مولانا الطاف حسین حالی کے تنقیدی تصورات : تجزیاتی مطالعہ

اردو تقید میں حالی کی عظمت بایں حیثیت ہے کہ وہ اردو کے پہلے ناقد ہیں اور ان کی کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری” اردو تنقید کی پہلی باضابطہ کتاب ہے۔ ان سے قبل اردو میں جو تنقید تھی وہ تذکروں، تقریظوں، تبصروں اور ادباء کے خطوط میں کہیں کہیں بکھری پڑی تھی. حالی نے پہلی بار تنقیدی تصورات کو ایک شکل وصورت عطا کی اور انہیں کتابی صورت میں پیش کیا۔ اس طرح حالی کے تنقیدی تصورات کی اولیت مسلم ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ان پر کڑی تنقید بھی کی گئی ہے ۔

حالی اور تنقید

حالی کا تنقید سے رشتہ مشرقی اور مغربی دونوں تنقیدوں سے ہے۔ مشرقی تنقید سے مراد شاعر ی اور فارسی تنقید ہے جب کہ مغربی تنقید سے مراد یہاں انگریزی تنقید ہے۔ مولانا حالی کا مشرقی تنقید سے جو رشتہ ہے وہ براہ راست ہے۔ انہوں نے عربی اور فارسی کی باقاعد تعلیم حاصل کی تھی اور عربی و فارسی شعر وادب کا بصد شوق مطالعہ کیا تھا۔

انگریزی تنقید سے ان کا رشتہ بالواسطہ تھا وہ انگریزی زبان سے تو واقف نہ تھے البتہ گورنمنٹ بک ڈپو لاہور میں ملازمت کے دورانیے میں انگریزی ادبیات کے ترجموں کی تصحیح و اصلاح کے دوران انگریزی شعر و ادب اور مغربی تنقیدی تصورات سے واقفیت حاصل کرنے کا زریں موقع ہاتھ آیا۔ 

حالی کے تنقیدی تصورات کی جو تشکیل ہوئی وہ مشرقی اور مغربی تصورات نقد کی آمیزش سے ہوئی۔ حالی کے ذہن میں پہلے سے مشرقی تنقیدی تصورات موجود تھے جب ان میں مغربی تنقیدی تصورات کی آمیزش ہوئی تو دونوں مل کر اردو میں چند نئے تنقیدی تصورات کی صورت میں جلوہ گر ہوئے۔

حالی کے تنقیدی تصورات ………. (نظریاتی تنقید)

حالی نے اپنے تنقیدی تصورات اپنی کتاب مقدمہ شعر و شاعری میں پیش کیے ہیں ۔ یہ کتاب سب سے پہلے 1893 میں شائع ہوئی تھی۔ دراصل یہ حالی کے دیوان کا مقدمہ تھا جسے بعد میں ایک الگ کتاب کی صورت دے دی گئی۔ حالی نے اپنی اس کتاب میں شاعری کے تعلق سے اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ شاعری کیسی ہو ؟ شاعری سے سماج کا تعلق کس نوعیت کا ہو ؟ شاعری میں وزن کی ضرورت کتنی ہے؟ یا یہ کہ شاعری میں قافیہ کی کتنی اہمیت ہے ؟ نیز یہ بھی کہ شاعر بننے کے لیے کن صفات اور شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے ۔ اور عمدہ شعر کی کیا خصوصیات ہیں؟ وغیرہ۔ حالی نے ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے ساتھ اردو کی اصناف سخن پر بھی اپنی تنقیدی آرا پیش کی ہیں جو بیش قیمت اور گراں قدر ہیں۔ 

شاعری کا بنیادی مقصد

حالی شاعری کو معاشرے کی اصلاح کا ایک مؤثر ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

”شعر اگرچہ براہ راست علم اخلاق کی طرح تلقین اور تربیت نہیں کرتا لیکن ازروئے انصاف اس کو علم اخلاق کا نائب اور قائم مقام کہہ سکتے ہیں” (مقدمہ شعر و شاعری، ص:28)

حالی نے اپنے اس دعوے کی دلیل میں عربی شاعر اعشی اور فارسی شاعر عمر خیام کے علاوہ دیگر کئی شعرا کی مثالیں دے کر ثابت کی کوشش کی ہے کہ ان کی شاعری معاشرے میں خاطر خواہ تبدیلیوں کا سبب بنیں۔

شاعری میں وزن اور بحر کی حیثیت

حالی کے نزدیک شاعری میں وزن اور بحر کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے شاعری اس کے بغیر بھی ہو سکتی ہے چنانچہ لکھتے ہیں:

”شعر کے لئے وزن ایک ایسی چیز ہے جیسے راگ کے لئے بول جس طرح راگ فی ذاتہٖ الفاظ کا محتاج نہیں اسی طرح نفس شعر وزن کا محتاج نہیں”۔ (مقدمہ شعر و شاعری، ص: 43)

یہ ایک انقلابی خیال تھا جس پر اس وقت لوگوں کو بڑا تعجب ہوا تاہم انہوں نے اپنی نثری نظموں سے یہ ثابت کر دیا کہ شاعری کے لئے وزن کی چنداں ضرورت نہیں.

شاعری میں قافیہ اور ردیف کی حیثیت

حالی کے نزدیک شعر میں قافیہ اور ردیف کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ شاعر کو اپنے فرض کی ادائیگی سے بہت دور لے کر چلے جاتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:

’’قافیہ اور خاص کر ایسا جیسا کہ شعرائے عجم نے اس کو نہایت سخت قیدوں سے جکڑ بند کر دیا ہے اور پھر اس پر ردیف کی اضافہ فرمائی ہے’ شاعر کو بلا شبہ اس کے فرائض ادا کرنے سے باز رکھتا ہے۔ جس طرح صنائع لفظی کی پابندی معنی کا خون کر دیتی ہے اس طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ قافیہ کی قید ادائے مطلب میں خلل انداز ہوتی ہے۔‘‘ (مقدمہ شعر و شاعری، ص: 45)

حالی کے نزدیک شاعر بننے کے شرائط

حالی کے نزدیک شاعر بننے کے لئے کچھ ضروری شرائط ہیں جن کی رعایت کے بغیر کوئی شاعر نہیں بن سکتا، حالی اردو کے وہ پہلے ناقد ہیں جنہوں نے اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کیا تھا۔انہوں نے جو نتائج اخذ کیے تھے وہ آج بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ حالی کے خیال میں کسی شاعر میں تین خصوصیات کا ہونا لازمی ہے ۔جن کے بغیر وہ عمدہ شاعری تو در کنار شاعری بھی نہیں کرسکتا ۔ وہ تین خصوصیات یہ ہیں ( 1 ) تخیل ( 2 ) کائنات کا مطالعہ ( 3 ) تفحص الفاظ۔یہ وہ شرائط و خصوصیات ہیں جن کے بغیر شعر گوئی کا عمل ممکن نہیں ہے ۔ حالی نے ان میں سے ہر ایک پر تفصیلی طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ حالی نے ان خصوصیات کو سمجھنے میں مغربی اور مشرقی دونوں ادبیات کے ناقدین سے استفادہ کیا ہے۔

عمدہ شعر کی خصوصیات

حالی نے اردو میں پہلی بار شعر کی ماہئیت پر اپنا نظریہ پیش کیا۔ اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ شعر کیسا ہو؟ عمدہ شعر کیوں کر تخلیق پا تا ہے؟ اور کن کن خصوصیات کی بنا پر شعر میں تاثیر پیدا ہوتی ہے؟ وغیرہ ۔اردو میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کوشش تھی۔ تاہم حالی نے اپنی اس رائے میں انگریزی شاعر ملٹن سے استفادہ کیا ہے۔ ملٹن نے عمدہ شعر کی تین خصوصیات بیان کی ہیں کہ شعر Simple ہو Sensuous ہواور Emotional ہو۔ حالی نے ان کا ترجمہ کرتے ہوۓ لکھا ہے کہ:

”شعر کی خوبی یہ ہے کہ ( 1 ) سادہ ہو ( 2 ) جوش سے بھرا ہوا ہو اور ( 3 ) اصلیت پر بنی ہو۔”     (مقدمہ شعر و شاعری، ص: 68)

حالی نے یہ دعوی کیا ہے کہ دنیا کے تمام مقبول شاعروں کے کلام میں یہی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ان خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے اردو شعرا کوترغیب دی ہے کہ وہ اپنے کلام میں ان خصوصیات کو پیدا کر میں تا کہ وہ عمدہ کلام تخلیق کرسکیں۔ 

اردو کی اصناف سخن پر حالی کی تنقید۔ (عملی تنقید)

حالی نے شاعری میں نظریاتی تنقید کے ساتھ ساتھ عملی تنقید کے بھی نمونے پیش کیے ہیں۔ موصوف نے اردو کی اصناف سخن مثلاً غزل، قصیدہ، ہجو، مثنوی اور مرثیہ پر اپنی تنقیدی رائے پیش کی ہے ۔ یہ تصور پیش کیا ہے کہ غزل کیسی ہواور کیسی نہ ہو ؟ قصیدہ کی فی زمانہ کیا اہمیت ہے؟ مرثیہ کی قدر و قیمت کیوں کی جائے؟ اور مثنوی اردو کے لیے کس حد تک کارآمد صنف سخن ثابت ہوگی؟ وغیرہ۔

حالی نے ان تمام اصناف سخن کا تجزیہ کر کے نئے نتائج اخذ کئے ہیں۔

غزل

اردو کی سب سے زیادہ معروف صنف ہونے کی وجہ سے سے حالی نے غزل پر خاص توجہ دی ہے، حالی کے نزدیک غزل میں اعلی اخلاق کی تلقین کر کے معاشرے کے حالات کو سنبھالا جا سکتا ہے اس کے بر عکس مخرب اخلاق مضامین سے معاشرے کے حالات ابتر ہو سکتے ہیں۔ حالی کے مطابق غزل صرف عشق وعاشقی تک محدود نہیں ہونی چاہیے اس میں ہر وہ کیفیت اور خیال کا اظہار ہونا چاہیے آئے جن کا ورود دل پر ہوتا ہوں اس سے غزل کو وسعت ملے گی، حالی کے نزدیک محبت محض ہوس کا نام نہیں ہے اس لئے بات اگر محبت کی ہو بھی تو اظہار محبت کے لئے ایسے جامع الفاظ استعمال ہونے چاہیے جو دوستی اور محبت کے ہر رشتے کا احاطہ کر لیں، اظہار محبت کے لیے ایسے الفاظ استعمال نہ ہو جن سے محبوب کے جنس کا پتہ چلتا ہو نیز محبوب کے لئے ہمیشہ مذکر کا صیغہ استعمال ہونا چاہیے۔

غزل کے باب میں حالی دوسری اصلاح خمریات کے باب میں کرنا چاہتے ہیں، قدماء کے کلام میں شراب اور اس کے لوازمات کا استعمال آل بطور استعارہ کے ہوا تھا تھا لیکن مرور زمانہ کے ساتھ اب یہ حقیقت کا روپ اختیار کر گئے ہیں چنانچہ اب غزل سراپا گلال کی دکان بن گئی اور اس میں مخرب اخلاق مضامین کا ایک انبار لگ گیا اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔

 غزل میں جو دوسری خرابی ہے وہ ہے واعظ اور زاہد کی بے جا نقطہ چینی اور غلو پسندی، حالی کے مطابق واعظ اور زاہد کی نکتہ چینی میں اعتدال سے کام لیا چاہئے اور صرف وہی خرابیاں بیان کرنی چاہیے جو حقیقت میں ان کے اندر موجود ہوں جیسے اخلاقی گراوٹ وغیرہ۔

اس کے علاوہ حالی نے صنائع بدائع کے استعمال میں بھی حد درجہ احتیاط برتنے کا مشورہ دیا ہے صرف وہی صنعت استعمال کرنی چاہئے جو شعر کے حسن کا باعث ہوں۔ بصورت دیگر غزل رسوا ہو سکتی ہے۔

قصیدہ اور مرثیہ

حالی نے قصیدہ اور مرثیہ دونوں پر بہ یک وقت اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ کیوں کہ دونوں کا فرض منصبی تعریف ہے۔ فرق صرف یہ کہ قصیدہ میں زندہ شخص کی تعریف کی جاتی ہے اور مرثیہ میں مرنے والے کے اوصاف حمیدہ بیان کیے جاتے ہیں ۔ قصیدہ کے تعلق سے حالی نے لکھا ہے کہ اگر کسی نیک اور لائق آدمی کی تعریف سچے دل سے کی جائے تو قصیدہ کا حق ادا ہوتا ہے ورنہ قصیدہ کا مقصد فوت ہو جا تا ہے۔ حالی نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اردو میں سوائے سودا اور ذوق کے کسی نے ایسے قصید نہیں لکھے ہیں جو فاری یا عربی کے ہم پلہ ہوں۔ وہ اس افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ قصیدہ کی اب اگر ضرورت ہوتو اردو میں ایسا کوئی نمو نہیں ملتا جس کی تقلید کی جاسکے۔ کیوں کہ جہاں برسہا برس تک بادشاہوں اور نوابوں کی جھوٹی تعریف کی گئی ہو وہاں سچی تعریف کی توقع کرنالا حاصل ہے۔ یہی بات ہجو کی تھی۔ ہجو کسی کے برائیوں پر نفرین وملامت کرنے کا نام ہے۔ اگر ہجو اس نیت سے لکھی جائے کہ اس سے اس شخص کی اصلاح ہوتو بہتر ہے۔ مگر اردو میں ہجو صرف دوسروں کی دل آزاری کی غرض سے لکھی جاتی ہے۔ لہذا اس کا مقصد بھی فوت ہو جا تا ہے۔ 

جہاں تک مرثیہ کا تعلق ہے حالی نے میرانیس کی مرثیہ نگاری کی تعریف کی ہے اور یہ بھی تنبیہ کی ہے کہ اگر واقعات کربلا کے بیان میں بناوٹ اور تصنع سے کام نہ لیا جائے تو لوگوں کو اس سے نصیحت مل سکتی ہے۔

حالی نے اردو میں مرثیہ نگاری کے فروغ کے لیے چند ایک مشورے می دیئے ہیں۔ ایک یہ کہ نئے مرثیہ نگاروں کو میر انیس کی راہ پر چلنے سے روکا ہے ۔ کیوں کہ یہ ناممکن ہے کہ میر انیس اور مرزاد بیر کے اسلوب میں اب کوئی شاعر ان کا سا کمال پیدا کر سکے۔ دوسرے یہ کہ مرثیہ میں فخر وخودستائی اور سرا پا وغیرہ کو داخل کرنا لمبی لمبی تمہیدیں باندھنا ، گھوڑے اور تلوار کی تعریف میں نازک خیالی کرنا اور شاعرانہ ہنر وغیرہ دکھانا مرثیہ کے موضوع کے برخلاف ہے۔ اس کے بجاۓ شاعری کا سارا کمال زبان کی صفائی مضمون کی سادگی و بے تکلفی کلام کے موثر بنانے اور آورد کو آمد کر دکھانے ہی میں صرف کرنا چاہیے۔ تیسرے یہ کہ مرثیہ کوصرف واقعہ کربلا کے ساتھ مخصوص کرنا اور تمام عمر اس ایک مضمون کو ہراتے رہنے کو بھی حالی نے پسند نہیں کیا ہے۔

مثنوی

حالی نے مثنوی کو اردو کی تمام اصناف سخن میں سب سے زیادہ کارآمد صنف قرار دیا ہے۔ انہوں نے مختلف اصناف سخن مثلاً غزل، قصیدہ اور کچھ شعری ہئیتوں مثلا مسدس، ترجیع بند اور ترکیب بند وغیرہ سے موازنہ کر کے مثنوی کی فنی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ مثنوی ان معنوں میں سب سے بہتر صنف سخن ہے کہ اس میں ایک قافیہ کی پابندی یا تعداد اشعار وغیرہ کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے مثنوی میں ہرقسم کے مسلسل مضامین کے بیان کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ اور یہ آزادی اردو کی کسی صنف میں موجود نہیں ہے۔ چنانچہ ہر طرح کے مطالب، طویل مضامین، قصے وغیرہ بہ آسانی بیان کیے جاسکتے ہیں ۔البتہ زبان و بیان کی خامیوں سے مثنوی نگار کو خبردار رہنا چاہیے ورنہ فن کی رسوائی ہوگی۔ حالی نے ایک عمدہ مثنوی لکھنے کے لیے درج ذیل مشورے دیے ہیں :

مثنوی میں جو واقعات بیان ہوں وہ بے ربط نہ ہوں، ان میں غیر فطری عناصر سے بالکل اجتناب کیا جائے کیونکہ فی زمانہ یہ چیزیں مضحکہ خیز ثابت ہوں گی۔ مبالغے سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ جو حالت بیان کی جائے وہ نیچرل عادت کے موافقت رکھتی ہو، اس بات کا خیال رہے کہ ایک بیان دوسرے بیان کی تکذیب نہ کرے۔ انسانی مشاہدہ اور تجربے کے خلاف بھی کوی بات نہ ہو، تہذیب و شرافت کے خلاف باتیں نہ ہوں۔ 

حالی کے ان تنقیدی تصورات سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ سچی اور نیچرل شاعری کو اردو میں فروغ دینا چاہتے ہیں اور جھوٹ، مبالغہ اور تصوف پر مبنی شاعری کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں۔

حالی کے تنقیدی تصورات کی اہمیت و افادیت

مولانا الطاف حسین حالی نے اردو زبان و ادب کو جو تنقیدی شعور اور تنقیدی تصورات بخشے ہیں وہ بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ ہم جب ان تصورات پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حالی اپنے ان تنقیدی تصورات کے توسط سے ایک صحت مند اور سچا ادب فروغ دینا چاہتے تھے، ایک ایسا ادب جو جھوٹ، مبالغہ آرائی اور تصنع سے پاک ہو کر حقیقت پسندی پر مبنی ہو، حالی کے یہ تنقیدی تصورات کئی وجوہات کی بنیاد پر بہت ہی اہم ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:

1) سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ تصورات اپنی نوعیت کی اولین مثال ہیں، حالی سے پہلے جو تنقیدی شعور اور نظریات ہمیں ملتے ہیں وہ غیر مرتب اور بے ضابطہ نظر آتے ہیں۔

پروفیسر عبد الکلام قاسمی نے حالی اور محمد حسین آزاد کے تنقیدی شعور کا مقابلہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

”آزاد کے تنقیدی تصورات منتشر معلوم ہوتے ہیں ان کے یہاں نظم و ضبط کی کمی ہے اور وہ بنیادی مسائل پر تفصیلی اظہار خیال نہیں کرتے، مگر ان کے نقائص کا تدارک ہمیں حالی کے یہاں ہوتا دکھائی دیتا ہے، حالی اپنے ماقبل کی تنقید کی کمیوں کو بنیادی اصول نقد اور شعر و شاعری کی ہیئت پر پوری توجہ صرف کر کے پورا کرتے ہیں.”۔ (فکر و نظر, حالی نمبر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صفحہ 43)

یہ کمی صرف آزاد کی کمی نہیں بلکہ حالی سے قبل جو بھی تنقیدی خیالات ہمیں ملتے ہیں اس میں ہمیں نظم و ضبط کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔

2) بعض ادبی مباحث حال ہی کی وجہ سے اردو میں شروع کیے گئے مثلا ”سماج اور ادب” کے رشتہ پر حالی نے پہلی بار دو ٹوک انداز میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ آل احمد سرور اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”حالی نے سماج اور شاعر کے تعلق کا جو نظریہ پیش کیا ہے بہر حال اردو میں اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔”۔ (فکر و نظر, حالی نمبر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صفحہ 13)

3) حالی نے مادہ اور خیال کی بحث بھی پہلی بار اردو میں شروع کی تھی، اور یہ ثابت کیا کہ مادہ کے بغیر خیال کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ ایسے نظریات تھے جن پر دوسری زبانوں خاص طور سے انگریزی میں بحث ہوتی رہی ہے، اردو کا دامن یکسر اس سے خالی رہا ہے۔

4) حالی ہی تھے جنہوں نے پہلے پہل یہ آواز اٹھائی تھی کہ مطلق شعر بغیر وزن کے اپنی شعری شناخت قائم رکھ سکتا پے، باکل ایسے ہی جیسے راگ بنا بول کے، حالی کے یہاں صرف نظم کے لئے وزن ضروری ہے شعر کے لئے نہیں، نیز ایسے ہی قافیہ کے تعلق سے بھی حالی نے ضروری مباحث چھیڑ کر اپنی روایت قائم رکھی۔

5) شاعری میں تخیل کی ماہیت اور اس پر اچھی گرفت ہونے کی افادیت پر بھی حالی کی آواز میں انفرادیت ہے ، ان سے پہلے کہیں اس کا ذکر تک بھی نہیں ملتا۔

خلاصہ کلام یہ کہ یہ حالی کی دور بینی اور ان کی نگاہوں کا کرشمہ پی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے میں ان مباحث کو اٹھایا جو برسہا برس کے بعد اردو میں موضوع بحث بننے والے تھے، اور باکل اسی طور تسلیم کئے جاتے والے تھے جیساکہ حالی نے تسلیم کیا تھا، جب ہم حالی کے جملہِ سرمایہ تنقید کو سامنے رکھتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حالی نے اردو کو جو کچھ دیا ہے اس کی اولیت افادیت اور اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔

اشتراک کریں