اردو زبان کے تخلیقی عناصر

شواہد کا ایسا ماننا ہے کہ اردو زبان جنوبی ایشیا کی ایک بہت ہی اہم زبان ہے ، آزادئ ہندکے بعد اس زبان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا اور روز بروز ہوتا ہی چلا گیا، یہاں تک کہ ہندوستان کی اٹھارہ قومی زبانوں میں اس کا شمار ہونے لگا ، نیز  پاکستان کی سرکاری زبان بن گئی، اس زبان پر فارسی و عربی زبان کے خاصے اثرات کے باوجود یہ ہندی کی طرح ایک ہند آریائی زبان مانی گئی جو بر صغیر میں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی اور پھولی پھلی، بہر حال اس مضمون میں اسی امر پر قدرے تفصیلی روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی

اردوکا تاریخی و لسانی پس منظر

اردو زبان جودنیا کی پہلی تین بڑی بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں شمار کی جاتی ہے آج سے تین چار سو سال قبل وجود پذیر ہوچکی تھی مگر اس کے باوجود اپنی کوئی شناخت نہیں رکھتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کی ترویج میں کسی نہ کسی طور مسلمانوں کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے بالخصوص مدارس اسلامیہ کا اس میں اہم اور نمایا رول رہا ہے ، تاہم اردو اپنی بدوی صورت میں اہلِ اسلام سے قبل بھی برِ صغیر میں مختلف بولیوں کی صورت میں بولی جاتی تھی

تاریخی پس منظر

مسلمان، برِ صغیر میں تین اطراف سے آئے۔
عربوں اور اہلِ ہند کے تجارتی تعلقات محمد بن قاسم کی فتحِ سندھ سے قبل کم و بیش ۶۲۲ ء سے قائم ہو چکے تھے۔ یہ تجارتی تعلق جنوبی ہند میں دکن میں مالابار کے ساحلوں پر قائم ہوئے۔
۷۱۲ ء میں محمد بن قاسم سندھ کے راستے بطور فاتح، ہندوستان میں وارد ہوا اور اس کے فوجی ملتان تک پہنچے۔ ان میں سے بہت سوں نے بعد ازاں برِ صغیر میں ہی مستقل سکونت اختیار کر لی۔
برِ صغیر میں آنے والے سب سے زیادہ مسلمان فاتحین شمالی ہند یعنی موجودہ پشاور اور بلوچستان کی پختون پٹی کے راستے آئے۔

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جنوبی ہند اور سندھ سے آنے والے مسلمان اپنے ساتھ عربی زبان کے اثرات لائے اور شمالی ہند سے آنے والے مسلمانوں کے ساتھ فارسی اثرات برِ صغیر تک پہنچے اور یہ لسانی میل جول ساتویں صدی سے بارہویں صدی تک پھیلا ہوا ہے۔ بارہویں صدی کے آخر میں غوریوں کے مستقل حملوں اور قطب الدین کی حکومت ۱۲۰۶ ء سے ہندوستان پر باقاعدہ مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی جو بہادر شاہ ظفر کی جلا وطنی ۱۸۵۷ء تک قائم رہی۔ اردو کے نقوش اسی دور میں ابھر کر سامنے آئے۔

لسانی پس منظر

لسانی اعتبار سے بات کی جائے تو ہندوستان شروع سے متنو ع بولیوں اور زبانوں کا مرکز رہا ہے۔ وہ زبان جو بعد ازاں بالخصوص فارسی اور عربی کے اثرات قبول کر کے اردو کا منبع بنی، در اصل مختلف ناموں سے ہند کے مختلف حصوں میں بولی جاتی تھی

کم و بیش اڑھائی ہزار سال قبل سکندرِ اعظم کی آمد کے وقت پوٹھو ہاری خطّے میں بولی جانے والی ’ہندکی‘ جو بعد ازاں ’ہندکو‘ کہلائی، تھوڑے سے فرق سے دہلی میں ’دہلوی‘ اور گجرات میں ’گجری یا گوجری‘ کہلاتی تھی۔ یہی بولی کچھ مزید فرق سے دکن میں پہنچ کر’ دکھنی‘ کے نام سے موسوم کی جاتی تھی

اردو کے نقوش ابھرنے لگے تو یہی مقامی بولیاں فارسی کے اثرات سمیٹ کر ریختہ اور پھر اُردوے معلّیٰ کہلانے لگی۔ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ موجودہ اردو کے لیے لفظ ’اردو‘ پہلی بار کب استعمال ہوا

دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ نام ملنے سے بہت پہلے اردو اپنا جداگانہ تشخص قائم کر چکی تھی۔ لفظ ’اردو‘ بمعنی’ زبان ‘استعمال ہونے سے قبل بمعنی’ لشکر‘،’ لشکر گاہ‘ اور’ بازار‘ مستعمل ہو چکا تھا

محققین کی تحقیقات کے مطابق لفظ’ اردو‘ بمعنی زبان سب سے پہلے معروف شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے کم و بیش ۱۷۸۱ء میں استعمال کیا۔ اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے محققین مصحفی کے درج ذیل شعر کا حوالہ دیتے ہیں

خدا  رکھے زباں ہم   نے سنی   ہے میر  و  مرزا   کی
کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے

منقولہ شعر بذاتِ خود اس امر پر دال ہے کہ ’اردو‘ کا نام پانے سے قبل بھی اردو زبان میں ادبی کاوشوں کا آغاز ہو چکا تھا۔

 اردو کی پیدائش کے متعلق ابتدائی آرا

اردو زبان کے متعلق تحقیقی و لسانی بنیادوں پر نظریہ سازی کا آغاز بیسویں صدی کی دین ہے۔ البتہ اردو ادیبوں اور ابتدائی محققین کے بیانات میں اردو کے آغاز کے متعلق ابتدائی آرا مل جاتی ہیں

 میر امن دہلوی ۔ باغ و بہار

فورٹ ولیم کالج  کے تحت میر امن دہلوی نے معروف فارسی داستان ’قصّہ چہار درویش\’‘کا ’باغ و بہار‘ کے عنوان سے اردو ترجمہ کیا تو اس کے دیباچہ میں اردو کی پیدائش کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا

جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں ملکوں سے قوم، قدر دانی اور فیض رسانی، اس خاندانِ لاثانی کی سن کر حضور میں آ کر جمع ہوئے۔ لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جدا جدا تھی۔ اکٹھے ہونے سے، آپس میں لین دین کرتے، سودا سلف ، سوال و جواب کرتے، ایک زبان اردو مقرر ہوئی

میر امن کی منقولہ رائے اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اردو نے سولہویں صدی کے نصف آخر میں ظہور پکڑا

 سر سید احمد خان ۔ آثار الصنعادید

میر امن دہلوی کے بعد سر سید احمد خان نے دہلی کی تاریخی عمارتوں پر ’’آثار الصنعادید‘‘ کے نام سے کتاب لکھی تو اردو کے آغاز و اررتقا پر بھی قلم اٹھایا۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے لکھا

جبکہ شہاب الدین شاہ جہاں بادشاہ ہوا، اس وقت شہر میں تمام ملکوں کے لوگوں کا مجمع ہوا۔۔۔ جب آپس میں معاملہ کرتے، ناچار ایک لفظ اپنی زبان کا، دو لفظ اس کی زبان کے، تین لفظ دوسرے کی زبان کے ملا کر بولتے اور سوداسلف لیتے۔ رفتہ رفتہ اس زبان نے ایسی ترکیب پائی کہ خود بخود ایک نئی زبان ہو گئی

سر سید کا یہ بیان اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ سترہویں صدی کے ربع دوم میں شہاب الدین شاہ جہاں کی آمد پر دلّی میں جمع ہونے والے اجتماع کے نتیجے میں روز مرہ ضروریات کی تکمیل کی خاطر ہونے والے تبادلۂ خیال کے لیے وجود میں آنے والی زبان رفتہ رفتہ اردو کی صورت اختیار کر گئی

محمد حسین آزاد ۔ آبِ حیات

مولانا محمد حسین آزاد نے شعرائے اردو کا جدید تذکرہ مرتب کیا تو انہوں نے بھی اپنی تصنیف کے آغاز میں اردو زبان کی پیدائش پر اظہارِ خیال کیا اور کہا

ایک دن میں اسی خیال میں تھا۔۔۔کہ کس طرح اردو نے ظہور پکڑا۔۔۔تعجب ہوا کہ ایک بچہ شاہ جہانی بازار میں پھرتا ملے۔ شعرا اسے اٹھا لیں اور ملکِ سخن میں پال کر پرورش کریں۔ انجام کو نوبت یہاں تک پہنچے کہ وہی ملک کی تصنیف و تالیف پر قابض ہو جائے

آزاد کا مذکورہ بیان بھی سر سید کے منقولہ بالا بیان سے مماثلت رکھتا ہے۔ گویا شاہ جہانی بازار میں چلتی پھرتی اردو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ صورت اختیار کر گئی

منقولہ بالا تمام بیانات درست ہوتے ہوئے بھی مکمل نہیں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکبر اور شاہ جہاں کے عہد میں اپنے نقوش پکڑنے والی اردو زبان پیدا کہاں اور کب ہوئی

اس سوال کا جواب دینے کی کوشش بعد   کے ادبی اور لسانی محققین   نے کی اور بیسویں صدی میں اردو کی پیدائش کے حوالے سے درجنوں نظریات معرضِ اشاعت میں آئے۔ ان میں سے چند اہم نظریات کا اجمالی جائزہ ذیلی سطور میں لیا گیا ہے

 نصیر الدین ہاشمی: دکن میں اردو

بیسویں صدی میں اردو کی پیدائش کے حوالے سے باقاعدہ تحقیقات کا آغاز ہوا تو نصیر الدین ہاشمی   نے سب سے پہلے اپنے تحقیقی مقالہ باعنوان ’’دکن میں اردو\” میں دعویٰ کیا کہ اردو کی ولادت جنوبی ہند یعنی دکن میں ہوئی۔ انہوں نے اپنے دعویٰ کی بنیاد عربوں کے اہلِ ہند سے تعلقات کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ عربوں کے تعلقات سب سے پہلے دکن میں مالابار کے ساحلوں پر آنے والے عربوں کے ذریعے استوار ہوئے

محمد بن قاسم کی فتحِ سندھ سے کہیں پہلے ساتویں صدی کے ربع اول میں عرب تجارتی اغراض سے مالابار کے ساحلوں پر آنے لگے تھے۔ نصیر الدین ہاشمی نے اس بنیاد پر دعویٰ کیا کہ اردو در اصل اس مخلوط زبان کی ترقی یافتہ شکل ہے جس میں عرب اور دکنی تاجر آپس میں گفتگو کرتے تھے

یہ درست ہے کہ عربوں کے تجارتی تعلقات اہلِ ہند سے سب سے پہلے اسی راستے سے استوار ہوئے لیکن دکنی زبان دراوڑی خاندان سے ہے اور عربی سامی النسل زبان ہے۔ جبکہ اردو کو آریائی خاندان سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس تعلق سے چند الفاظ کا تبادلہ تو ہوا ہو گا تاہم صرف اس تجارتی تعلق سے کسی نئی زبان کی پیدائش کا نظریہ مبنی بر حقیقت محسوس نہیں ہوتا

اگر اس دعویٰ کو مان لیا جائے تو اردو پر عربی زبان کے اثرات دیگر زبانوں سے زیادہ ہونے چاہیے تھے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اردو کسی بھی دوسری زبان کے مقابلے میں فارسی اور پنجابی سے متاثر ہے۔ چنانچہ نصیر الدین کا دعویٰ اردو کے ارتقا کے حوالے سے تو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے، اردو کی ابتدا کے تناظر میں یہ نظریہ درست نہیں

 حافظ محمود شیرانی:  پنجاب میں اردو

نصیر الدین ہاشمی کے مذکورہ نظریہ کے پانچ سال بعد۱۹۲۸ء میں حافظ محمود شیرانی نے تاریخی اور لسانی بنیادوں پر یہ ثابت کیا کہ اردو کا مولد در اصل پنجاب ہے۔ اپنی کتاب ’’پنجاب میں اردو‘‘میں انہوں نے اپنے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے بہت سے تاریخی اور لسانی حوالہ جات دیے ہیں

تاریخی پہلو

تاریخی حوالے سے اپنے دعوہ کو ثابت کرنے کے لیے حافظ صاحب نے کہا کہ اگر اردو کی پیدائش کو مسلمانوں اور اہلِ ہند کے آپسی تعلقات سے موسوم قرار دینا طے ہے، تو یاد رکھنا چاہیے کہ سب سے زیادہ حملہ آور شمالی ہند سے آئے اور پنجاب سے ہوتے ہوئے وسطی اور جنوبی ہند تک پہنچے۔ چنانچہ اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ شمالی ہند سے وستی ہند تک پہنچتے پہنچتے کوئی مخلوط زبان ضرور اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں گے جس میں وہ آپس میں گفتگو کرتے ہوں گے

تاریخی حوالے سے اپنے دعویٰ کی حمایت میں حافظ محمود شیرانی نے کہا

اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں ہے بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے۔ اور چونکہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کر کے دہلی جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں

حافظ صاحب کا یہ دعویٰ اس لیے درست معلوم ہوتا ہے کہ محمود غزنوی پنجاب کے راستے ہندوستان میں داخل ہوا۔ ایک ہزار عیسوی میں ہونے والے ان حملوں کے نتیجے میں غزنی خاندان نے اپنے گورنر لاہور میں تعینات کیے۔ اس کے بعد مختلف حملہ آور اسی راستے سے برِ صغیر میں وارد ہوتے رہے۔ بالآخر۱۲۰۶ء میں قطب الدین ایبک نے دہلی میں باقاعدہ مسلمان حکومت کی بنیاد ڈالی۔ دو سو چھ سال کے اس طویل عرصے میں پنجاب میں مسلمانوں اور اہلِ پنجاب کے درمیان رابطے کی کوئی تو مخلوط زبان ہو گی جو دہلی پہنچتے پہنچتے جدید صورت اختیار کر گئی

لسانی پہلو

اپنے دعویٰ کی حمایت میں لسانی حوالے سے بات کرتے ہوئے حافظ شیرانی نے کہا

اس میں شک نہیں کہ اردو اور پنجابی میں ہندوستان کی دیگر زبانوں کے مقابلہ میں قریب ترین مماثلت ہے۔ ان کی صرف و نحو اور اہم قواعد و مسائل میں باہم مطابقت ہے اور ساٹھ فی صدی سے زیادہ الفاظ ان میں مشترک ہیں

پنجابی اور اردو کا موازنہ کیا جائے تو حافظ شیرانی کا مذکورہ نظریہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ اردو اور پنجابی کی صرفی ترکیب سازی اور نحوی ساخت میں بلا کی مماثلت پائی جاتی ہے۔

 سید سلیمان ندوی: سندھ میں اردو

۱۹۳۹ء میں سید سلیمان ندوی نے ’’نقوشِ سلیمانی‘‘ کے عنوان سے اپنے تحقیقی مقالات کا ایک مجموعہ شائع کیا جس کے چند مقالات میں انہوں نے اردو کی پیدائش پر بھی کلام کیا

ندوی صاحب نے دعویٰ کیا کہ اردو دکن یا پنجاب سے نہیں سندھ سے ہے۔ ان کے دعویٰ کی بنیاد محمد بن قاسم کی فتحِ سندھ ۷۱۲ء ہے۔ اس بنیاد پر انہوں نے کہا

قرینِ قیاس یہی ہے کہ جسے ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولہ وادیِ سندھ میں تیار ہوا ہو گا‘‘
تاہم اپنے ایک اور مضمون میں ندوی صاحب نے اپنے ہی دعویٰ کو یہ کہتے ہوئے کمزور کر دیا:
’’یہ (اردو) مخلوط زبان سندھ،گجرات، اودھ، دکن، پنجاب اور بنگال، ہر جگہ کی صوبہ وار زبانوں سے مل کر ہر صوبہ میں الگ الگ پیدا ہوئی

ظاہر ہے اگر ان کے آخر الذکر بیان کو درست مان لیا جائے تو ان کا اول الذکر دعویٰ از خودزائل ہو جاتا ہے۔ اسی تصادم کے باعث سید سلیمان ندوی کی لسانی تحقیقات عدم توجہی کا شکار ہو گئیں

 اردو کی پیدائش کے متعلق لسانی نظریات

اب تک کے بیان کردہ نظریات میں اردو کو کسی نہ کسی علاقے سے منسوب کیا گیا۔ جدید لسانیات دانوں نے دعویٰ کیا کہ ضروری نہیں کہ زبان کسی خاص علاقے میں جنم لے۔ زبانیں ،زبانوں کے بطن سے جنم لیتی ہیں۔ اسی لیے اردو کی پیدائش پر بات کرتے ہوئے علاقائی مباحث کی بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ اردو نے کس زبان کے بطن سے جنم لیا

ایسے جدید لسانی نظریہ سازوں میں ڈاکٹر شوکت سبز واری اور ڈاکٹر مسعود حسین خاں کا نام نمایاں ہے

ڈاکٹر شوکت سبز واری:   اردو زبان کا ارتقا

ڈاکٹر شوکت سبز واری نے ’’اردو زبان کا ارتقا‘‘ میں دعویٰ کیا کہ

قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ (اردو) میرٹھ اور اس کے نواح ہمیں بولی جاتی تھی۔ پالی اس کی ترقی یافتہ اور معیاری شکل ہے۔۔۔اردو اور پالی کا منبع ایک ہے

قطع نظر اس امر سے کہ اردو اور پالی زبانوں کا منبع ایک ہے یا نہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میرٹھ کے نواح میں بولی جانے والی زبان اور موجودہ اردو میں صرفی و نحوی مماثلت نظر آتی ہے

اس سوال کا جواب تلاش کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اردو میرٹھ کے نواح میں بولی جانے والی اس بولی سے قریب تر ضرور ہے جو بذاتِ خود پنجابی سے قریبی مماثلت رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے حافظ شیرانی کے نظریہ کو تقویت ملتی ہے

ڈاکٹر مسعود حسین خاں:   مقدمہ تاریخِ زبانِ اردو

شوکت سبز واری کی طرح ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے بھی اردو زبان کو کم و بیش دہلی اور اس کے گرد و نواح میں بولی جانے والی بولیوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اس حوالہ سے انہوں نے کہا

مسلمانوں کی فتحِ دہلی سے قبل زبان کا جو کینڈا تھا وہ نہ تو برج بھاشاہے نہ کھڑی بولی، بلکہ اس عہد کی قدیم اپ بھرنش، روایات میں جکڑی ہوئی زبان ہے جس پر راجستھانی کا اثر نمایاں ہے

ڈاکٹر مسعود راجستھانی اثرات کی حامل جس اپ بھرنش (ایک مقامی بولی) کا تذکرہ کر رہے ہیں وہ بھی اول تو دہلی کے گرد و نواح میں بولی جاتی تھی اور دوم چونکہ راجستھانی پر بذاتِ خود پنجابی کے اثرات نمایاں ہیں اس لیے اس مبینہ بولی پر بھی یہی اثرات ہوں گے

بہرحال جدید لسانیات دانوں کے لسانی نظریات بھی ایک تو علاقایت سے بے بہرہ نہ ہو سکے اور دوسرا کسی نہ کسی طور ان نظریات میں پنجابی یا اس سے متاثرہ زبانوں کی چھاپ نظر آتی ہے۔

  • چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ اب تک منظرِ عام پر آنے والے تمام نظریات میں حافظ محمود شیرانی کے نظریہ کو فوقیت حاصل ہے
اشتراک کریں