ کے والد کا نام محمد فاروق تھاجو اپنے والد کی بارہ اولادوں میں سے صرف ایک ہی تھے۔ کم عمری ہی میں والدہ کے ساتھ آگرہ منتقل ہو گئے اور محلّہ تاجج گنج میں مقیم ہوئے۔ ایک مکتب سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ طبیعت میں موزونیت فطرت سے ملی تھی اس لیے شاعری شروع کی۔ نظیر ایک سادہ صفت انسان تھے، ان کی ساری عمر معلمی میں بسر ہوئی۔ وہ قناعت پسند تھے، وہ کسی دربار سے وابستہ نہیں ہوئے، آخری عمر میں فالج کی حالت میں مبتلا ہوئے اور 1830ء میں انتقال کرگئے۔

نظیر کی نظم نگاری

نظیر اکبر آبادی کے سوانح کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی عمر سے ہی انہیں شاعری کا چسکہ لگ گیا تھا ۔ شعر کہتے تھے مگر اس کی حفاظت نہیں کی مختلف تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ 1770ء میں جب میر تقی میر دہلی سے آگرہ لوٹے تو میاں نظیر نے ان سے ملاقات کی اور ایک غزل سنائی۔ اس وقت ان کی عمر 34 سال تھی ۔ 34 سال کی عمر پختہ عمر ہوتی ہے ۔ یقیناً بہ ان کی پہلی غزل نہیں تھی جو انہوں نے میر تقی میر کوسنائی ہوگی ۔ اس کے بعد بھی انہوں نے کئی غزلیں لکھیں لیکن ان کا زیادہ تر رجحان نظم نگاری کی طرف رہی رہا۔

جس دور میں نظیر اکبرآبادی حیا تھے وہ شاعری کا ایک ایسا دور تھا جس میں علم عروض، قافیہ اور ردیف کی پابندی لازمی تھی۔ سارے معاشرے میں شاعری کے لیے مدون کیے ہوئے اصولوں کی پابندی کی جاتی تھی ۔ نظیر اکبر آبادی بھی اسی پا بند ماحول کے پروردہ تھے۔ اس لیے ان کی شاعری فنی اصولوں کی پابند رہی ۔ ان کی نظموں میں مثلث، مربع، مخمس اور مسدس کے سانچے استعمال ہوئے ہیں جن میں وزن ، بحر قافیہ اور ردیف کی پابندی بھی دکھائی دیتی ہے۔

اگرچہ جدید نظم کے دور کا کریڈٹ الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد کو جاتا ہے لیکن نظیر اکبر آبادی کو بجا طور پر ’’اردو نظم کا باپ‘‘ سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کا دور ان سے پہلے کا ہے۔

اسلوب نگارش

نظیر اکبر آبادی اردونظم کے واحد شاعر ہیں جنہوں نے عربی، فارسی، پنجابی، اودھی، برج، کھڑی بولی اور سنسکرت کے الفاظ کو پوری خصوصیات کے ساتھ اپنی شاعری میں شامل کیا۔ نظیر کی شاعری میں فارسی الفاظ اور تراکیب کی کمی نہی ۔ وہ کفر و ایمان، دیر و حرم، سجد و زُنار کی تراکیب کے علاوہ عاشق دلبر دشت اور آہنگ کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ کھڑی بولی برج اور پنجابی سے آنند، بھیڑ، جنم، تت بھو، سنسار، لچھن، اوتار، سروپ، پر تپال، مدھ مست کے الفاظ ان کی شاعری میں جگہ پاتے ہیں د۔ وہ نہ صرف چولھا، ہانڈی اور تنور کواپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں بلکہ ایسے اودھی کے الفاظ بھی ان کی شاعری میں جگہ بناتے ہیں جنہیں صرف انھوں نے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ مخاطبت کے لیے ’’بابا’‘ کے لفظ کا استعمال بھی خالص ہندوستانی مزاج کی نمائندگی کرتا ہے ۔ غرض نظیر اکبرآبادی نے اپنی شاعری میں بے شمار ہندوستانی الفاظ استعمال کیے جنہیں نہ نظیر اکبر آبادی سے پہلے کسی شاعر نے استعمال کیا تھا اور نہ بی نظیر کے بعد کسی شاعر نے اپنی شاعری میں ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ نظیر کوزبان پر بڑی قدرت حاصل تھی جس کا اندازہ ان کی مخمس کے اس بند سے بھی ہوتا ہے۔

نٹ کھٹ، اچکے، چور دغاباز، راہ مار
عیار جیب کترے نظر باز ، ہوشیار
سب اپنے اپنے پیٹ کے کرتے ہیں کاروبار
کوئی خدا کے واسطے کرتا نہیں شکار
بلی بھی مارتی ہے چوہا پیٹ کے لئے

نظیر اکبر آبادی کی شاعری کے موضوعات

نظیر نے سیکڑو غزلیں چھوڑی ہیں لیکن ان کی نظمیں زیادہ قابل تعریف ہیں۔ درحقیقت نظیر اکبر آبادی کی مقبولیت ان کی نظموں کی وجہ سے ہے۔ وہ مکمل طور پر ’’عوامی شاعر‘‘ تھے اور ان کی نظمیں روزمرہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی نظیر اکبر آبادی ایک شاعر ہی نہیں بلکہ اپنے دور کے معاشرہ اور سماج کے بہترین شاہد اور عکاس بھی تھے۔ ان کی تمام تر نظموں میں مشاہداتی فضا موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں زندگی کے تمام موضوعات دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں میلوں ٹھیلوں اور کھیل تماشوں کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔ ان کی نظموں میں ہندوستانی ماحول موجود ہے اور ہندو مسلم تہواروں اور عیدوں پر ان کی کئی نظمیں موجود ہیں۔ عید گاہ اکبر آباد، شب برات، عید الفطر اور ہولی، دیوالی پرنظمیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ نظیر اکبر آبادی نے دنیا کی بے ثباتی، آ دمی نامہ، بنجارہ نامہ، ہنس نامہ جیسی مشہور نظمیں لکھیں۔

نظیر کی شاعری میں برسات ، بچپن، جوانی اور بڑھاپا سبھی موضوعات پر نظمیں موجود ہیں۔ ان کی شاعری میں مظاہر حیات کی بھی بھی مسرت آفرینی۔ لالہ و گل، نسرین و سمن، نیلوفر وسوسن ، چنبیلی، مدھ مالتی، مولسری، کنول، موگرہ، کیتکی ، موتیا اور سرسوں پر بھی انھوں نے نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی نظموں میں موضوعات کی بھرمار ہے۔ نظیر نے اپنے دور کے ہر منظر کونظم کا موضوع بناتے ہوۓ خالص ہندوستانی معاشرہ کی بھر پور عکاسی کی ہے۔

نمونۂ کلام

نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ’’بنجارا نامہ‘‘ کے اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گو میں پلا سر بھارا
کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

گر تو ہے لکھی بنجارا اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے
اے غافل تجھ سے بھی چڑھتا اک اور بڑا بیوپاری ہے
کیا شکر مصری قند گری کیا سانبھر میٹھا کھاری ہے
کیا داکھ منقی ٰ سونٹھ مرچ کیا کیسر لونگ سپاری ہے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

تو بدھیا لادے بیل بھرے جو پورب پچھم جاوے گا
یا سود بڑھا کر لاوے گا یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا
قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا
دھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ہر منزل میں اب ساتھ ترے یہ جتنا ڈیرا ڈانڈا ہے
زر دام درم کا بھانڈا ہے بندوق سپر اور کھانڈا ہے
جب نایک تن کا نکل گیا جو ملکوں ملکوں ہانڈا ہے
پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے نہ حلوا ہے نہ مانڈا ہے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری رہ جاوے گی
اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی
یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی
دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اشتراک کریں