اردو زبان و ادب کا ارتقا

اردو کا ابتدائی دور

اردو کو خالصتاً برِ صغیر کی زبان کہا جائے یا بیرونی حملہ آوروں کی فتوحات کا ثمرہ، اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اردو کے فروغ اور جداگانہ تشخص کی تشکیل میں مسلمانوں کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ اردو زبان و ادب پر فارسی اور عربی کے اثرات اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اہلِ اسلام کے انہیں اثرات کا شاخسانہ تھا کہ انیسویں صدی کے نصف آخر سے ہندو اردو کو مسلمانوں کی نمائندہ زبان تصور کرنے لگے تھے۔

اردو زبان کے ارتقا پر طائرانہ نظر ڈالنے سے بھی یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں نے بطور خاص اردو زبان کو اپنایا۔اس سلسلہ میں ان صوفیا اکرام کی کاوشیں فی الحقیقت قابلِ ستائش ہیں جنہوں نے اپنی تعلیمات کے پھیلاو اور تبلیغِ اسلام کے لیے اردو کو وسیلۂ اظہار بنایا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اردو سب سے پہلے ان صوفیاکرام کی خانقاہوں ہی میں پروان چڑھتی ہے۔

اردو زبان کے پہلے شاعر حضرت امیر خسرواؒ بھی ایک صوفیِ کامل تھے۔ انہوں نے اپنے عارفانہ کلام کے لیے اردو ہی کو چنا۔

اسی طرح اردو کے پہلے نثر نگار دکن کے معروف صوفی خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ ہیں۔ ان کا مذہبی رسالہ ’’معراج العاشقین‘‘ اردو کی پہلی نثری تصنیف ہے۔

۱۴۹۶ء میں شمس العشاق شاہ میراں جی کا رسالہ ’’خوب ترنگ‘‘ بھی ایک ایسی ہی مثال ہے۔ اسی طرح شیخ عین الدین گنج العلم کے تین مذہبی رسالے بھی ابتدائی اردو نثر کی مثالیں ہیں۔

گویا اردو زبان کو سب سے پہلے صوفیا کرام نے فضیلت بخشی اور مقامی لب و لہجہ اور زبان کا کینڈا صوفیا اکرام کی تعلیمات کے نتیجہ میں مشرف با اسلام ہو ا تو اردو کا روپ دھار گیا۔

اردو زبان و ادب سترہویں صدی میں

آج سے چار ساڑھے چار سو سال قبل کے اردو زبان و ادب کے نمونوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان پر اردویت کا گمان کم ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ سولہویں اور سترہویں صدی کے سرمایۂاردو کی اہمیت اب محض تاریخی نوعیت کی ہی رہ گئی ہے۔ قدیم الفاظ اور غیر مانوس املائی طریق کے باعث ان نمونوں میں آج کے قاری کو کوئی تاثیر نظر نہیں آتی۔ اس کے باوجود اردو زبان و ادب کے ارتقائی عمل سے آشنائی کے لیے ان نمونوں سے تعارفی آشنائی ضروری ہے۔

دکن کی شعری روایت

اردو کے شعری ادب کا سب سے پہلا مرکز دکن ہے۔ وہاں کی دو اہم ریاستوں، گولکنڈا اور بیجا پور میں سب سے پہلے اردو کو پنپنے کا موقع ملا۔

در اصل سولہویں صدی کے نصف آخر اور سترہویں صدی کے آغاز میں گولکنڈا میں قطب شاہی اور بیجا پور میں عادل شاہی خاندانوں کی حکومت تھی اور ان کے فرما نروا بذاتِ خود شاعر تھے۔ چنانچہ دربار میں شعرا کو اہم مقام حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دکن شعری روایت کا سب سے پہلا مرکز بن کر ابھرا۔

اس دور کے اہم شعرا میں غواصی، نصرتی، کمال خاں رستمی، نظامی، مقیمی اور مشتاقی جیسے شعرا کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ان شعرا کے سامنے اردو شاعری کا کوئی مروجہ نمونہ نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے فارسی شعری روایت کے اتباع میں مقامی الفاظ کی گھلاوٹ سے نیا اسلوب اور آہنگ ایجاد کیا۔

شعری روایت میں اس دور کا سب سے بڑا نام قلی قطب شاہ (متوفی ۱۶۱۱ء) ہے۔ جسے اپنی زود گوئی اور تخلیقی طبع کی بدولت اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

نثری میدان میں اس دور کے واحد ادبی نثر نگار ملا وجہی کا نام آتا ہے۔ وجہی ایک قادر الکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ اسلوب نثر نگار بھی ثابت ہوا۔ اس نے ۱۶۳۵ء میں فارسی داستان گو فتاحی نیشا پوری کی داستان ’’دستور العشاق‘‘کے خلاصہ ’’قصّۂ حسن و دل‘‘ کو ’’سب رس‘‘ کے نام سے اردو میں ڈھالا۔ وجہی کا مترجمہ متن آج کے قاری کو بالکل اجنبی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہی اجنبی اسلوب اپنے دور کی نہایت تخلیقی مثال تھی۔

مختصر کلام یہ کہ سترہویں صدی میں اردو زبان ادبی اعتبار سے اپنی جداگانہ حیثیت اختیار کرنے لگیاور اس سلسلہ میں سب سے پہلے دکن نے اسے سہارا دیا۔ اسی لیے دکن کو اردو کی ادبی روایت میں اولی ن مرکز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

اردو شاعری کا عہدِ زرّیں – عہدِمیر و سودا

اردو شاعری دکن سے نکل کر ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی جیسے شعرا کی بدولت اٹھارہویں صدی کے ساتھ دہلی پہنچی۔ اٹھارہویں صدی کی پہلی دہائی میں ولی دکنی نے دہلی کا دورہ کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ان کی عشقیہ شاعری دہلی کی گلی گلی میں گونجنے لگی۔ دوسری طرف سراج اورنگ آبادی نے اپنے انداز میں اردو شاعری کو آگے بڑھایا یوں دکن میں پروان چڑھنے والی شاعری اٹھارہویں صدی تک شمالی ہند پہنچ گئی۔

ولی اور اورنگ آبادی کے بعد اردو شاعری پر کم و بیش پندرہ، بیس سال تک ایہام کا رنگ غالب رہا۔ یعنی اردو شعرا نے شعوری طور پر ایسی شاعری کی جس میں ایک سے زائد معنی نکالے جا سکیں۔ نیز ایسا اسلوب اختیار کیا گیا جو معنوی گہرائی سے زیادہ لفظی بازی گری کا نمونہ تھا۔ مرزا مظہر جانِ جاناں اور حاتم جیسے شعرا نے اس منفی رجحان کے خلاف آواز اٹھائی اور اردو شاعری کی اصلاح کی۔ اُن کی اِن کاوشوں کے نتیجے میں اردو شعر و ادب میں ایسا انقلاب آیا کہ ان کے بعد میر و سودا اور ان کے ہم عصروں نے اردو شاعری کو کسی بھی عالمی معیاری ادبی سرمائے کے بالمقابل لا کھڑا کیا۔ اسی عظمت کے اعتراف میں میر و سودا کے دور کو اردو شاعری کا عہدِ زرّیں کہا جاتا ہے۔

چونکہ میر اور سودا سمیت اس دور کے تمام اہم شعرا کا عرصہِ حیات۱۷۲۰ء سے۱۸۱۰ء کے درمیان بنتا ہے اس لیے میر و سودا کا دور زمانی اعتبار سے ۱۷۴۰ء سے۱۸۱۰ء تک محیط قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اٹھارہویں صدی کی تیسری دہائی میں پیدا ہونے شعرا نے متوقع طور پر ۱۷۴۰ء تک شعری میدان میں قدم رکھا ہو گا۔

میرتقی میر اور مرزا رفیع سودا بلا شبہ اس دور کے امام ہیں۔ میر نے یوں تو ہر معروف صنفِ شعر میں طبع آزمائی کی البتہ اردو غزل کو انہوں نے ناقابلِ تقلید معیار عطا کیا۔ انہیں اپنی اس عظمت کا علم بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ کہا

سارے عالم پہ ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

دوسری طرف مرزارفیع سودا نے بھی مختلف اصنافِ شام لیا جا سکتا ہے۔ صفِ دوم کے یہ شعرا بھی اپنے میدان میں خاصی تخلیقیت کے حامل تھے لیکن اول الذکر چار شعرا کی عظمت اپنے دور کے باقی شعرا کے کمالات کو گہنا گئی۔ عر میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی تخلیقیت کے اصل جوہر قصیدہ گوئی میں ابھر کر سامنے آئے اور تمام ناقدین متفق ہیں کہ سودا نے اردو قصیدہ کو فارسی قصیدہ کے برابر لا کھڑا کیا۔ اپنے اسی افتخار کا بیان کرتے ہوئے سودا نے کہا

انوری، سعدی و خاقانی و مداح ترا
رکھتے ہیں زیرِ فلک طبل و علم چاروں ایک

خواجہ میر درد اسی دور کے ایک اور اہم شاعر ہیں۔ درد نے اردو کی متصوفانہ روایت کو زندہ کیا۔ یہ درست ہے کہ ان سے پہلے بھی اردو شاعری میں عشقِ حقیقی کا بیان مل جاتا تھا مگر جس شد و مد سے درد نے صوفیانہ موضوعات کا پرچار کیا، ان سے پہلے مفقود تھا۔ چنانچہ میر درد کو اردوشاعری کی صوفیانہ روایت کا باوا آدم کہا جاتا ہے

میر حسن نے مثنوی نگاری کے میدان میں کمال دکھایا۔ ان کی مثنوی سحر البیان بلا شبہ جادوئی اسلوب کی حامل ہے

گویا میر و سودا کے دور میں اردو شاعری موضوعی اور فنی ہر دو اعتبارات سے بلندیوں کو چھو گئی۔ اس دور کے دیگر شعرا میں انعام اللہ خاں یقین، قائم چاند پوری، میر اثر اور میر سوز جیسے قادرا لکلام شعرا کا نام لیا جا سکتا ہے۔ یہ شعرا بھی اپنی تخلیقیت اور قادر الکلامی میں کسی سے کم نہ تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی عظمت کو اول الذکر چار عظیم شعرا کی بلند نوائی اور ادبی شکوہ گہنا گیا۔

ورٹ ولیم کالج: اردو نثر کا نقشِ اول

اگرچہ شاعری کی طرح اردو نثر کی تاریخ بھی سولہویں صدی سے شروع ہو جاتی ہے لیکن انیسویں صدی کے طلوع سے قبل اردو نثر محض ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر ہی زندگی ارتقائی عمل سے گزرتی رہی۔

سترہویں صدی میں صوفیا کرام سے ہٹ کر ادبی میدان میں صرف ملا وجہی کی ’’سب رس‘‘ہی ایسی مترجمہ تصنیف ہے جسے ادبی نثر کی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

اٹھارہویں صدی بھی اس اعتبار سے زیادہ زرخیز ثابت نہیں ہوتی۔۱۷۳۷ء میں فضل علی فضلی نے ملا واعظ حسین کاشفی کی کتاب ’’روضۃ الشہدا‘‘کا اردو ترجمہ کیا۔ جبکہ میر عطا حسین خاں تحسین نے فارسی زبان میں لکھے گئے ’’قصّہ چہار درویش ‘‘کو ۱۷۷۵ء میں ’’نو طرزِ مرصع‘‘کے عنوان سے اردو زبان میں ڈھالا۔

ان ادبی مثالوں کے علاوہ قرآن پاک کے ابتدائی تراجم اور اٹھارہویں صدی کی آخری دہائی میں ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی لغات اور اردو زبان کے قواعد پر ایک کتابچہ جیسی غیر ادبی تصانیف کی بدولت اردو نثر آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہی۔

اٹھارہویں صدی کے اواخر تک انگریز ہندوستان پر حکومت کی باقاعدہ تیاری کرنے لگے تھے۔ اس سلسلہ میں وہ یہ جانتے تھے کہ کسی بھی قوم پر حکومت کے لیے اس کی زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کو جاننا اور سیکھنا از حد ضروری ہے۔ چنانچہ انگلستان سے آنے والے انتظامی افسران اور فوجیوں کو اردو زبان سکھانے اور انہیں ہندوستانی تہذیب سے آشنا کرنے کے لیے انگریزوں نے کلکتہ میں۱۸۰۰ء میں فورٹ ولیم کالج کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس کے شعبۂ ہندوستانی کے سربراہ ڈاکٹر جان گلکرسٹ تھے۔ اگرچہ اس ادارے کا اصل مقصد محض انگریزوں کو ہندوستانی زبانوں اور تہذیب سے متعارف کروانا تھا لیکن گلکرسٹ کی ذاتی دلچسپی کے باعث فورٹ ولیم کالج اردو نثر کا پہلا مرکز بن گیا۔

گلکرسٹ نے اہلِ مغرب کو زبانِ اردو سکھانے کے لیے قواعدِ اردو کے کتابچوں کے ساتھ ساتھ بہت سی فارسی، عربی اور سنسکرت داستانوں اور غیر افسانوی کتب کا اردو ترجمہ کروایا۔ اس مقصد کی خاطر اس نے مترجمین کی ایک جماعت بنائی جس کا کام ہی مختلف زبانوں کی معیاری نثر کو اردو میں منتقل کرنا تھا۔

چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اردو نثر جس میں گزشتہ دو سو سال میں درجن بھر معیاری کتب تلاش کرنا بھی محال تھا، اردو نثر کے مثالی نمونوں سے بھر گئی۔ سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے نثر نگاروں نے آئندہ کے مصنفین کے لیے ایک معیار فراہم کر دیا۔ یوں جدید اردو نثر کا آغاز ہوا جس کی اساس سادگی و سلاست اور نفسِ مضمون کے آسان اور بے تکلف اظہار پر تھی۔

فورٹولیم کالج کے معرو ف ترین نثرنگارمیرامن دہلوی ہیں۔ میرامن کی دوکتابیں ’’باغ وبہار‘‘ اور’’ گنجِ خوبی‘‘ انکی یادگارہیں۔ انکے علاوہ حیدربخش حیدری کی ’’توتاکہانی‘‘ اور’’آرا ئشِ محفل‘‘،میربہادر علی حسینی کی’’ نثرِبینظیر‘‘ اور’’اخلاقِ ہندی‘‘، مظہر علی ولا کی ’’بیتال پچیسی‘‘ اور خلیل علی خاں اشک کی ’’داستان امیر حمزہ‘‘ ، فورٹ ولیم کالج کی قابلِ صد ستائش یاد گاریں ہیں۔

اردو زبان و ادب: انیسویں صدی میں

انیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے اردو ادب اپنے پاؤں پر کھڑا ہو چکا تھا۔ شعری روایت کا آغاز دکنی شعرا نے فراہم کر دیا جس پر ولی اور ان کے جاں نشینوں نے ایک مضبوط عمارت تعمیر کی۔ بعد ازاں میر و سودا اور ان کے ہم عصروں نے اردو کی شعری روایت کو امر کر دیا۔

دہلوی اور لکھنوی دبستان

انیسویں صدی تک اردو کی شعری روایت ارتقائی مراحل طے کرتے کرتے اس قدر مضبوط ہو گئی تھی کہ اس میں رجحان سازی اور مختلف رجحانات کی شعوری پیروی بھی شروع ہو گئی تھی۔ انہیں مختلف رجحانات نے مختلف دبستانوں کو جنم دیا۔

ان دبستانوں میں دہلوی اور لکھنوی دبستان نمایاں ہیں۔ اپنے اپنے خاص پس منظر کے باعث لکھنؤ اور دہلی کے شعرا کے یہاں فکری اور فنی دونوں سطح پر بہت بُعد پایا جاتا تھا۔ دہلی میں آئے دن کے ہنگاموں کے باعث زندگی بہت مغموم اور رنجور ہو کر رہ گئی تھی۔ اسی لیے دہلوی شعرا فکری حوالے سے کسی قدر غم پسند ہو گئے تھے۔ میر و سودا کے دور کے شعرا کے یہاں بالعموم غم کی یہ لہر واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

فنی اور فکری حوالے سے دہلوی دبستان کی نمایاں خصوصیات سادگی و سلاست، بے ساختگی، داخلیت، درد و غم، اور صوفیانہ موضوعات ہیں۔ اس دبستان کی ترویج میں میر و سودا کے عہد نے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔

لکھنوی دبستان کو کافی حد تک دہلوی دبستان کی ضد قرا دیا جا سکتا ہے۔ شہرِ دہلی کی تباہی اور لکھنؤکی خوش حالی نے دونوں شہروں کے باسیوں کے مزاج میں بہت اختلاف پیدا کر دیا۔ لکھنو چونکہ مرکز سے دور تھا اس لیے وہاں بیرونی حملہ آوروں کی رسائی دہلی سے کہیں کم تر ہوتی تھی۔ چنانچہ دہلی سے بہت سے لٹے پٹے قافلے لکھنو پہنچ کر پناہ لیتے۔ انہیں قافلوں میں بہت سے شعرا بھی شامل تھے۔

لکھنوی دبستان کی نمایاں خصوصیات عیش و نشاط کے موضوعات کا بیان، لفظی بازی گری، اسلوبیاتی تصنّع،معاملاتِ عشق و محبت کا اظہار اورپر شکوہ لب و لہجہ قرار دی جا سکتی ہیں۔

لکھنوی دبستان کی متذکرہ خصوصیات کی تشکیل میں پہلے انشا اور مصحفی اور بعد ازاں خواجہ حیدر علی آتش اورامام بخش ناسخ اور ان کے شاگردوں نے اہم کردار ادا کیا۔

انیسویں صدی کے شعری ادب کی شناخت: غالب و مومن کا دور

اٹھارہویں صدی میں میر و سودا کے دور کی بدولت اردو شاعری اپنی الگ شناخت قائم کر چکی تھی۔ انیسویں صدی میں اسے چند مزید ایسے عظیم شعرا میسر آئے جنہوں نے اردو شاعری کو عالم گیریت عطا کی۔ اس سلسلہ میں اہم ترین نام اسد اللہ خان غالب کا ہے۔ غالب نے اردو شاعری کو نئے اسلوب اور جدید موضوعات سے نوازا۔ ان کے علاوہ مومن خان مومن، شیخ ابراہیم ذوق، بہادر شاہ ظفر، نواب مصطفیٰ خان شیفتہ، مولانا الطاف حسین حالی، شاہ نصیر اور ایسے دیگر شعرا نے اس دور کو امر کیا۔ شعری روایت کے اس دور کو غالب و مومن کا دور کہا جاتا ہے۔ زمانی اعتبار سے اس دور کو۱۸۱۰ء سے۱۸۷۰ء تک محدود کیا جا سکتا ہے۔

علی گڑھ تحریک: اردو نظم و نثر میں وسعت

ٓ۱۸۵۷ء میں جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمانوں کی حکومت جاتی رہی اور انگریز برِ صغیر پر قابض ہو گئے۔ اس دور میں سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ ان کی مختلف خدمات میں ایک اہم ترین کارنامہ علی گڑھ سکول کا قیام ہے جو بعد ازاں کالج اور پھر بیسویں صدی میں یونیورسٹی کے درجہ کو پہنچا۔ یہاں کے فارغ التحصیل طلبا نے مسلمانوں کی ادبی اور سیاسی زندگی میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ علی گڑھ کے انہیں طلبا کی کاوشوں اور سر سید احمد خاں کے رفقا کی جد و جہد کو علی گڑھ تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اردو نظم و نثر کی ترقی میں بھی علی گڑھ تحریک کا کردار بہت اہم ہے۔ اس تحریک سے اردو شاعری میں جدت آئی اور اردو نثر نئے موضوعات اور سانچوں سے آشنا ہوئی۔ اس تحریک کے زیرِ سایا سر سید نے اردو نثر میں مضمون نویسی کا آغاز کیا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اصلاحِ شعر کے ساتھ ساتھ اردو میں ادبی تنقید کی بنیاد رکھی۔ مولانا محمد حسین آزاد اور شبلی نعمانی نے اردو زبان کو ادبی تاریخ کا فن سکھایا۔ مولوی نذیر احمد نے ناول نگاری کی طرح ڈالی۔ یوں اردو نثر کا دامن وسیع تر ہو گیا اور اس میں مختلف موضوعات کے اظہار کی گنجائش نکل آئی۔

اردو ادب بیسویں صدی میں

بیسویں صدی اپنے ساتھ نئے رجحانات لائی۔ علی گڑھ تحریک نے جہاں اردو ادب کو وسعت بخشی ،وہیں اس سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ سر سید کی ضرورت سے زیادہ مقصدیت پسندی نے اردو ادب کو کافی حد تک بے رنگ کر دیا۔ چنانچہ مغربی ادب کے زیرِ اثر اردو ادب میں رومانوی تحریک کا آغاز ہوا۔ نتجیتاً ادب برائے مقصد کی بجائے ادب برائے ادب کا نعرہ بلند ہوا اور طے پایا کہ ادب کا اہم ترین مقصد طبعِ حساس کی تسکین ہونا چاہیے۔

رومانوی تحریک

اردو ادب میں رومانوی رجحان کا آغاز سر عبدالقادر کے رسالہ مخزن سے ہوا جس میں مغربی ادب پاروں کے تراجم کے ساتھ ساتھ اردو ادیبوں کی ایسی تحریریں شائع ہوتی تھیں جن میں احساسات و جذبات کے اظہار، جمال پرستی اور فطرت پسندی کو فوقیت حاصل ہوتی تھی۔

موضوعی تبدیلی کے ساتھ ساتھ فنی اعتبار سے بھی اردو ادب میں رومانوی تحریک سے بہت تغیرات آئے۔ سجاد حیدر یلدرم نے اردو افسانے کی بنیاد رکھی اور حفیظ جالندھری نے گیت نگاری کو فروغ دیا۔ وہ اسلوب جسے علی گڑھ کے پیرو کاروں نے اس قدر سادہ کر دیا تھا کہ اس میں ادبی شان مفقود ہونے لگی تھی، ایک مرتبہ پھر شگفتہ بیانی سے آراستہ ہو گیا۔
رومانوی تحریک کے نمایاں ادیبوں میں سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی اور ایسے دیگر نام لیے جا سکتے ہیں۔

ترقی پسند تحریک

علی گڑھ تحریک کی طرح رومانوی تحریک بھی اپنے نظریہ میں انتہا پسند ثابت ہوئی۔ علی گڑھ تحریک نے اردو ادب کو محض مقصدیت پسند بنا دیا تھا تو رومانوی ادیبوں نے اسے کم و بیش مقصدیت پسندی سے بالکل بے بہرہ کر دیا۔ مزید یہ کہ بیسویں صدی کے عالمی تغیرات اور برِ صغیر کے بدلتے ہوئے حالات بھی رومانوی تحریک کے لیے موزوں نہ رہے۔ معاشرے میں سماجی شعور کی بیداری اور روسی انقلاب سے حالات کچھ یوں بدلے کہ بہت سے ادیب یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ ادب کس کام کا جو قارئین کو سماجی شعور نہ دے پائے اور اس میں معاشرتی صورتِ حال کا عکس نظر نہ آئے۔ چنانچہ۱۹۳۰ء میں سجاد ظہیر، رشید جہان، محمود ظفر اور احمد علی نے ’’انگارے‘‘کے نام سے ایک افسانوی مجموعہ شائع کیا جو رومانوی اسلوب سے بالکل مختلف تھا۔ اس مجموعہ میں شامل افسانوں میں حقیقت نگاری کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ یہ انقلابی اسلوب بعد ازاں ترقی پسند تحریک کی اساس بنا۔

ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز۱۹۳۶ء میں ہوا۔ ترقی پسندوں کا منشور یہ تھا کہ ایسا ادب تخلیق کیا جائے جو معاشرہ کی اصل تصویر پیش کرے اور محکوموں، مجبوروں اور زیریں طبقات کا ترجمان ہو۔ چنانچہ طبقاتی کشمکش، انقلاب پسندی، بغاوت، حقیقت نگاری اور مزاحمتی اسلوب ترقی پسند تحریک کے اساسی نکات قرار پائے۔

ترقی پسند تحریک کے نمایاں ناموں میں پریم چند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، قراۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، مجید امجد، ن م راشد، علی سردار جعفری، فیض احمد فیض، اختر الایمان اور ایسے دیگر نام لیے جا سکتے ہیں۔
بیسویں صدی کے نصف اول تک اردو ادب ،عالمی ادب میں اپنی شناخت قائم کر چکا تھا۔ نظم و نثر کے تمام مروجہ اسالیب اور سانچے اردو ادب میں نظر آنے لگے تھے۔ چنانچہ قیامِ پاکستان کے بعد جہاں عالمی ادبیات کے تراجم کا رجحان بڑھا وہیں اردو فن پاروں کو بھی بڑی تعداد میں عالمی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔یوں آج اردو ادب مقامی قارئین کے ساتھ ساتھ عالمی قارئین کے لیے بھی کشش کا باعث ہے۔اردو زبان و ادب کا ارتقا

اشتراک کریں